ہمارے جسم کے اعضاء مثلاً آنکھ،  کان، زبان، دل اور پاؤں وغیرہ جو آج ہر اچھے اور برے کام میں ہمارے معاون ہیں، کسی بھی نیکی کے کام پر حوصلہ افزائی یا گناہ کے اِرتکاب پر ملامت کرنے کی بجائے بالکل خاموش رہتے ہوئے ہمیں اپنے تاثرات سے مکمل طور پر محروم رکھتے ہیں، بروزِ قیامت یہی اعضاء ہمارے اعمال پر گواہ ہوں گے کہ ہم انہیں کن کاموں میں استعمال کرتے رہے ہیں، سورۂ بنی اسرائیل میں ارشاد ہوا ہے:اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْــئُوْلا ۔ ترجمہ:بے شک کان اور آنکھیں اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔(پ 15، بنی اسرائیل:36)اس آیت کے تحت تفسیرِ قرطبی میں ہے :یعنی ان میں سے ہر ایک سے اس کے استعمال کے بارے میں سوال ہوگا، چنانچہ دل سے پوچھا جائے گا : اس کے ذریعے کیا سوچا گیا اور پھر کیا اعتقاد رکھا گیا، جبکہ آنکھ اور کان سے پوچھا جائے گا:تمہارے ذریعے کیا دیکھا اور سنا گیا۔(جلد 20، صفحہ 139)جبکہ سورۂ نور میں ارشاد فرمایا گیا:یَوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۔ ترجمہ کنزالایمان:جس دن ان پر گواہی دیں گی ان کی زبانیں، ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں جو کچھ کرتے تھے۔(پ 18، نور: 24)حضرت علامہ سیّد محمد آلوسی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:مذکورہ اعضاء کی گواہی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک اپنی قدرتِ کاملہ سے انہیں بولنے کی قوت عطا فرمائے گا، پھر ان میں سے ہر ایک اُس شخص کے بارے میں گواہی دے گا کہ وہ ان سے کیا کام لیتا رہا ہے۔(تفسیر روح المعانی، جلد 18، صفحہ 442)زمین:یہ زمین جس پر ہم اپنی زندگی کے شب و روز بسر کرتے ہیں اور اس سے کسی قسم کی جھجک یا شرم محسوس کئے بغیر ہر جائز و ناجائز فعل کر گزرتے ہیں، آج یہ ہماری کسی حرکت پر اپنے ردِّ عمل کا اظہار نہیں کرتی، لیکن کل قیامت کے دن یہ بھی ہمارے بارے میں گواہی دے گی، چنانچہ سورۂ زلزال میں ارشاد ہوتا ہے:یَوْمَىٕذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَهَاۙ۔ترجمہ کنزالایمان:اس دن وہ (یعنی زمین) اپنی خبریں بتائے گی۔ (پ30، زلزال:4)اور حدیث مبارکہ میں حضرت ربیعہ جرشی رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:زمین سے محتاط رہو کہ یہ تمہاری اصل ہے اور جو کوئی اس پر اچھا یا برا عمل کرے گا، یہ اس کی خبر دے گی۔ (جلد 8، صفحہ 541)دن اور رات:آج ہم کوئی بھی کام کرتے وقت دن کے اُجالے یا رات کی تاریکی کی مطلقاً پروا نہیں کرتے، لیکن بروزِ قیامت یہ بھی ہماری نیکی یا بدی پر گواہ ہوں گے، جیسا کہ حضرت مغفل بن یسار رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے: نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:کوئی دن ایسا نہیں جو دنیا میں آئے اور یہ نداء نہ کرے ، اے ابنِ آدم!میں تیرے ہاں جدید مخلوق ہوں، آج تو مجھ میں جو عمل کرے گا، میں کل قیامت کے دن اس کی گواہی دوں گا، تُو مجھ میں نیکی کر، تا کہ میں تیرے لئے قیامت میں نیکی کی گواہی دوں، میرے چلے جانے کے بعد تو کبھی مجھے نہ دیکھ سکے گا، پھر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اور رات بھی یوں ہی اعلان کرتی ہے۔(حلیۃ الاولیاء، جلد 2، صفحہ 344، رقم الحدیث 2501)