کسی
مسلمان کو نا حق قتل کرنا کبیرہ گناہ اور قرآ ن وحدیث کے خلاف ہے چناچہ قرآن
مجید فرقان حمید میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ
یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ
غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمً (پارہ 5سورۃ النساء ایۃ 176) ترجمہ: اور جو کوئی
مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور
اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب اس آیت
مقدسہ میں جان بوجھ کر کسی مسلمان کو قتل کرنے کے اخروی وعید بیان کی گئی ہے (
تفسیر کبیر )
مسلمان کو ناحق قتل کرنے کی مذمت:کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا کبیرہ گناہ
ہے اور کثیر احادیث مبارکہ میں اس کی مذمت بھی بیان کی گئی ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور جان
عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو
نا حق قتل کرنا ہے ( بخاری ، کتاب الدیات ، باب قول اللہ تعالی : ومن احیاھا ، ج
4، ص 358 حدیث 6871)
کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن
بڑے نقصان میں ہوگا چنانچہ حضرت ابوبکر
صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ،
اگر زمین وآسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جع ہوجائیں تو اللہ تبارک وتعالی سب
کو اوندھے منہ جھنم میں ڈال دے۔( معجم صغیر ، باب العین ، من اسمہ علی ، ص 205 ،
الجزء الاول )
بروز قیامت اللہ کی بارگاہ میں مایوسی:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور
جان عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف
جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال
میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا یہ اللہ کی رحمت سے
مایوس ہے (ابن ماجہ ،کتاب الدیات ،باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلما ، ج 3،ص 262 حدیث
2660)
افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا ہے
چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی
لڑائی، تَعَصُّب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا
ہے، گروپ اور جتھے اور عسکری وِنگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارتگری کرنا
ہے اللہ کریم تمام مسلمانوں کو قتل نا حق اور دیگر تمام صغیرہ کبیرہ گناہوں سے
محفوظ فرمائے آمین
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔