محمد محسن رضا عطّاری (درجۂ رابعہ جامعۃُ
المدینہ قصور لاہور، پاکستان)
آج کل معاشرہ
تباہی کے گڑھے میں پھنسلتا چلا جارہاہے ایک دوسرے کو قتل کرنا انٹرنیشنل پرابلم بن
چکا ہےآئے دن نیوز پر خبریں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ بھائی نےبھائی کو قتل کر دیا ہے
وغیرہ وغیرہ بس معاشرے میں لوگ ایک دوسرے کو ناحق قتل کرنے میں دھلے ہوئے ہیں جبکہ
ہمارے اسلام میں ناحق قتل کرنے کے بارے میں بہت مذمت بیان کی گئی ہے۔ قرآن مجید
میں رب العالمین ارشاد فرماتا ہے
وَ مَنْ
یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ
غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(93) (پ
5،النساء ،93) ترجمه كنزالايمان : اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو
اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت
کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب۔
اس کے علاؤہ
کثیر احادیث مبارکہ میں قتل ناحق کی مذمت بیان کی گئی ہے
1: نبی کریم
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و
آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ
جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205، الجزء الاول)
2: رسولِ اکرم
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان
اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں
: میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے
ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من
المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ، 1 / 23، الحدیث: 31)
3: حضور پر
نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی
مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ
میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ
کی رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3
/ 262، الحدیث: 2620)
غور کریں جب
ایک حرف جتنی مدد کرنے پر رب کی رحمت سے مایوسی کا پٹہ گلے میں ڈال دیا جائے گا تو
جو قتل ہی کر ڈالے ؟
4: تاجدارِ
رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے
کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب
قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 4 / 358، الحدیث: 6871)
افسوس کہ آج
کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینے کی
دھمکی دی جاتی ہے
انسانیت کا
نام ہی مٹتا چلا جا رہا ہے جبکہ اس معاملے میں رب العالمین اور رحمۃ للعالمین
عزوجل و صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے فرمان عبرت بالکل واضح ہیں معاشرے میں اس گندے
جراثیم کی بنیادی وجہ اگر دیکھا جائے تو لا علمی ہے اور دین سے دوری ہے اگر ہم
اپنی نسلوں کو علم دین کے شعلوں کا پروانہ وار بنا دیں تو امید ہے کہ معاشرہ گلاب
کی خوشبوؤں سے مہک اُٹھے گا اسکے ساتھ ساتھ اگر ہم دعوت اسلامی کا دینی ماحول
اپنالیں تو دل نفرتوں کے کیچڑ سے نکل کر محبتوں کی بہار بن جائے گے
اللّٰہ پاک
ہمیں دین اسلام کے قوانین پر عمل پیرا ہو کر زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔