ایک مومن کا قتل پوری دنیا کی تباہی سے بڑا گناہ ہے۔اپنے گھنائونے اور ناپاک مقاصد کے حصول کے لیے عام شہریوں اور پُر اَمن انسانوں کو بے دریغ قتل کرنے والوں کا دین اِسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ دین جو حیوانات و نباتات تک کے حقوق کا خیال رکھتا ہے وہ اَولادِ آدم کے قتل عام کی اِجازت کیسے دے سکتا ہے! اِسلام میں ایک مومن کی جان کی حرمت کا اندازہ یہاں سے لگالیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مومن کے قتل کو پوری دنیا کے تباہ ہونے سے بڑا گناہ قرار دیا ہے۔ اِس حوالے سے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:

(1)قیامت میں سب سے پہلے خون کا حساب: کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا روز قیامت لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خونوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا ۔(صحیح البخاری 6533: صحیح مسلم 1678)

(2) مقتول قاتل کو عرش تک لے جائے گا: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا روز قیامت مقتول قاتل کو لے کر ائے گا اس قاتل کی پیشانی اور اس کا سر مقتول کے ہاتھ میں ہوگا اور اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا وہ کہے گا اے میرے رب اس نے مجھے کیوں قتل کیا ؟حتی کہ وہ اسے عرش کے قریب لے جائے گا۔ (صحیح البخاری 3029)

(3)انسانی خون کی حرمت: نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہی ہے جو گناہوں اور برائیوں کو چھوڑ دے۔ ( صحیح البخاری6484)

(4)ناحق خون ریزی کے سنگین نتائج: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں ہلاک کرنے والے وہ امور ہیں جن میں پھنسنے کے بعد نکلنے کا کوئی راستہ نہ ہو گا ان میں سے ایک ناحق حرمت والا خون بہانا بھی ہے۔ (بخاری،کتاب الدیات،6470)

(5)دین و دنیا کو تنگ کر دینے والا عمل: حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مومن اس وقت تک اپنے دین کے بارے میں برابر کشادہ رہتا ہے (اس کے لیے اعمال صالحہ کرنا اسان اور توبہ قبول ہوتی رہتی ہے) جب تک ناحق خون نہ کریں (جہاں ناحق خون کیا تو اعمال صالحہ اور مغفرت کا دروازہ تنگ ہو جاتا ہے)۔ (صحیح بخاری: 6862 باب قول اللہ تعالٰی ومن یقتل مومنا متعمدا)

اللہ عزوجل ہمیں گناہوں سے بچنے اور نیکیاں کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔