آج کل بدامنی،بے راہ روی اور قتل و غارت گری میں پاکستان تو ایک طرف پورا عالم اسلام ہی بدنام ہے۔ ہر طرف زبوں حالی،بے چارگی اور بے بسی کا عالم ہے۔دل کی دنیا میں زلزلے کی سی کیفیت ہے۔

ہر جانب آگ و بارود کی بارش ہورہی ہے۔فائرنگ صبح و شام ہو رہی ہے۔انسانی خون ،ندی نالوں کی طرح بہہ رہا ہے۔بستیاں روئی کے گالوں کی طرح اڑ رہی ہیں۔ روزانہ ہزاروں انسان چشم زدن میں موت کے منھ میں چلے جارہے ہیں۔عمارتیں زمین بوس ہورہی ہیں۔بچے اپنی کاپیوں اور کتابوں کے ساتھ اسکولوں اور مدرسوں میں دفن ہور ہے ہیں۔ لاکھوں افراد بے گھر ہورہے ہیں۔بچوں اور نوجوانوں کی نسل مٹ رہی ہے۔کوئی کسی کوپرسادینے والا نہیں ہے۔کوئی کسی کے گلے میں بانہیں ڈال کر رونے والا نہیں ہے، روتی بہنوں اور بیٹیوں کے سر پر ہاتھ رکھنے والا نہیں ہے۔

ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے ۔ہر کسی کو اپنی اور اپنوں کی فکر ہے۔ہر ایک کو اپنے زخموں کے لیے مرہم کی تلاش ہے۔جہاں بھی بم دھماکہ ہوتا ہے،کٹے ہوئے اعضا بکھرے نظر آتے ہیں۔بہتاہوا انسانی خون دکھائی دیتا ہے، ملبے کے نیچے سے نیم جاں مدد کے لیے پکار رہے ہوتے ہیں۔ بچے لاوارث ہورہے ہیں۔بوڑھے ماں باپ اپنا سہارا کھو رہے ہیں۔مائیں اپنے معصوم بچوں پر آہ وبکا کر رہی ہیں۔نوجوان لڑکیاں اپنوں کی تلاش میں سر گرداں ہیں۔ بہنیں اپنے بھائیوں کی راہ تک رہی ہیں۔

سائرن سے فضائیں گونج رہی ہیں

گولیاں زندگی کو ڈھونڈ رہی ہیں

روشنی جیسے بڑھتی جا رہی ہے

فائرنگ تیز ہوتی جا رہی ہے

اڑ رہی ہے خون کی خوش بو

راج کر رہی ہے پھر دہکتی لو

بین کر رہی ہیں بہنیں کہیں

بوڑھی بیمار مائیں کہیں سکتے میں ہیں

حال تو یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ معمولی معمولی باتوں پر قتل کر ڈالنا عام ہوگیا ہے، حقیر سی بات پر باپ بیٹے کو اور بیٹا باپ کو،بھائی بھائی کو اور بھائی بہن کو،شوہر بیوی کو اور ہر شخص قریبی رشتے دار کو مار ڈالنے پر تیار ہوتا ہے۔انسان کی جان تو مچھر اور مکھی سے بھی کم تر ہوگئی ہے۔آئے روز بوری بند لاشیں ملتی ہیں۔روزانہ درجنوں قتل معمولی بات بن گئی ہے۔کسی کو احساس زیاں تک نہیں ہورہا۔

۔اللہ تعالیٰ نے تو قتل ناحق کی مذمت کرتے ہوئے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا : مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(93) اور جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردے تو اس کا بدلہ جہنم ہے عرصہ دراز تک اس میں رہے گا اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے

ناحق قتل کرنے پر کئی احادیث وارد ہوئی ہیں:

(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 4 / 358، الحدیث: 6871)

(2)…کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہو گا۔ حضرت ابو بکرہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205 ، الجزء الاول)

(3)…حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ، 1 / 23، الحدیث: 31)

(4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3 / 262، الحدیث: 2620)

افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی، تَعَصُّب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، گروپ اور جتھے اور عسکری وِنگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارتگری کرنا ہے۔

موجودہ دور اہل ایمان کے لیے آزمائشوں، ابتلاآت اور امتحانات کا دور ہے۔ ہر طلوع ہونے والی صبح اپنے ساتھ نئے نئے فتنے لے کر آتی ہے اور ہر رات اپنے پیچھے لاتعداد فتنوں کے اثرات و نقوش چھوڑ جاتی ہے۔

یہ پر آشوب ماحول اور پر فتن ساعتیں صاحبان ایمان کے لیے کچھ نامانوس اور اوپری ہر گز نہیں، کیوں کہ آج سے چودہ سو برس پیش تر ہی ہمارے پیارے نبی، جناب نبی کریم، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو ان باتوں کی خبر دے دی تھی ۔ حضرات علمائے کرام فرماتے ہیں کہ قرب قیامت کی چھوٹی چھوٹی علامات پوری ہوچکی ہیں۔ اب صرف بڑی نشانیاں باقی ہیں۔

احادیث مبارکہ میں جناب نبی کریم، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ”آخری زمانے“ کی جو متعدد نشانیاں بتائی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ قتل و قتال بہت عام ہوجائے گا۔ آج ہم کھلی آنکھوں اس امر کا مشاہدہ کررہے ہیں کہ معاشرے سے امن و امان عنقا ہے۔ کسی کی جان، مال، عزت اور آبرو محفوظ نہیں۔ہر شخص غیر محفوظ ہے۔امیر ہو یا غریب، افسر ہو یا نوکر،خواص ہوں یا عوام، حد یہ کہ عالم ہو یا عامی، کسی کو جان کی امان حاصل نہیں ہے۔ ہر طرف عدم تحفظ کی فضا عام ہے۔ ہر کوئی اس خوف کاشکار ہے کہ کوئی اندھی گولی اس کی زندگی کا چراغ گل نہ کردے۔ انسانی جان پانی سے زیادہ سستی ہوچکی ہے۔ ذاتی و نفسانی مفادات کے لیے دوسرے انسان کی جان لے لینا سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا۔ حالاں کہ قرآن و حدیث کا سرسری مطالعہ بھی کیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک انسان کی جان بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور جو اس معاملے میں اللہ کی بتائی گئی حد کو پامال کرتا ہے، اس کے لیے عنداللہ ذلت و رسوائی کا طوق تیار ہے۔

5 حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دن بیت اللہ کو دیکھا اور اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا: ”اے کعبہ! تم بہت عظمت والے ہو اور تمہاری حرمت بھی بہت بڑی ہے۔ (لیکن) ایک مومن و مسلمان (کی جان) اللہ رب العالمین کے ہاں تم سے زیادہ محترم و مکرم ہے۔“ (نضرة النعیم: 5298/11)

کسی کو بلاجواز قتل کرنے والا پورے سماج اورمعاشرے پر ظلم وزیادتی کرتا ہے۔ اس جرم عظیم کے باعث قاتل کی دنیوی اور اخروی زندگی تباہ ہوکر رہ جاتی ہے۔ اس سے سکون و چین چھین لیا جاتا ہے۔ پھر سب سے بڑی حقیقت یہ کہ کل اس قاتل نے خود موت کا پیالہ پینا ہے اور اپنے اعمال کا مکمل جواب دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائیں۔آمین !

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔