ابو الحسن خیر بخش عطاری (درجہ خامسہ جامعۃُ
المدینہ ڈیرہ اللہ یار بلوچستان پاکستان)
قراٰن مجید میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:﴿ یَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ
اُنَاسٍۭ بِاِمَامِهِمْۚ ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: یاد کرو جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے
امام کے ساتھ بلائیں گے۔(پ15، بنٓی اسرآءیل:
71) یعنی ،جب اس شخص نے ائمہ ہدی کو اپنا
مرشد ،امام نہ مانا تو امام ضلالت یعنی
شیطان لعین کا مرید ہوا ،لاجرم روز قیامت اسی کے گروہ میں اٹھے گا۔
من
لا شیخ لہ فشیخہ الشیطٰن ترجمہ :جس کا شیخ (مرشد) نہیں اس کا شیخ (مرشد)شیطان ہے۔(فتاویٰ
رضویہ، 26/575)
یقیناً جب اصل رہنما کا ساتھ نہ ہوگا تو شیطان کیلئے آسان ہوجائے
گا کہ وہ راستے سے ناواقف انسان کو
بھٹکادے ۔
مرشد کامل ہی اس راہ میں سالک کا طبیب بھی ہے جو اس کی
باطنی بیماریوں (حسد،تکبر،غیبت،کینہ،بغض،خود پسندی وغیرہ )کا علاج کرکے اس کی روح
کو تندرست وتوانا بناتا ہے تاکہ اس کیلئے سفر طے کرنا مشکل نہ رہے۔
حضرت ذوالنون مصری رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب کوئی
مرید ادب کا خیال نہیں رکھتا ،تو وہ لوٹ کر وہی پہنچ جاتا ہے جہاں سے وہ چلا تھا ۔(الرسالہ
القشیریہ، ص،498)
مرید مرشد کے ہاتھ
میں ایسا ہو جیسا مردہ بدستِ زندہ ہوتا ہے
۔
شیخ طریقت امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں کہ
میرے آقا اعلیٰ حضرت عظیم البرکت حضرت علامہ مولانا الحاج الحافظ القاری شاہ امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃُ اللہ علیہ
فرماتے ہیں:مرشِدکے حقوق مرید پر شمار سے اَفزوں (یعنی بڑھ کر)ہیں، خُلاصہ یہ ہے:
(1) اُس کی رِضا کو اللہ پاک کی رِضا جانے
(2)ان کے حضور بات نہ کرے
(3) اُس کی ناخوشی کو اللہ پاک کی نا خوشی
جانے
(4) اُسے اپنے حق میں
تمام اولیائے زمانہ سے بہتر سمجھے
(5) اگر کوئی نِعمت دوسرے سے ملے تو بھی اُسے مُرشد
ہی کی عطا اور اُنہیں کی نظر کی توجہ کا صَدْقہ جانے
(6) مال ، اولاد ، جان سب اُن پر تَصَدُّق کرنے کو
تیار رہے
(7) اُنکی جو بات اپنی نظر میں خلافِ شرعی بلکہ
معاذاللہ کبیرہ معلوم ہو اُس پر بھی نہ
اعتراض کرے، نہ دل میں بدگمانی کو جگہ دے بلکہ یقین جانے کہ میری سمجھ کی غلطی ہے
(8) ان کے
کپڑوں ، اِنکے بیٹھنے کی جگہ ، اِنکی اولاد ، اِنکے، مکان، اِنکے محلہ ، اِنکے شہر
کی تعظیم کرے
(9) ہنسنا تو
بڑی چیز ہے اِن کے سامنے آنکھ ، کان، دِل ، ہمہ تَن اِنہیں کی طرف مصروف رکھے
(10) جو وہ
پوچھے نہایت نرم آواز سے بکمال ادب بتا کر جلد خاموش ہو جائے
(11)جو وہ حکم
دیں ’’کیوں ‘‘ نہ کہے دیر نہ کرے، سب
کاموں پر اِسے تقدیم (اوّلیت) دے
(12) اِنکی
غَیْبت(غیر موجودگی ) میں بھی اِنکے بیٹھنے کی جگہ پر نہ بیٹھے
(13) روزانہ
اگر زندہ ہیں اِن کی سلامتی و عافیت کی دُعا، باکثرت کرتا رہے اور اگر انتقال
ہوگیا ہو تو روزانہ اِنکے نام پر فاتحہ و دُرود کا ثواب پہنچائے
(14) اِنکے دوست کا دوست، اِنکے دشمن کا دشمن رہے
(15) جب ایسا
ہوگا تو ہر وقت اللہ پاک وسَیِّدِ عالم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم و مشائخِ کِرام کی مدد زندگی میں ، نزع میں ، قبر
میں ، حشر میں ، میزان پر، پل صراط پر حوضِ کوثر پر ہر جگہ اس کے ساتھ رہے گی۔ اِس
کے پیر اگر خود کچھ نہیں تو اِن کے پیر تو کچھ ہیں یا پیر کے پیر یہاں تک کہ صاحبِ
سلسلہ حضورِ پُر نور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ پھر یہ سلسلہ مولیٰ علی رضی اللہ عنہ اور اُن سے سَیِّدُ المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور اُن سے
رَبُّ العالمین ٗ تک مسلسل چلا گیا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ مرشد چاروں شرائطِ بیعت(
علم دین رکھتا ہو، فاسق نہ ہو، سنی صحیح
العقیدہ ہو، اس کا سلسلہ رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تک متصل ہو) کا جامع ہو۔ پھر اِن کا حسنِ اعتقاد سب کچھ
پَھل لا سکتا ہے۔ ان شآء اللہ (فیضان مرشد ،ص30)
ایسے شخص سے بیعت کا حکم ہے جو کم از کم مذکورہ چاروں شرائط رکھتا ہوں ، الحمد اللہ شیخ
طریقت ،امیر اہلسنت ،عظیم البرکت حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس قادری
رضوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہ ان چاروں شرائط بیعت کے جامع ہیں۔
مطیع اپنے مرشد کا مجھ کو
بنادے
میں ہو جاؤ ان پر فدا یا
الٰہی
بنادے مجھے ایک در کا بنادے
میں ہر دم رہوں باوفا یا
الہٰی