جہاں ایک مسلمان پر والدین، رشتہ داروں وغیرہ کے حقوق ہیں وہیں ہماری شریعت مطہرہ نے ہمسائے کے حقوق بھی مقرر فرمائے ہیں، حدیث پاک میں آیا ہے: پڑوسی اور سائل کا حق پہچانو۔ (مسند امام احمد، 4/273، حدیث: 12397) اگر ہمسائے کے حقوق کماحقہ ادا کرنے میں ہم سب کامیاب ہوجائیں تو ایک بہترین معاشرے کو تشکیل دے سکتے ہیں۔

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی (کے ساتھ اچھا سلوک کرو)۔

ہمسائے کی تعریف: قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہوا ور دور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے اور وہ جو صرف پڑوسی ہو، رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ یا جو پڑوسی بھی ہو اور مسلمان بھی وہ قریب کا ہمسایہ اور وہ جو صر ف پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ ہے۔(تفسیرات احمدیہ، ص 275)

احادیث مبارکہ کی روشنی میں پڑوسیوں کے حقوق:

1۔ پڑوسی کی عزت کی جائے: نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیئے کہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6019)

2۔ شر سے محفوظ رکھے: فرمایا: جس کے شر سے اُس کا ”پڑوسی“ بے خوف نہ ہو وہ جنّت میں نہیں جائے گا۔ (مسلم، ص 43، حدیث: 73)

3۔ عیادت کرنا: ”پڑوسی“ کے حقوق بیان کرتے ہوئے نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: اگر وہ بيمار ہو تو اس کی عِيادت کرو، اگر فوت ہوجائے تو اس کے جنازے ميں شرکت کرو، اگر قرض مانگے تو اسے قرض دے دو اور اگر وہ عيب دار ہوجائے تو اس کی پَردہ پوشی کرو۔ (معجم کبیر، 19/419، حدیث: 1014)

4۔ کھانا کھلانا: فرمانِ مصطفےٰ ﷺ ہے: جو خود شکم سير ہو اور اس کا ”پڑوسی“ بھوکا ہو وہ ایمان دار نہیں۔ (معجم کبیر، 12/119، حدیث: 12741)

5۔ پڑوسی سے جھگڑا نہ کیا جائے: خلیفۂ اول امیر المومنین حضرت صدیق اکبر رضی الله عنہ نے ارشاد فرمایا: اپنے پڑوسی سے مت جھگڑو کیونکہ لوگ چلے جاتے ہیں جبکہ یہ بات باقی رہ جاتی ہے۔ (کنز العمال، 5/79، حدیث:25599)

چند مزید حقوق: پڑوسی کو خوشی ملے تو اس کو مبارکباد دی جائے اسکی خوشیوں میں شرکت کی جائے، اسکے بچوں کے ساتھ نرمی کی جائے، اسکے گھر کے سامنے کچرا نہ پھینکا جائے، اسکے گھر میں نہ جھانکا جائے، اسکو حاجت ہو تو اسکی مدد کی جائے، اسکے ساتھ لمبی گفتگو نہ کی جائے، اسکے گھر مہان آئیں تو انکی بھی عزت کی جائے۔

ایک بزرگ کا واقعہ: کسی بزرگ نے اپنے دوستوں سے گھر میں چوہوں کی کثرت کی شکایت کی، تو ان سے کہا گیا آپ بلی کیوں نہیں پال لیتے؟ فرمایا مجھے اس بات کا خوف ہے کہ پڑوسی کی آواز سن کر چوہے پڑوسیوں کے گھروں میں چلے جائیں گے یوں میں انکے لیے اس بات کو پسند کرنے والا ہوجاؤں گا جس بات کو اپنی ذات کے لیے پسند نہیں کرتا۔

پڑوسی کے حقوق کی رعایت کا ذہن اللہ پاک اسکو عطافرماتا ہے جس کو پسند فرماتا ہے۔ لہٰذا اے عاشقان رسول! حقوق الله کی ادائیگی کے ساتھ حقوق العباد کو بھی پورا کیجیئے۔ اللہ پاک ہم سب کو پڑوسیوں کے حقوق احسن طریقے سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین