قرآن مجید میں اللہ پاک نے ایک گروہ کا واقعہ ارشاد فرمایا جن کو قیامت کے دن دوزخ میں لے جایا جا رہا ہوگا: مَا سَلَكَكُمْ فِیْ سَقَرَ(۴۲ قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَۙ(۴۳(ترجَمۂ کنزُالایمان: تمہیں کیا بات دوزخ میں لے گئی وہ بولے ہم نماز نہ پڑھتے تھے ۔

(پ29،المدثر:42 ،43)

آئیے !نماز نہ پڑھنے کی 5 سزائیں سنتے ہیں:

1)خوفناک وادی:

فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا ترجَمۂ کنزُالایمان: تو ان کے بعد ان کی جگہ وہ ناخلف آئے جنہوں نے نمازیں گنوائیں(ضائع کیں) اور اپنی خواہشوں کے پیچھے ہوئے تو عنقریب وہ دوزخ میں غیّ کا جنگل پائیں گے ۔(پ16،مریم: 59)

حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ عَنْہُمَافرماتے ہیں : غی جہنم میں ایک وادی ہے جس کی گرمی سے جہنم کی وادیاں بھی پناہ مانگتی ہیں۔

2)جہنم کا دروازہ:

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑی تو جہنم کے اس دروازے پر اس کا نام لکھ دیا جاتا ہے جس دروازے سے وہ جہنم میں داخل ہوگا۔(حلیۃ الاولیاء جلد 7 ص299)

3) تارک نماز کا مقام:

حضرت عبداﷲ ابن عمرو ابن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے روایت کرتے ہے کہ آپ نے ایک دن نماز کا ذکرکیا تھا، فرمایا کہ جو اس پرپابندی کرے گا نماز اس کے لیئے قیامت کے دن روشن دلیل اور نجات ہوجائے گی اور جو اس پر پابندی نہ کرے گا تو اس کے لیئے نہ نور ہوگا نہ دلیل نہ نجات اور وہ قیامت کے دن قارون،فرعون،ہامان اوراُبی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔ ( مشکو شریف اول ص 59)

4) آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ناراضگی:

حضرت ابوہریرہ سے رضی اللہُ عنہ روایت ہے فرماتے ہیں آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! میں چاہتا ہوں کہ لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں تو جمع کی جائیں، پھر نمازکا حکم دوں کہ اس کی اذان دی جائے ،پھر کسی کوحکم دوں وہ لوگوں کی امامت کرے، پھر میں ان لوگوں کی طرف جاؤں جو نماز میں حاضر نہیں ہوتےاوران کے گھر جلادوں۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ! اگر ان میں سے کوئی جانتا کہ وہ چکنی ہڈی یا دو اچھے کُھر پائے گا تو عشاء میں ضرور آتا۔ ( بخاری)

5) نماز نہیں پڑھتے تھے:

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قوم کو دیکھا کہ بھاری پتھر سے ان کا سر کچلا جاتا ہے اور پتھر کے واپس آنے تک سر دوبارہ سے ٹھیک ہو جاتا ہے لیکن پھر کچلا جاتا ہے ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام سے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے جبریل! یہ لوگ کون ہیں جن کے سر پتھروں سے کچلے جارہے ہیں؟حضرت سیدنا جبریل سے نے کہا: یہ وہ لوگ ہیں جو فرض نماز میں سستی کرتے تھے اور فرض نمازوں سے جن کے سر پر بوجھ رہتے تھے۔

(تفسیر در منثور جلد 4 صفحہ نمبر 144)