اللہ پاک نے ہر عاقل بالغ مسلمان پر پانچ وقت کی نماز فرض کی ہے۔ان نمازوں میں عصر کی نماز  اعلیٰ عبادت ہے جس کا تذکرہ قرآن و حدیث میں بہت تاکید کے ساتھ ہوا ہے۔نمازِ عصر پڑھنے پر بہت ثواب حاصل ہوتا ہے اور نہ پڑھنے پر بہت عذابات کا مستحق ہوتا ہے۔ اس حوالے سے پانچ احادیث ملاحظہ کیجیے:

(1) حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم میں رات اور دن کے فرشتے بار ی باری آتے ہیں اور فجر و عصر کی نمازوں میں جمع ہوجاتے ہیں ، پھروہ فرشتے جنہوں نے تم میں رات گزاری ہے اوپر کی طرف چلے جاتے ہیں ، اللہ پاک باخبر ہونے کے باوُجود ان سے پوچھتا ہے: تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ وہ عرض کرتے ہیں : ہم نے انہیں نماز پڑھتے چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ (بخاری ،1/203،حدیث:555)

(2) حضرت سیِّدُنا عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے مصطَفٰے جانِ رحمت صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا :جس نے سورج کے طُلُوع و غروب ہونے (یعنی نکلنے اور ڈوبنے) سے پہلے نَماز ادا کی (یعنی جس نے فجر و عصر کی نما ز پڑھی) وہ ہر گز جہنَّم میں داخِل نہ ہوگا۔ (مسلم ،ص250،حدیث: 1436)حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں :اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں :ایک یہ کہ فجر و عصر کی پابندی کرنے والا دوزخ میں ہمیشہ رہنے کے لیے نہ جائے گا، اگر گیا تو عارِضی (یعنی وقتی )طور پر۔ دوسرے یہ کہ فجر و عصر کی پابندی کرنے والوں کو اِنْ شَآءَاللہ باقی نمازوں کی بھی توفیق ملے گی اور سارے گناہوں سے بچنے کی بھی، کیونکہ یہی نمازیں (نفس پر) زیادہ بھاری ہیں ۔ جب ان پر پابندی کرلی تو اِنْ شَآءَاللہ بقیہ نمازوں پر بھی پابندی کرے گا۔(مراٰۃ المناجیح ،1/394)

(3) حضرت سیدنا ابو بصرہ غِفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :یہ نماز یعنی نماز عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کر دیا لہذا جو پابندی سے ادا کرے گا اسے دگنا (یعنی Double) اجر ملے گا ۔(مسلم، ص322،حدیث:1927)حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں :یعنی پچھلی اُمتوں پر بھی نمازِ عصر فرض تھی مگر وہ اِسے چھوڑ بیٹھے اور عذاب کے مستحق ہوئے ،تم ان سے عبرت پکڑنا۔ (مراٰۃالمناجیح ،2/166)

(4) غَزْوَہِ خیبر سے واپسی میں صہبا کے مقام پر نبیٔ اکرم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نما زِ عصر پڑھی، اس کے بعد حضرت علی المرتضیٰ کرّم اللہ وجہہ الکریم کے زانو پر سر مبارک رکھ کر آرام فرمانے لگے۔ حضرت علی المرتضیٰ کرّم اللہ وجہہ الکریم نے (کسی وجہ سے ابھی تک) نماز ِعصر نہ پڑھی تھی ،یہ اپنی آنکھ سے دیکھ رہے تھے کہ وقت جارہا ہے، مگر اس خیال سے کہ زانو سَرکا تا ہوں تو کہیں حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک نیند میں خَلل نہ آجائے ، زانو نہ ہٹایا، یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا، جب نبیٔ اکرم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی چشم ِمبارک کھلی تو حضرت علی المرتضیٰ کرّم اللہ وجہہ الکریم نے اپنی نماز کا حال عرض کیا۔ حضورِ انور صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دعا فرمائی توسورج پلٹ آیا، حضرت علی المرتضیٰ کرّم اللہ وجہہ الکریم نے نمازِ عصر ادا کی، پھر سورج ڈوب گیا۔(صراط الجنان،9/352)

مَولیٰ علی نے واری تِری نیند پر نماز اور وہ بھی عصر سب سے جو اعلیٰ خَطر کی ہے

(5) حضرت سیِّدُناجابر بن عبدُاللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رحمت ِ عالم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ مُعَظَّم ہے: جب مرنے والا قبر میں داخل ہوتا ہے تو اُسے سورج ڈوبتا ہوا معلوم ہوتا ہے تو وہ آنکھیں ملتا ہوا بیٹھتا ہے اور کہتا ہے: مجھے چھوڑ و میں نماز پڑھ لوں ۔(ابن ماجہ، 4/503،حدیث:4272)حکیمُ الْاُمَّت حضرتِ مفتی احمد یار خان رَحْمۃُ اللہِ علیہ حدیثِ پاک کے اِس حصے (سورج ڈوبتا ہوا معلوم ہوتا ہے) کے تحت فرماتے ہیں : یہ احساس ’’مُنکَرنَکِیْر‘‘ کے جگانے پر ہوتا ہے، خواہ دَفن کسی وَقت ہو۔ چونکہ نمازِ عصر کی زیادہ تاکید ہے اور آفتاب(یعنی سورج) کا ڈوبنا اِس کا وَقت جاتے رہنے کی دلیل ہے، اس لیے یہ وَقت دکھایا جاتا ہے۔حدیث کے اِس حصے ( مجھے چھوڑ و میں نماز پڑھ لوں ) کے تحت لکھتے ہیں :یعنی ’’اے فرشتو! سُوالات بعد میں کرنا عصر کا وَقت جارہا ہے مجھے نماز پڑھ لینے دو۔‘‘ یہ وُہی کہے گا جو دنیا میں نمازِعصر کا پابند تھا، اللہ نصیب کرے۔ اسی لیے ربّ فرماتا ہے:حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰىۗ ترجمۂ کنزالایمان: نگہبانی (یعنی حفاظت) کرو سب نمازوں اور بیچ کی نماز کی) ۔(پ2،بقرہ:238 )

یعنی ’’تمام نمازوں کی خصوصاً عصر کی بہت نگہبانی (یعنی حفاظت )کرو۔‘‘ صوفیا فرماتے ہیں :’’جیسے جیو گے ویسے ہی مرو گے اور جیسے مرو گے ویسے ہی اُٹھو گے۔‘‘ خیال رہے کہ مومن کو اُس وَقت ایسا معلوم ہوگا جیسے میں سو کر اُٹھا ہوں ، نزع وغیرہ سب بھول جائے گا۔ ممکن ہے کہ اس عرض (مجھے چھوڑ دو!میں نماز پڑھ لوں ) پر سُوال جواب ہی نہ ہوں اور ہوں تو نہایت آسان کیونکہ اس کی یہ گفتگو تمام سُوالوں کا جواب ہوچکی ۔ (مراٰۃالمناجیح، 1/142)

کیا پوچھتے ہو مجھ سے، نکیرین! لحد میں

لو دیکھ لو! دل چیر کے، اَرمانِ محمد(صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)

ہم بھی اللہ پاک سے دعا کرے کے تمام نمازوں بالخصوص عصر کی نماز کا پابند بنائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم