محمد تنویر عطّاری (درجۂ سادسہ جامعۃ المدینہ
گلزار حبیب سبزہ زار لاہور، پاکستان)
حضرت
انسان سکون کے لئے دنیا کی رنگینیوں میں ڈوبے ہوئے دن رات کوشاں
ہے ۔ دوست احباب دنیاوی تعلقات کی مضبوطی کو بحال رکھنے کے لئے خالق کائنات عزوجل
کی نافرمانیوں کی فہرست بڑھتی ہی جا رہی ہےجبکہ اللہ پاک ان
نافرمانیوں کے باوجود بندوں کو اپنی نعمتوں سے نواز رہا ہے ۔حالانکہ بندے کو تو چاہیے تھا کہ رب العالمین کی
عطا کردہ نعمتوں پر شکر کے سجدے کرتا اور اپنے ضمیر کو بیدار کرتے ہوئے خالق
کائنات عزوجل کی عطاؤں پر سجدوں کی کثرت کرتا جاتا ۔مگر ہاۓ افسوس ! جیسے جیسے خالق کائنات عزوجل کی
عطائیں بڑھتی گئی میں شکر حقیقی کرنے کی
بجائے خطاؤں کو بڑھا تا گیا
آئیے قارئین
کرام ! چند احادیث مبارکہ سے ناشکری کی مذمت پڑھتے ہیں اور اپنے دل و دماغ کو شکر کی لگام ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
من لم یشکر القلیل لم یشکر الکثیر ''المسند'' للإمام أحمد بن حنبل، مسند الکوفیین، حدیث
النعمان بن بشیر، الحدیث: 18477، ج6،
ص394۔ جس نے تھوڑے احسان کا شکریہ ادا نہیں کیا اس نے زیادہ کا بھی شکر نہیں کیا۔ شکریہ
کسی چیز کا بدلہ دے کر یا تعریف یا دعا کر کے ادا کیا جا سکتا ہے جیسا کہ ترمذی شریف
کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ، (رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ
تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ورضی اللہ تعالیٰ عنہاکا فرمانِ عالیشان ہے :''جسے کوئی چیز
عطا کی گئی اگر وہ استطاعت رکھے تو اس کا بدلہ دے، اگر استطاعت نہ ہو تو اس کی تعریف
کر دے کیونکہ جس نے تعریف کی اس نے شکر ادا کیا اور جس نے اسے چھپایا اس نے ناشکری
کی۔'' (جامع الترمذی،ابواب البر والصلۃ،باب
ماجاء فی المتشبع۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث: 2034،ص 1855)
حضرتِ سیدنا
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ خاتِمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃُ
الِّلْعٰلمین، شفیعُ المذنبین، انیسُ الغریبین، سراجُ السالکین، مَحبوبِ ربُّ
العلمین، جنابِ صادق و امين صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا،''
اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ اے ابن آدم !جب تو میرا ذکر کرتا ہے تو میرا شکر کرتاہے
اور جب مجھے بھول جا تا ہے تو میری ناشکری کرتا ہے۔ '' (طبرانی اوسط ،من اسمہ محمد
، رقم 7265 ج 5،ص 261)
جنتی
عمل حضرتِ سَیِّدُناعبداللہ بِنْ عَمْرو رضی اللہ عنہ مَا فرماتے ہیں کہ آقائے دو جہاں
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگا ہ میں ایک شخص نے حاضر
ہوکر عرض کیا:یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! جنتی عمل کون سا ہے ؟ آپ صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا:سچ بولنا ،بندہ جب سچ بولتا
ہے تو نیکی کرتا ہے اور جب نیکی کرتا ہے محفوظ ہوجاتا ہے اور جب محفوظ ہوجاتا ہے
تو جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔ پھر اس شخص نے عرض کی:یَا رَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! جہنم میں لے جانے والا عمل کونسا ہے ؟ فرمایا:جھوٹ
بولنا، جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو گناہ کرتاہے اور جب گناہ کرتاہے توناشکری کرتا ہے
اور جب ناشکری کرتا ہے تو جہنم میں داخل ہوجاتاہے۔(مسند امام احمد، مسند عبد اللہ
بن عمرو بن العاص، 2/589، حدیث:6652)
احادیث
مذکورہ سے ایک صاحبِ عقل کو ناشکری کی
مذمت کو سمجھنے کے لئے کافی ہے ۔ انسان ہر جگہ پریشان ہے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو نعمتیں موجود ہیں ان پر شکر کی مقدار کو
بڑھانے کے بجائے ناشکری کرتے ہیں ہوۓ اپنی بے جا خواہشات کی تمنا میں مارا مارا پھرتا
ہے۔ ناشکرا انسان یہ سمجھ بیٹھا کج دولت کی
فراوانی میں سکون و اطمینان ہے ۔
اے ناشکری پر
قائم انسان! اگر تو دنیا کے امیر ترین
لوگوں کی فہرست کو بھی چھان مارے تجھے ایک بات مشترک مکے گی کہ مال کی کثرت
کہ باوجود وہ اس موجودہ پر شکر کرنے کی بجاۓ مزید
خواہشات کی تکمیل کے لئے اپنے رب کے
ہاں سجدہ ریز ہونے کے لئے بھی وقت نہ
رہا ۔ ہاۓ افسوس
اللہ تعالیٰ
سے دعا ہے کہ وہ اپنے نیک شاکر بندوں کے صدقے ہم ناشکروں کو شکر حقیقی
کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین