اسلام نے ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا بھائی قرار دیا ہے۔جس طرح سے ایک حقیقی بھائی اپنے بھائی کے جان و مال اور اس کی عزت و آبرو کامحافظ اور ضامن ہو تا ہے، اور ہرضرورت وحاجت کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے بالکل اسی طرح اس کے لیے نہ صرف نگہبان ہوتا ہے بلکہ اس کی ہر ضرورت کو پورا کر نے کے ساتھ ساتھ اس کے جذبات و احساسات کی بھی قدر کرنا اپنی ذمہ دار ی سمجھتا ہے۔ جس طرح سے خونی رشتے مضبوط ہو تے ہیں اسی طرح ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان سے جو ایمانی رشتہ ہوتا ہے وہ بھی اسی طرح مضبوط ہونا چاہئے۔

حدیث پاک کی روشنی میں ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر 5 حقوق ہیں: سلام کا جواب دینا۔ بیمار کی عیادت کرنا۔ جنازے کے پیچھے چلنا۔ دعوت قبول کرنا۔ اور چھینک کا جواب دینا۔ جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔

1۔سلام کا جواب دینا: یعنی اپنے گھروں میں داخل ہوتے وقت اہل خانہ اور گھر میں موجود دیگر افراد کو سلام کرو۔ حضرت سید نا قتادہ رضی اللہ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں: جب تو اپنے گھر میں داخل ہو تو اپنے اہل و عیال کوسلام کرو کہ وہ تیرے سلام کے زیادہ حق دار ہیں اور جب تو کسی ایسے گھر میں جائے جہاں کوئی موجود نہ ہو تو یوں کہہ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَ عَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِينَ السَّلَامُ عَلَى أَهْلِ الْبَيْتِ وَ رَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ (ترجمہ: ہم پر اور الله عزوجل کے نیک بندوں پر سلامتی ہو، اور گھر والوں پر سلامتی اور اللہ عزوجل کی رحمت و برکت ہو) تو جو اس طرح سلام کرے فرشتے اسے جواب دیتے ہیں۔(تفسیر خازن، پ 18، النور، تحت الآية: 364/3،61)

2۔ بیمار کی عیادت کرنا: حضرت سیدنا علی المرتضیٰ شیر خدا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو مسلمان کسی مسلمان کی صبح کے وقت عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے شام تک اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں اور اگر شام کو عیادت کرے تو ستر ہزار فرشتے صبح تک اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں اور عیادت کرنے والے کے لیے جنت میں ایک باغ ہو گا۔ (ترمذی، کتاب الجنائز، باب ماجاء في عيادة المريض، 2/290، حدیث: 971)

3۔ جنازے کے ساتھ چلنا: حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص ایمان اور ثواب کی نیت سے کسی مسلمان کے جنازہ کے ساتھ جائے اور اس کے ساتھ ہی رہے یہاں تک کہ اس کی نماز جنازہ پڑھ لے اور اس کی تدفین سے فارغ ہو جائے تو وہ دو قیراط ثواب کے ساتھ واپس لوٹے گا۔ ہر قیراط اُحد پہاڑ کے برابر ہو گا اور جو صرف نماز جنازہ پڑھ کر میت کی تدفین سے پہلے واپس آگیا تو وہ ایک قیراط ثواب کے ساتھ لوٹے گا۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب اتباع الجنائز من الایمان، 1/29 ،حدیث: 47)

4۔ دعوت قبول کرنا:چنانچہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: مسلمان بھائی کی دعوت قبول کرتے ہوئے اُس میں شرکت کرنا یہ اُس وقت سنت مبارکہ ہے جبکہ وہاں کوئی خلاف شرع کام نہ ہو اور اگر خلاف شرع کام ہو رہے ہوں تو دعوت قبول نہ کرنا لازم ہے۔ حجۃ الاسلام امام محمد غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ نے تو یہاں تک فرمایا کہ جو دعوت اپنے آپ کو اونچا دکھانے، فخر اور واہ واہ کے لئے ہو اس دعوت کو قبول کرنا منع ہے۔ سلف صالحین اس طرح کی دعوتوں میں شرکت کرنے کو مکر وہ فرماتے ہیں۔(اشعۃ اللمعات، كتاب الصلوة، باب عيادة المريض وثواب المرض،673/1)

5۔ چھینک کا جواب دینا: حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم، رؤوف رحیم صلى الله تعال عَلَیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو اسے چاہیے کہ الْحَمْدُ للہ کہے اور اس کا بھائی یا اس کا ساتھی يَرْحَمُكَ اللهُ کہے، جب وہ يَرْحَمُكَ الله کہہ لے تو پھر چھیکنے والا) يَهْدِيكُمُ اللهُ وَيُصْلِحُ بالكم کہے یعنی اللہ تمہیں ہدایت عطا فرمائے اور تمہارے حال کو درست فرمائے۔ (بخاری، کتاب الآداب، باب اذا عطس كيف يشمت، 4/162، حدیث: 6224)

اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں تمام مسلمانوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔