معلم کائنات شاہِ موجودات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: طلب العلم فریضة علی مسلم یعنی ’’ علم حاصل کر
نا ہرمسلمان پرفرض ہے۔(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ۲۲۴، جلد۲ ص ۱۴۶)
ایک روایت میں ہے اطلبوالعلم ولو بالصین یعنی علم کی جستجو کرو، اگرچہ چین میں
ہو۔(شعب الایمان للبیہقی حدیث ۱۶۶۳)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کن علوم کا سیکھنا فرض ہے؟؟ اس بات میں علما کا
اختلاف ہے کہ وہ کون سا علم ہے جس کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے البتہ خلاصہ یہ ہے
کہ ہر گروہ نے اسی علم کو فرض کہا جس پر وہ کار بند ہے چنانچہ۔
متکلمین نے کہا وہ علم کلام ہے اس
کے ذر یعے اللہ کی وحدنیت کا ادرک
ہوتا ہے
فقہا نے کہا وہ علم فقہ ہے کیونکہ اس کے ذریعے عبادت حلال و حرام جائز و
ناجائز معاملات کی پہچان ہوتی ہے ان کی
مراد وہ مسائل ہیں جن کی ضرورت ہر ایک کو پیش آتی ہے
مفسرین ومحدثین نے کہا اس سے قرآن و سنت کا علم مراد ہے کیونکہ اس کے ذریعے
تمام علوم تک رسائی ہوتی ہے، وغیرہ وغیرہ ۔
حضرت سیدنا ابوطالب مکی علیہ الرحمۃ اللہ القوی نے فرمایا اس سے مراد وہ حدیث جس میں اسلام کی بنیادوں کا
ذکر ہے، اور وہ یہ فرمان مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہے اسلام کی بنیاد 5 چیزوں پر ہے۔
اس بات کی گواہی دینا اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔(محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوة دینا، حج کرنا اور رمضان کے روزے
رکھنا۔ (صحیح البخاری حدیث ۸ کتاب ایمان کی جلد ۲ ص ۱۴ )
چونکہ یہ پانچوں فرض ہے اس لیے ان پرعمل کی کیفیت اور فرضیت کی کیفیت کا علم
بھی فرض ہے۔ اگر کوئی شخص بالغ ہوا تو اس پر سب سے پہلے یہ فرض ہوگا کہ وہ کلمہ
شہادت سیکھے اور اس کے معنی سمجھے جو یہ ہے لا الہ الا
اللہ محمد رسول اللہ ۔
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں محمد صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں اس پر یہ
فرض نہیں کہ غور و فکر بحث و دلائل لکھ کر وضاحت چاہے بلکہ اتنا کافی ہے کہ اس کی
تصدیق کرے اعتقاد رکھے اور اس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہ کریں جب اس نے اس وقت
کلمہ پڑھ لیا معنی سمجھ لیے تو فرض عین
ادا کر دیا۔ (احیا العلوم الدین ج ۱، ص ۸۲۔تا۸۳)
علم معاملات کی تحصیل ہر شخص پر اس وقت فرض ہوتی
ہے جب کہ وہ اس خاص معاملات سے دو چار ہو جن کا تعلق معاملات سے ہوں مثلا اگر اسے
بیع کے معاملات پیش آئیں، تو اس کے ضروری
مسائل سیکھنا اس کے لیے ضروری ہے اگر
ملازمت کرتا ہے تو اس کے متعلق مسائل جاننا اس کے لیے ضروری ہے علیٰ لہذا القیاس
اسی طرح قرآن پاک کا اس قدر حفظ کرنا
جس سے نماز درست ہوسکے ہرشخص پر فرض عین ہے مگر پورے قرآن کو یاد کرنا فرض کفایہ
ہے۔(مترجم مسند امام اعظم ص 68)
میرے آقا اعلیٰ حضرت امام اہلسنت
مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ الرحمن فرماتے ہیں علم دین سیکھنا اس قدر کہ مذہبِ حق سے آگاہ
(وضو، غسل، نماز، روزے وغیرہا)
ضروریات کے احکام سے مطلع ہو، تاجر(تجارت) مزارع (کسان) زراعت اجیر ( مزدور ،
ملازم اجارے
غرض ہر شخص جس حالت میں ہے اس کے متعلق احکام ِ شریعت سے واقف ہو فرض عین ہے،۔
(فتاوی رضویہ ج۲۳، ص ۶۴۹، تا ۶۴۸)
اللہ کریم ہ میں فرض علوم سیکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس
پر عمل کی سعادت نصیب فرمائے۔
نوٹ:
یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین
کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں