مرادی معنی: ختمِ نبوت(خاتم النبیین) کے معنی ہیں:آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔لغوی معنی:لفظ خاتم، ختم سے بنا ہے، جس کے لغوی معنی ہیں مہر لگانا۔اِصطلاحی معنی:اصطلاح میں اس کے معنی ہیں تمام کرنا، ختم کرنا، بند کرنا، کیونکہ مہر یاتو مضمون کے آخر پر لگتی ہے، جس سے مضمون بند ہو جاتا ہے یا پارسل بند ہونے پر لگتی ہے، جب نہ کوئی شے اِس میں داخل ہو سکے، نہ اس سے خارج، اس لئے تمام ہونے کو ختم کہا جاتا ہے۔( علم القرآن، ص125)اللہ پاک نے انبیائے کرام علیھم السلام کو علوم و کمالات سے نوازا، اللہ پاک نے حضور سید عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر نبوت کی تکمیل فرمائی اور دیگر کمالاتِ حدیدہ سے نوازا ہے۔(علمِ رسالت اور ختمِ نبوت، ص 10، جامعہ محمدیہ غوثیہ، فیض القرآن، کامرہ کینٹ اٹک)

فتح بابِ نبوت پہ بےحد درود ختمِ دورِ رسالت پہ لاکھوں سلام

عقیدہ:حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم خاتم النبیین ہیں، یعنی اللہ پاک نے سلسلہ نبوت آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ختم کردیا کہ حضور علیہ السلام کے زمانے میں یا بعد کوئی نیا نبی نہیں ہو سکتا ا ور جو حضور علیہ السلام کے زمانے میں یا بعد کسی کو نبوت ملنا مانے یا جائز جانے کافر ہے۔(بہارِشریعت 1/63)

محمد کی محبت دینِ حق کی شرطِ اوّل ہے اگر ہو اس میں کچھ خامی تو سب کچھ نامکمل ہے

عقیدہ ختمِ نبوت اتنا عظیم عقیدہ ہے کہ قرآن کی آیات، احادیثِ مبارکہ اور پوری اُمّت کے اتفاق سے یہ عقیدہ ثابت ہے، جسے اِجماعِ اُمّت کہا جاتا ہے۔(مفتی قاسم)قرآن سے دلائل:ربّ کریم فرماتا ہے:مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا(۴۰)ع (پ22، الاحزاب: 40)اِرشاد باری ہے:خَتَمَ اللہُ عَلیٰ قُلُوبِھِمْ وَعَلیٰ سَمْعِھِمْ(پ1،البقرہ:7)احادیثِ مبارکہ سے دلائل:1۔ مسلم شریف و مسند امام احمد و ابوداؤد وترمذی وغیرہا میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:بےشک میری اُمّتِ دعوت میں یا میری اُمّت کے زمانے میں 30 کذّاب ہوں گے کہ ہر ایک اپنے آپ کو نبی کہے گا اور میں خاتم النبین ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(کتاب المبین ختم النبیین، ص30)2۔ بخاری و مسلم و ترمذی و تفسیرابنِ ابی خاتم میں جابر رضی اللہ عنہ سے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:میری اور نبیوں کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی شخص نے ایک مکان پورا کامل اور خوبصورت بنایا، مگر ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی، تو جو اس گھر میں جا کر دیکھتا، کہتا:یہ مکان کس قدر خوب ہے، مگر ایک اینٹ کی جگہ کہ وہ خالی ہے تو اس اینٹ کی جگہ میں ہوں، مجھ سے انبیائے کرام علیہم السلام ختم کر دئیے گئے۔(کتاب المبین ختم النبیین، ص31-مسلم کتاب الفضائل، صفحہ 966)3۔روایت ہے:حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں :نبی علیہ السلام ہم کو اپنے نام پاک بتاتے، فرماتے: میں محمد ہوں، احمد ہوں، مقضی ہوں، میں حاشر ہوں، میں توبہ کا نبی ہوں، میں رحمت کا نبی ہوں۔(مسلم)4۔حضرت جبیر ابنِ مطعم رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں:میں نے نبی علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا : میرے بہت نام ہیں، میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، محو کرنے والا ہوں کہ اللہ پاک میرے سبب سے کفر کو محو فرمائے گا، میں جامع ہوں کہ لوگ میرے قدموں پرجمع کئے جائیں گے، میں عاقب ہوں اور عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔(مسلم، بخاری، مرآۃ، جلد ہشتم، صفحہ 60، 61)

آتے رہے انبیاء کما قیل لہم والخاتمہ حقکمہ کےخاتم ہوئے تم