اللہ پاک قرآن میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بچو جھوٹی بات سے۔(پ17،الحج:30)ایک ایسی خصلت جو صرف اسلام میں ہی نہیں بلکہ ہر مذہب میں، ہر قوم میں، ہر ملک میں بری سمجھی جاتی ہے وہ خصلت جھوٹ ہے۔ جھوٹ ایسی بیماری ہے جو تمام گناہوں کی اصل ہے۔ اسی وجہ اس کو اکبر الکبائر گناہوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اور اس سے بچنا فرض ہے۔

بار بار جھوٹ بولنے والے شخص پر اعتماد کرنا مشکل ہو جاتا ہے بلکہ کوئی اعتماد کرتا ہی نہیں ہے۔ آج اگر سوال کیا جائے کہ کون جھوٹ سے بچا ہوا ہے؟ تو جواب آئے گا ایسا کوئی بندہ نہیں ہے جو اس مرض میں مبتلا نہ ہو۔ الا ماشاءاللہ اس قدر معاشرے میں جھوٹ آم ہے۔

اے عاشقان رسول! ہمارا رسول سچا ، ہمارا دین اسلام سچا ، اسلام سچائی کا درس دیتا ہے۔ کیا سچے رسول کا سچا عاشق بھی کبھی جھوٹا ہو سکتا ہے؟ جھوٹ معاشرے میں اتنا عام ہونے کی وجہ سے لوگوں معلوم ہی نہیں کہ حقیقتاً جھوٹ کی تعریف کیا ہے۔ شریعت کی نظر میں جھوٹ کیا ہے :بات حقیقت کے خلاف ہونا جھوٹ ہے۔(حدیقہ ندیہ، 2/ 400)

(1) ایک شخص سر کار نامدار ، دوعالم کے مالک و مختار صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: میں آپ پر ایمان لانا چاہتا ہوں مگر میں شراب نوشی، بد کاری ، چوری اور جھوٹ سے محبت رکھتا ہوں اور لوگ یہ کہتے ہیں کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان چیزوں کو حرام کہتے ہیں، جبکہ مجھ میں ان تمام چیزوں کے ترک کرنے کی طاقت نہیں ہے ، اگر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس بات پر راضی ہو جائیں کہ میں ان میں سے کسی ایک چیز کو ترک کر دوں تو میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لانے کو تیار ہوں۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم جھوٹ بولنا چھوڑ دو! اس نے اس بات کو قبول کر لیا اور مسلمان ہو گیا، جب وہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس سے گیا تو اسے شراب پیش کی گئی، اس نے سوچا اگر میں نے شراب پی لی اور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ سے شراب پینے کے متعلق پوچھا اور میں نے جھوٹ بول دیاتو عہد شکنی ہوگی اور اگر میں نے سچ بولا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مجھ پر حد قائم کر دیں گے ، یہ سوچ کر اس نے شراب کو ترک کر دیا، پھر اسے بدکاری کرنے کا موقع میسر آیا تو اس کے دل میں پھر یہی خیال آیا، لہذا اس نے اس گناہ کو بھی ترک کر دیا، اسی طرح چوری کا معاملہ ہوا، پھر وہ رسول اکرم نور مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ یا رسول اللہ آپ نے بہت اچھا کیا کہ مجھے جھوٹ بولنے سے روک دیا اور اس نے مجھ پر تمام گناہوں کے دروازے بند کر دیئے ، اس کے بعد وہ شخص تمام گناہوں سے تائب ہو گیا۔ ( تفسیر کبیر 6 / 167 )

(2) حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اس کے لئے ہلاکت ہے جو لوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹی بات کرتا ہے، اس کے لیے ہلاکت ہے، اس کے لیے ہلاکت ہے۔ (ترمذی،141/4 ،حدیث: 2322 )

(3) بارگاہ رسالت میں ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کی: یا رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! جہنم میں لے جانے والا عمل کونسا ہے ؟ فرمایا: جھوٹ بولنا، جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو گناہ کر تا ہے اور جب گناہ کر تا ہے تو ناشکری کر تا ہے اور جب ناشکری کر تا ہے تو جہنم میں داخل ہو جاتا ہے۔(المسند الامام احمد بن حنبل، 2/ 589، حدیث: 6652 )

(4) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے کہ سچ بولنا نیکی ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے اور جھوٹ بولنا فسق و فجور ہے اور فسق و فجور (گناہ) دوزخ میں لے جا تا ہے ۔ (صحیح مسلم ، ص1405 ،حديث:2607)

(5) نُورکے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرْشاد فرمایا: خَواب میں ایک شَخْص میرے پاس آیا اور بولا: چلئے! میں اُس کے ساتھ چَل دِیا، میں نے دو(2)آدَمی دیکھے، ان میں ایک کھڑا اور دُوسرا بیٹھا تھا ، کھڑے ہوئے شَخْص کے ہاتھ میں لَوہے کا زَنْبُورتھا،جسے وہ بیٹھےشَخْص کے ایک جَبڑے میں ڈال کر اُسے گُدّی تک چِیر دیتا، پھر زَنْبُورنکال کر دُوسرے جَبْڑے میں ڈال کر چِیْرتا، اِتنے میں پہلے والاجَبْڑا اپنی اَصْلی حالت پرلَوٹ آتا، میں نے لانے والے شَخْص سے پُوچھا: یہ کیا ہے؟اُس نے کہا: یہ جُھوٹا شَخْص ہے، اِسے قِیامت تک قَبْر میں یہی عذاب دیا جا تا رہے گا۔(جھوٹا چور، ص:14)

مشہور بزرگ حضرت سیدابو عبد الرحمن حاتم اصم فرماتے ہے ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ جھوٹا دوزخ میں کتے کی شکل میں بدل جائے گا۔ اللہ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں اس بری خصلت سے بچائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم