آج ہمارے معاشرے میں ایک ایسی بلا عام ہو چکی ہے جو ہر مذہب اور ہر قوم میں بری سمجھی جاتی ہے، جس کی وجہ سے آج ہمارا سماج بڑی تیزی کے ساتھ بربادی کے دہانے پر ہے۔ وہ ہے جھوٹ کی بلا ۔ مرد ہو یا عورت ، امیر ہو یا غریب ، وزیر ہو یا مشیر، افسر ہو یا چوکیدار، الغرض ہماری ایک بڑی تعداد اس بلا میں مبتلا ہے۔ جب کہ ہمارے پیارے دین میں بڑی سختی کے ساتھ اس کی مذمت بیان کی گئی ہے۔

جھوٹ کی تعریف: کسی کے بارے میں حقیقت کے خلاف خبر دینا ۔ (الحدیقۃ الندیۃ، قسم اول، مبحث اول، 4/ 10)سب سے پہلے جھوٹ کس نے بولا؟ سب سے پہلے جھوٹ شیطان نے بولا کہ حضرت آدم علیہ السّلام سے کہا کہ میں تمہارا خیرخواہ ہوں، پہلا تقیہ، پہلا جھوٹ شیطان کا کام تھا۔(مراۃ المناجیح، 6/ 344) آئیے! اب ہم اس کے متعلق 5فرامینِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیان کرتے ہیں:

(1) منافق کی نشانیاں: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں: (1) جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولے (2) جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے (3) اور جب امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔(صحیح بخاری، ص: 1458،حدیث: 6095)

شارح بخاری، مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں : یہ علامتیں منافق کے لوازم عامہ میں سے ہیں کہ جو منافق ہو گا اس میں تینوں باتیں ضرور ہوں گی، لیکن یہ ضروری نہیں کہ جس میں یہ باتیں پائی جائیں وہ منافق بھی ضرور ہو، جیسے : کفار و مشرکین۔ اس لئے اگر کسی مسلمان میں یہ باتیں پائی جائیں تو اسے منافق کہنا جائز نہیں، ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس میں نفاق کی علامت ہے۔ (نزہۃ القاری، 1/ 293)

(2) حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشا فرمایا: چار علامتیں جس شخص میں ہوں گی وہ خالص منافق ہوگا، اور ان میں سے ایک علامت ہوئی تو اس شخص میں نفاق کی ایک علامت ہوگی۔ یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے:(1) جب بات کرے تو جھوٹ بولے(2) جب امانت رکھی جائے تو خیانت کرے(3) جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے(4)جھگڑا کرے تو گالی بکے۔ (صحیح البخاری، ص:201 ،حدیث: 34 )

اس حدیث میں صاف صاف فرمایا کہ جس میں یہ چاروں باتیں ہوں گی وہ خالص منافق ہوگا، اب یہاں بھی یہی کہنا پڑے گا کہ منافق خالص سے منافق فی العمل مراد ہے ۔ یا یہ کہ حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے زمانے کے منافقین کے بارے میں فرمایا کہ ہمارے زمانے میں جس شخص میں یہ چاروں برائیاں اکٹھی ہوں تو سمجھ لو کہ وہ پکا منافق ہے۔(نزهۃ القاری،1/294)

(3) مؤمن جھوٹا نہیں ہو سکتا: امام مالک و بیہقی نے صفوان بن سلیم سے روایت کی کہ رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا گیا: کیا مومن بزدل ہوتا ہے ؟ فرمایا: ہاں ۔ پھر عرض کی گئی ، کیا مومن بخیل ہوتا ہے ؟ فرمایا : ہاں، پھر کہا گیا: کیا مومن کذاب ہوتا ہے؟ فرمایا: نہیں۔(موطا امام مالک ، کتاب الکلام ، 2/ 34، حدیث : 39) مراۃ المناجیح میں ہے: مسلمان میں بزدلی یا کنجوسی فطری طور پر ہو سکتی ہے کہ یہ عیوب ایمان کے خلاف نہیں، لہٰذا مومن میں ہو سکتی ہے، کذاب فرما کر اس طرف اشارہ ہے کہ مومن گاہے بگاہے جھوٹ بول لے، تو ہو سکتا ہے۔ مگر بڑا جھوٹا، ہمیشہ کا جھوٹا ہونا جھوٹ کا عادی ہونا مومن کی شان کے خلاف ہے ۔(مراۃ المناجیح، 6/360)

(4) جھوٹ کی بدبو: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ سول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب بندہ جھوٹ بولتا ہے، اس کی بدبو سے فرشتہ ایک میل دور ہو جاتا ہے۔ (جامع الترمذی ،2/ 18،ابواب البر والصلۃ)

جھوٹ اور غیبت معنوی نجاست ہیں و لہٰذا جھوٹے کے منہ سے ایسی بدبو نکلتی ہے کہ حفاظت کے فرشتے اس وقت اس کے پاس سے دور ہٹ جاتے ہیں جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے اور ہمیں جو جھوٹ یا غیبت کی بدبو محسوس نہیں ہوتی اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اس سے مالوف ہوگئے، ہماری ناکیں اس سے بھری ہوئی ہیں، جیسے چمڑا پکانے والوں کے محلہ میں جو رہتا ہے اس کی بدبو سے ایذا نہیں ہوتی، دوسرا آئے تو ناک نہ رکھی جائے ۔ (فتاویٰ رضویہ مخرجہ ،1/720، رضا اکیڈمی)

(5) جھوٹ جہنم کی طرف لے جاتا ہے : صحابی رسول، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سچ بولنے کو اپنے اوپر لازم کرلو، کیوں کہ ہمیشہ اور پابندی کے ساتھ سچ بولنا، نیکو کاری کی طرف لے جاتا ہے ، نیکوکاری جنت کا راستہ دکھاتی ہے ، جو شخص ہمیشہ سچ بولتا ہے اور ہمیشہ سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے ، تو وہ اللہ پاک کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے ۔ نیز تم اپنے آپ کو جھوٹ بولنے سے باز رکھو، کیوں کہ جھوٹ بولنا فسق و فجور کی طرف لے جاتا ہے ، فسق و فجور فاجر کو دوزخ کی آگ میں ڈھکیلتا ہے ۔ جو شخص برابر جھوٹ بولتا ہے اور زیادہ جھوٹ بولنے کی کو شش کرتا ہے تو اللہ پاک کے نزدیک کذاب (یعنی بڑا جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے۔ (سنن الترمذی، 2/18، ابواب البر والصلۃ ، ناشر: مجلس البرکات)

حکیم الامت، حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : جو شخص سچ بولنے کا عادی ہوجائے، اللہ پاک اسے نیک کار بنادے گا، اس کی عادت اچھے کام کی ہوجائے گی، اس کی برکت سے وہ مرتے وقت تک نیک رہے گا، برائیوں سے بچے گا۔ (مراۃ المناجیح،6/344)

خلاصۂ کلام یہ کہ جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے، جھوٹ بولنے سے انسان اللہ پاک کی رحمت سے دور اور دوزخ سے قریب ہوجاتا ہے ۔جھوٹ معاشرہ میں نفاق کو جنم دیتا ہے۔ الله پاک ہمیں اس سے بچائے اور ہمیشہ سچ بولنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم