زبان سے
ہونے والے گناہوں میں سے بد ترین گناہ جھوٹ ہے۔جھوٹ بولنے والوں پر اللہ کی لعنت ہوتی
ہے جھوٹا جہنم میں کتے کی شکل میں جائے گا۔ جھوٹ ایسی بری چیز ہے کہ تمام اديان میں
حرام ہے۔جھوٹ کا معنی ہے سچ کا الٹ۔ پہلا جھوٹ شیطان نے بولا حضرت آدم علیہ السلام
سے کہا:میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔
1۔آقا
ﷺ نے فرمایا:بے شک جھوٹ فسق وفجور کی طرف لے جاتا ہے اور فسق وفجور جہنم تک لے جاتا
ہے اور ایک آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے حتی کہ وہ اللہ کے نزدیک کذاب (بہت بڑا جھوٹا)
لکھ دیا جاتا ہے۔ ( مسلم،ص 1007،حدیث: 103)
یعنی جھوٹا
آگے چل کر پکا فاسق وفاجر بن جاتا ہے۔جھوٹ ہزارہا گناہوں تک پہنچا دیتا ہے۔تجربہ بھی
یہی ہے۔جھوٹا شخص ہر قسم کے گناہوں میں پھنس جاتا ہے۔لوگ اس کا اعتبار نہیں کرتے،نفرت
کرتے ہیں۔
(مراٰۃ
المناجیح،6/453 ملتقطا)
2۔ایک
روایت ہے:خرابی ہے اس کے لیے جو بات کرے تو جھوٹ بولے تاکہ اس سے قوم کو ہنسائے اس
کے لیے خرابی ہے اس کے لیے خرابی ہے۔
یعنی لوگوں
کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولنا جائز نہیں،خوش طبعی اچھی چیز ہے لیکن اس کا عادی بننا
گناہ ہے۔کسی پریشان کو ہنسانے کے لیے اچھی بات کہنا ثواب ہے۔ بہرحال ایسے جائز کاموں
میں بھی اعتدال ہونا چاہیے۔
(مراٰۃ
المناجیح،6/365-366)
3۔مزید فرمایا:مومن تمام خصلتوں پر پیدا کیا جاسکتا
ہے سواخیانت اورجھوٹ کے۔
یعنی جھوٹ
اور خیانت ایسی بری عادتیں ہیں کہ کسی مومن میں یہ پیدائشی نہیں ہو سکتیں،اگر کوئی
مومن جھوٹا یا خائن ہوگا تو وہ جھوٹوں یا خائنوں کی صحبت سے بناہوگا۔ (مراٰۃ المناجیح،6/376)
4۔ایک اور حدیث ہے:بری خیانت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی
بات کرے جس میں وہ تجھے سچا سمجھتا ہو اور تو اس میں جھوٹا ہو۔یعنی اس شخص سے جھوٹ
بولنا جو تمہیں سچا سمجھے تم پر اعتماد کرے،یہ بہت ہی برا ہے کہ اس میں جھوٹ کے ساتھ
دھوکا فریب بھی ہے۔اسی طرح اللہ رسول سے جھوٹ بولنا بے حیائی،بے غیرتی،اور بے شرمی
ہے۔ اللہ اپنا خوف،اپنے حبیب کی شرم نصیب کرے کہ یہ دو چیزیں ہی گناہوں سے بچاتی ہیں۔(مراٰۃ
المناجیح،6/370)
عام طور
پر شرمندگی سے بچنے،تفاخر،اپنی اچھائی ظاہر کرنے،مروت میں،دنیوی نفع حاصل کرنے،ٹال
مٹول سے کام لینے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے:مثلا کسی کے کام کو کہنا کہ میں
نے کیا ہے،کسی کے اچھے کام کو برا ظاہر کرنا،کسی کے کام سے مطمئن نہ ہونا اور کہنا
کہ مطمئن ہوں،معمولی طبیعت خراب ہونے پر کہنا طبیعت سخت خراب ہے وغیرہ۔ جھوٹے شخص کا
کوئی اعتبار نہیں کرتا،لوگ بھی اس سے نفرت کرتے ہیں۔جھوٹے شخص کے دل پر جھوٹ بولنے
سے سیاہ نکتہ لگ جاتا ہے،توبہ نہ کرے تو مسلسل جھوٹ بولنے سے پورا دل سیاہ کر دیا جاتا
ہے۔ تین صورتوں میں جھوٹ بولنا جائز ہے یعنی گناہ نہیں،ایک جنگ میں کہ مقابل کو دھوکا
دینا،دوسرا دو مسلمانوں میں صلح کرواتے وقت،تیسرا خاوند کا بیوی کوخوش کرنے کے لیے۔
5۔آپ ﷺ
نے فرمایا:جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو فرشتہ اس سے ایک میل دور ہوجاتا ہے،اس بدبو کی
وجہ سے جو آتی ہے۔
معلوم
ہوا کہ اچھی بری باتوں اور اچھے برے اعمال میں خوشبو اور بدبو ہے بلکہ ان میں اچھی
بری لذتیں بھی ہیں جو صاف دماغ والوں اور صاف طبیعت والوں کو ہی محسوس ہوتی ہیں،اللہ
ورسول کے نام میں وہ لذت ہے جو کسی چیز میں نہیں۔(مراٰۃ المناجیح،6/369)
جھوٹ سے
بچنے کے لیےجھوٹ کی مذمت اور سچ کی برکتوں کا مطالعہ کریں،رب سے دعا کریں،نیک اعمال(مدنی
انعامات) پر عمل کریں،زبان کا قفل مدینہ لگائیں۔
جھوٹ کے خلاف جنگ جاری رہے گی! نہ جھوٹ بولیں گی نہ بلوائیں گی