جھوٹ کی
مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ از بنتِ جہانگیر،شفیع
کا بھٹہ سیالکوٹ
کسی
مسلمان کا برائیوں اور گناہوں میں مبتلا ہونا بلاشہ براہے لیکن جھوٹ اس سے کہیں زیادہ براہے۔
ہمارے معاشرے میں جو برائیاں ناسور کی طرح پھیل رہی ہیں اُن میں سے ایک جھوٹ بھی
ہے۔ جھوٹ جیسے گناہ نے ہمارے معاشرے کا سکون برباد کر کے رکھ دیا ہے۔
جھوٹ کی مذمت:
جھوٹ بولنا کبیرہ گناہ ہے اور ایسا کبیرہ گناہ ہے کہ قرآنِ کریم میں جھوٹ بولنے
والوں پر اللہ کی لعنت کی گئی ہے۔ارشاد ربانی ہے:فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ
عَلَى الْكٰذِبِیْنَ0اللہ کی لعنت ہو جھوٹوں پر۔ (اٰل عمران:61) اس آیت
مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے۔ قرآنِ کریم میں اس کے علاوہ بہت
سی جگہوں پر جھوٹ کی مذمت بیان فرمائی گئی۔بکثرت احادیثِ مبارکہ بھی موجود ہیں۔
جھوٹ کی تعریف: کسی کے بارے میں خلاف حقیقت خبر دینا
جھوٹ کہلاتا ہے۔
سب سے پہلا جھوٹ :
سب سے پہلا جھوٹ شیطان لعین نے بولا۔
جھوٹ کی مذمت پر احادیثِ مبارکہ:
1۔
اللہ پاک کے آخری نبی ﷺنے فر مایا: بے شک جھوٹ فسق و فجور کی طرف لے جاتا ہے اور فسق
و فجور آگ کی طرف لے جاتا ہے،ایک شخص جھوٹ بولتا رہتا ہے حتی کہ وہ الله پاک کے نزدیک
کذاب (بہت بڑا جھوٹا )لکھ دیا جاتا ہے۔ (مسلم،ص 1077،حدیث:2607)
2۔تم
بدگمانی سے بچو کیونکہ بلا شبہ یہ سب سے بڑی جھوٹی بات ہے۔ (مسلم،حدیث:2563)
3۔بروز قیامت تیں شخصوں سے الله پاک کلام نہیں فرمائے
کا ان میں جھوٹا بادشاہ بھی ہوگا۔( مسلم،حدیث:
102)
4۔جھوٹ
اور خیانت کے علاوہ مومن کی طبیعت میں ہر بات
ہو سکتی ہے۔ (مسند احمد،حدیث: 22232)
حدیث نمبر5: منافق کی تین نشانیاں ہیں:1: جب بات
کرے تو جھوٹ بولے۔2 :جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے۔3: جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے۔
(بخاری،حدیث: 59)
جھوٹ کی مثالیں :1) یکم اپریل کو دنیا بھر میں اپریل فول منایا جاتا ہے اور لوگ ایک
دوسرے سے جھوٹ بولتے اور اس عمل سے فرحت
حاصل کرتے ہیں،کئی مرتبہ اس عمل کے نتیجے میں لوگوں کو نفسیاتی حوالے سے زبردست
دھچکوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے،2) بعض لوگ روزے کی حالت میں بھی جھوٹ بولنے سے باز نہیں
آتے وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ روزہ فقط
کھانے پینے کو چھوڑے کا نام نہیں بلکہ اس حالت میں جھوٹ سے بچنا بھی ضروری ہے۔ 3) کاروبار میں جھوٹ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ لوگ جھوٹ کو تجارت کا باقاعدہ
حصہ سمجھتے ہیں۔
معاشرتی نقصانات:
سب جانتے ہیں کہ بے بنیاد باتوں کو لوگوں میں پھیلانے،جھوٹ اور افواہ کا بازار گرم
کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ملتا،جھوٹ چاہے جان بوجھ کر بولا ہو یا انجانے میں ہو کتنے لوگوں کو ایک ایک آدمی سے بدظن کر دیتا ہے،لڑائی
جھگڑے کا ذریعہ ہوتا ہے اور بسا اوقات پورے معاشرے کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتا ہے۔جب جھوٹ بولنے والے کی حقیقت لوگوں
کے سامنے آتی ہے تو وہ لوگوں کی نظر سے گر جاتا ہے اور اپنا اعتماد کھو دیتا ہے
اور پھر لوگوں کے درمیان اس کی کسی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ اللہ پاک ہم سب
کو جھوٹ جیسے مہلک مرض سے بچائے اور سچائی کی راہ پر چلائے۔ آمین