جھوٹ کی
مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ از بنتِ شبیر
حسین،شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
بات
کا حقیقت کے خلاف ہونا جھوٹ ہے،جھوٹ اپنے بدترین انجام اور برےنتیجے کی وجہ سے
تمام برائیوں کی جڑ ہے کہ اس سے چغلی کا دروازہ کھلتا ہے،چغلی سے بغض پیدا ہوتا ہے،بغض
سے دشمنی ہو جاتی ہے،بغض کے ہوتے ہوئے امن وسکون قائم نہیں ہو سکتا۔ گناہ چاہے
چھوٹا ہو یا بڑا اس سے بچنے میں ہی عافیت
ہے۔ بالخصوص جھوٹ سے کہ ایک جھوٹ کئی گناہوں کا سبب بنتا ہے۔
احادیثِ مبارکہ میں جھوٹ کی مذمت بیان کی گئی ہے:
1۔
جھوٹ اللہ پاک کی نافرمانی کی طرف لے کر
جاتا ہے اور اللہ پاک کی نا فرمانی جہنم کی آگ کی طرف لے جاتی ہے بندہ جھوٹ بولتا
رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ پاک کے نزدیک ایک بہت بڑا جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔ (بخاری،4/125،حدیث: 6094)
2۔
تمام عادتیں مومن کی فطرت میں ہو سکتی ہیں سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔ (مسند امام
احمد،36/ 504،حدیث : 2170)
3۔مومن
کی شان جھوٹ سے کس قدر بلند اور پاک ہوتی ہے اس کا اندازہ اس فرمانِ مصطفیٰ
سے لگائیے،چنانچہ بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی : یارسول اللہ ﷺ! کیا
مومن بزدل ہو سکتا ہے؟ ارشاد فرمایا :ہاں۔پھر پوچھا گیا :کیا مومن بخیل ہو سکتا ہے
؟ ارشاد فرمایا :ہاں۔ پوچھا گیا:کیا مومن جھوٹا ہو سکتا ہے ؟ تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا نہیں۔(موطا امام مالک،2/ 468،حدیث
: 1913)
4۔سچ
بولنا نیکی ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے اور جھوٹ بولنا فسق و فجورہے اور فسق و
فجور( گناہ)دوزخ میں لے جاتا ہے۔(مسلم،ص1077،حدیث:2238ملتقطاً)
5۔بارگاہِ
رسالت میں ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کی :یارسول الله ﷺجہنم میں لے جانے والا عمل
کونساہے؟ فرمایا: جھوٹ بولنا،جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو گناہ کرتا ہے اور جب گناہ
کرتا ہے تو ناشکری کرتا ہے اور جب ناشکری کرتا ہے تو جہنم میں داخل ہو جاتا ہے۔ (مسند
امام احمد،2/589،رقم: 2256)