اللہ پاک  نے اس دنیا میں سچائی کو بھی پیدا فرمایا ہے اور جھوٹ کو بھی پیدا فرمایا ہے۔سچائی کو اپنانے اور جھوٹ سے دور رہنے کا حکم فرمایا ہے۔ جھوٹ سے ڈرایا ہے اور اس کی مذمت کی ہے اور اس کے برے نتائج سے آگاہ کیا ہے۔ جھوٹ بول کر انسان خود کو وقتی طور پر بچالیتا ہے لیکن جھوٹ کبھی نہ کبھی ظاہر ہو ہی جاتا ہے۔

جھوٹ کی تعریف : جھوٹ سے بچنے کے لیے آئیں پہلے اس کی تعریف کو سمجھ لیتے ہیں۔ کسی بھی بات کو حقیقت کے برعکس (خلاف) بیان کرنا جھوٹ کہلاتا ہے۔

پہلا جھوٹ کس نے بولا: دنیا میں پہلا جھوٹ شیطان نے بولا،اس بارے میں تاریخ میں کچھ بھی واضح طور پر نہیں،تخلیقِ آدم علیہ السلام پر سجدہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے شیطان نے کہا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام سے بہتر ہے۔ شیطان نے جھوٹ بول کر حضرت حوا علیہ السلام کو ورغلایا کہ اس درخت کا پھل کھانے سے کچھ نہیں ہوگا،نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ پہلا جھوٹ شیطان نے بولا۔

فرامینِ مصطفیٰ کی روشنی میں: قرآنِ پاک میں بہت زیادہ مقامات پر سچ بولنے کا حکم ارشاد فرمایا گیا ہے اور جھوٹ کی مذمت کی گئی ہے،اسی طرح جھوٹ کی مذمت پر بہت سی احادیثِ مبارکہ بھی موجود ہیں۔ جھوٹ کی مذمت پر پانچ فرامینِ مصطفیٰ ملاحظہ فرمائیے۔

اللہ کے ہاں جھوٹا کون؟ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی کریم ﷺنے فرمایا : جھوٹ نافرمانی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نافرمانی جہنم کی طرف لے جاتی ہے اور آدمی یقینا جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے یہاں وہ بہت بڑا جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔

جھوٹ بے چینی کا باعث: وہ چیز چھوڑ دے جو تجھے شک میں ڈالے اور اسے اختیار کرجس کی بابت تجھے شک و شبہ نہ ہو اس لیے کہ سچ اطمینان کا باعث ہے اور جھوٹ شک اور بے چینی ہے۔ (ترمذی،حدیث: 2518)

مومن کی خصوصیت: حتی کہ ایک انسان اور خصوصا مومن ومسلمان کو مذاق میں بھی جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔ ( بخاری و مسلم)

ہلاکت کا مستحق کون؟: اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جو لوگوں سے کوئی بات بیان کرتا ہے،پس جھوٹ بولتا ہے تاکہ وہ انہیں ہنسائے،اس کے لیے ہلاکت ہے،اس کے لیے ہلاکت ہے۔(ابو داؤد،4990)

جنت میں گھر کی ضمانت: میں اس شخص کو جنت کے ادنی درجے میں ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑنے سے اجتناب کریں اور اس شخص کو جنت کے درمیانے درجے میں گھر کی ضمانت دیتا ہوں جو جھوٹ چھوڑ دیتا ہے اگرچہ وہ مذاق کیوں نہ کر رہا ہو۔ (ابو داؤد،4800)

جھوٹ کی مثالیں: ہمارے معاشرے میں جھوٹ کا رجحان اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اس کی مثالیں عام طور پر مل جاتی ہیں،اللہ پاک کی امان اب تو باقاعدہ طور پر اپریل فول کے نام پر جھوٹ بولنے کا عالمی دن منایا جاتا ہے،بچوں کو بہلانے سلانے کے لئے جھوٹ کہ میرے پاس ٹافی ہے،میرے پاس آؤ،سوجاؤ ورنہ چڑیل آجائے گی،دوسروں پر مذاق مذاق میں تہمت لگادینا،اس سے بہت زیادہ دل آزاری ہوتی ہے،بعد میں،سوری میں تو مذاق کر رہا تھا کہ دینا،کسی کو جگانے کے لئے جھوٹ بولنا کہ نماز کا وقت ہوگیا ہے،بچوں کا اسکول سے چھٹی کرنے کے لئے جھوٹ بولنا کہ طبیعت خراب ہے،اس طرح اور بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں،عدالتوں میں جھوٹی گواہیاں بہت عام ہیں۔

معاشرتی نقصانات: جھوٹ بلاشبہ ایک ایسی بیماری ہے جس نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے،جھوٹ بولنے سے برکت اٹھا لی جاتی ہے جبکہ ہماری مارکیٹوں میں یہ بہت عام ہے،غیر معیاری اشیا کو معیاری کہہ کر بیچ دیتے ہیں،جھوٹ سے رشتوں میں برکت ختم ہو جاتی ہے،جھوٹ کی وجہ سے آئے روز کئی گھر برباد ہوتے ہیں،نظام عدل میں بہت زیادہ خرابی آ چکی ہے۔ سب سے بڑا جھوٹ کفر اور اسی کا ہم پلہ دوسرا بڑا جھوٹ شرک ہے،بے شک سچ میں نجات ہے اور جھوٹ بے سکونی و بے چینی ہے۔ صحابی رسول،حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اے اللہ کے رسول ﷺ! مجھے اللہ پاک نے سچ بولنے کی وجہ سے ہی نجات دی ہے اس لیے میں اپنی توبہ کی قبولیت کے شکرانے کے طور پر جب تک زندہ رہوں گا جھوٹ نہیں بولوں گا۔ اللہ ہم سب کو جھوٹ سے بچائے اور سچائی کی راہ پر چلائے.