جھوٹ
کے معنی ہیں: سچ کا الٹ یعنی جھوٹ اس بات
کو کہا جاتا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ ہو،سچائی کچھ اور ہو اور بتایا کچھ
اور جائے تو وہ جھوٹ ہوتا ہے۔
حکم:جھوٹ بولنا حرام ہے۔یہ گناہِ کبیرہ اور جہنم میں لے
جانے والا کام ہے،جس کا معصیت (گناہ) ہونا ضروریات دین میں سے ہے۔ لہٰذا جو اس کے
گناہ ہونے کا مطلقاً انکار کرے وہ کافر ہے،وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو کر کا فر و
مرتد ہو جائے گا۔ ہمارے پیارے آقا،حضرت محمد ﷺ نے زندگی میں کبھی بھی جھوٹ نہیں بولا،یہ
آپ ﷺ کی سچائی اور دیانتداری ہی کا نتیجہ تھا کہ کفارِ مکہ اور مشرکینِ عرب بھی آپ
ﷺ کو صادق اور امین کہہ کر پکارتے تھے،آپ ﷺ نے ہمیشہ سچ بولا،سچائی کا ساتھ دیا
اور صرف سچ بولنے کا حکم دیا۔ جھوٹ بولنا الله اور اس کے رسول ﷺ کے نزدیک بہت ہی
بری اور ناپسندیدہ بات ہے۔
آپ ﷺ نے جھوٹ کی مذمت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
جھوٹ سےبچو!جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتاہے اور گناہ جہنم کا راستہ ہے اور آدمی برابر
جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ الله کے
نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔(ظاہری گناہوں کی معلومات،ص28)
جھوٹ ہر
گناہ کی جڑ ہے۔جھوٹ بولنے والا شخص اپنا اعتبار کھو بیٹھتا ہے۔ لوگ اس کی بات پر یقین
نہیں کرتے کیونکہ اس کی بات ہوتی ہی سرے سے غلط ہے۔ جھوٹ بولنا منافقین کا طرز عمل
ہے اور منافقین قیامت کے دن جہنم کے سب سے نچلے گڑھے میں ہوں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
منافقین کی تین نشانیاں ہیں :جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی
کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے۔(ظاہری گناہوں کی
معلومات،ص34)
جھوٹ
بولنے والوں کے گھر ویران ہو جاتے ہیں۔ان کے مال سے برکتیں ختم ہو جاتی ہیں۔ ان کا
ایمان جاتا رہتا ہے۔ قطع تعلقی بڑھ جاتی ہے۔ جھوٹ بول کر انسان دوسروں کو نقصان پہنچانے
کی بجائے خود اپنا ہی نقصان کر بیٹھتا ہے۔قرآنِ پاک میں بار بار جھوٹ کی مخالفت بیان
کر کے جھوٹ بولنے سے منع کیا گیا ہے۔ جھوٹ بو لنے والے شخص پر اللہ پاک کی لعنت برستی
ہے۔
فرمانِ مصطفیٰ ہے:سچ
نجات دلاتا ہے اور جھوٹ ہلاک کرتا ہے۔(جھوٹا چور،ص 12)
انسان کو چاہیے کہ وہ زندگی میں کبھی بھی جھوٹ
نہ بولے اور ہمیشہ سچائی کاساتھ دے کیونکہ سچائی ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو کبھی
بھی گرنے نہیں دیتی نہ کسی کی نظروں میں اور نہ کسی کے قدموں میں اس کے برعکس انسان
جب ایک گناہ کرتا ہے تو پھر اس گناہ کو چھپانے کے لیے جھوٹ پر جھوٹ بولتا رہتا ہے
لیکن پھر بھی اس کا جھوٹ پکڑا جاتا ہے پھر اسے لوگوں کے سامنے ذلیل اور رسوا ہونا
پڑتا ہے۔ ایسا شخص لوگوں کی نظروں میں گر جاتا ہے اور دوسرا قدموں میں گر کر معافی
بھی مانگنی پڑتی ہے۔ ایسے لوگ دنیا میں توذلیل ہوتے ہی ہیں آخرت میں بھی ان کے لیے
دردناک عذاب ہے۔
فرمانِ مصطفیٰ ہے:مجھ
پر جھوٹ باندھنا کسی اور پر جھوٹ باندھنے جیسا نہیں لہٰذا جس نے مجھ پر جھوٹ
باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔(ظاہری گناہوں کی معلومات،ص30)
قرآنِ
پاک نے جھوٹ بولنے والوں کو عذاب الیم کی وعید سنائی ہے۔جھوٹ سے بڑی کوئی برائی نہیں
ہے۔ اگر انسان صرف جھوٹ بولنا چھوڑ دے تو وہ ہر برائی اور ہر گناہ سے بچ سکتا ہے۔
جھوٹ انسان کو بلاکت کے گڑھے میں لے جاتا ہے۔ جھوٹ ہی وہ چیز ہے جس سے معاشرے میں
فتنہ اور فساد پیدا ہوتے ہیں جو الله پاک اور اس کے رسول ﷺ کو بالکل بھی پسند نہیں،لہٰذا
ہمیں ایسے لوگوں سے بچنا چاہیے جو لوگ جھوٹ بولنے کے عادی ہوتے ہیں تاکہ ہم ان کے
ساتھ رہ کر ان کے رنگ میں نہ رنگ جائیں،ہمیں ہر وقت جھوٹ بولنے سے بچناچاہیے تاکہ
ہم الله پاک اور اس کے رسول ﷺ کی خوشنودی حاصل کرسکیں۔
ہمارے پیارے نبی ﷺ نے جھوٹے لوگوں سے بچنے کی
تلقین کرتے ہوئے فرمایا:آ خری زمانے میں کچھ لوگ بڑے دھوکے باز اور جھوٹ بولنے
والے ہوں گے وہ تمہارے پاس ایسی حدیثیں لائیں گے جو نہ تم نے سنی ہوں گی اور نہ تمہارے
باپ دادا نے۔ تم اپنے آپ کو ان سے دور رکھو اور ان کو اپنے سے دور کرو کہیں وہ تمہیں
گمراہ نہ کردیں،کہیں وہ تمہیں فتنے میں نہ ڈال دیں۔(ظاہری گناہوں کی معلومات،ص30)
لہٰذااس حدیث ِپاک پر عمل کرتے ہوئے ہمیں جھوٹ بولنے والے
لوگوں سے بچنا چاہئے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ جھوٹی حدیثیں سنا کر ہمیں اسلام کے اصولوں
سے بھٹکادیں،ہمارے اعمال ضائع ہو جائیں اور ہمیں خبر تک نہ ہو۔ اللہ پاک سے دعا ہے
کہ الله پاک ہمیں اور تمام مسلمانوں کو جھوٹ بولنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے امین۔