اللہ
رب العزت نے انسانی ہدایت کے لیے کتب و صحائب نازل
فرمائے اور خاتم النبین احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر آخری آسمانی کتاب قران مجید کو نازل فرمایا۔
قرآن پاک کو تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ
ترجمہ کنز الایمان : ہر چیز کا روشن
بیان ہے۔
(پارہ ۱۴، سورة النحل آیہ 89)
اور حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے متعلق فرمایا: لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْهِمْ ترجمہ کنز الایمان : کہ تم
لوگوں سے بیان کردو جو ان کی طرف اترا۔
(پارہ
14 سورة النحل آیت 44)
لہٰذا حضور صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم قرآن پاک کے شارح
ہیں اور آپ صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی احادیث قرآن
پاک کی توضیح و تشریح ہے۔
علمِ حدیث
کی اہمیت :
دین اسلام میں حدیث نبوی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اہمیت و مرتبہ کسی شخص پر مخفی نہیں ہے اور
قران پاک نے خود اس کی اہمیت کوواضح کرتے ہوئے فرمایا:بِالْبَیِّنٰتِ
وَ الزُّبُرِؕ-وَ
اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الذِّكْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْهِمْ وَ
لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ(۴۴)
روشن دلیلیں اور کتابیں لے
کر اور اے محبوب ہم نے تمہاری طرف یہ یادگار اتاری کہ تم لوگوں سے بیان کردو جو ان کی طرف اترا اور کہیں وہ دھیان کریں
(تفسیر صراط الجنان پارہ 14 سورةة النحل آیت 44)
اس آیت کے بعد سے واضح
ہوتا ہے کہ سنت کا دامن تھامنا بہت ضروری ہے۔
صحابہ کرام علیہمُ الرِّضوان اپنے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی احادیث مبارکہ کو زبانی یاد کرتے اور بعض
صحابہ کرام احادیثِ مبارکہ کو لکھا بھی کرتے تھے۔
(منھج النقد فی علوم البحدیث ص 48 ، مطبوعہ دارالفکر)
عقلی دلیل :
منکرین حدیث خود سنت کو
قبول کرتے ہیں اور خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ نماز کی کیفیت رکعتیں، زکوٰة کا نصاب اور اس کی
مقدار وغیرہ بہت سے ایسے کام ہوتے ہیں جن پر قرآن پاک سے کوئی واضح دلیل موجود
نہیں ہوتی اور یہ چیزیں حضور علیہ السلام کی احادیث سے ہی معلوم ہوتی ہیں۔ (منھج النقد فی علوم الحدیث ص ۳۴، مطبوعہ دارالفکر)
ایک عاشقِ رسول سچا مسلمان
کبھی یہ جرات نہیں کرسکتا کہ وہ حدیث نبوی پر اعتراض کرے مسلمان تو قال
رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم وسلم سنتے ہی سر تسلیم خم کردیتے ہیں۔