حضور ﷺ  کی نسبتِ مبارکہ کی وجہ سے ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہا کا بہت ہی بلند مرتبہ ہے۔ان کی شان میں قرآن کی بہت سی آیات نازل ہوئیں۔چنانچہ فرمانِ ربانی ہے:یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ (پ22، الاحزاب:32)ترجمہ کنز الایمان : اے نبی کی بیبیو تم اَور عورتوں کی طرح نہیں ہو۔

صدر الافاضل حضرت علامہ مفتی سید محمد نعیم الدین مراد آبادی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: (یعنی) تمہارا مرتبہ سب سے زیادہ ہے اور تمہارا اجر سب سے بڑھ کر، جہان کی عورتوں میں کوئی تمہاری ہمسر نہیں۔

(تفسیر خزائن العرفان،ص780)

حضور ﷺ نے متعدد نکاح فرمائے اور متعدد خواتین کو شرفِ زوجیت سے نوازا،ان میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا حضور ﷺ کی سب سے پہلی رفیقۂ حیات ہیں۔آپ کے والد کا نام خویلد بن اسد اور آپ کی والدہ کا نام فاطمہ بنتِ زائدہ ہے۔آپ خاندانِ قریش کی بہت ہی معزز اور نہایت ہی دولت مند خاتون تھیں۔ اہلِ مکہ آپ کی پاک دامنی اور پارسائی کی بنا پر آپ کو طاہرہ کے لقب سے یاد کرتے تھے۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی دو مرتبہ شادی ہو چکی تھی اور آپ کے دونوں شوہر فوت ہوگئے تھےاور ان سے آپ کی اولاد بھی تھی،اس لیے بڑے بڑے امراء اور رؤسا نے کوشش کی کہ وہ انہیں رشتۂ ازدواج میں قبول کریں لیکن حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کسی کی طرف التفات نہ کیا۔آپ نے حضور ﷺ کے اخلاق و عادات اور جمالِ صورت وکمالِ سیرت کو دیکھ کر خود ہی حضور ﷺ سے نکاح کی رغبت کی اور پھرباقاعدہ نکاح ہوگیا۔

فضیلت:جب ہر طرف تاریکی کا دور دورہ تھا، اللہ پاک اپنےمحبوبﷺ کے نور کا سورج طلوع فرما دیتا ہے ، پھر کائنات کا ذرہ ذرہ آقا ﷺکے نور سے جگمگا اٹھتا ہے،جو معبودِ حقیقی، خالق و مالک اللہ پاک کی عبادت کی طرف بلاتے ہیں تو بجائے اس کے کہ آپ کی دعوت قبول کرتے ہوئے خدا کی پکار پر لبیک کہا جاتا بلکہ آپ پر مصائب و آلام کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں ایسے نازک دور میں جو ہستی حق کی پکار پر لبیک کہتی ہوئی آپ کی دعوتِ حق کو قبول کرنے کی سعادت سے سرفراز ہوئی اور ”اے ایمان والو“کی پکار کی سب سے پہلے حق دار قرار پائی،جنہوں نےعورتوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل کیا،حضور ﷺ کی زوجیت سے جو سب سے پہلے مشرف ہوئیں،اللہ پاک نے جنہیں جبریلِ امین علیہ السلام کی وساطت سے سلام بھیجا،جنہوں نے حبیب ﷺکی صحبتِ با برکت میں کم وبیش 25 سال رہنے کی سعادت حاصل کی، جنہوں نے شعبِ ابی طالب میں رسول ﷺ کے ساتھ محصور رہ کر رفاقت اور محبت کا عملی نمونہ پیش کیا، جنہوں نے اپنی ساری دولت حضور ﷺ کے قدموں میں ڈھیر کر دی،جن کی قبر میں ہادیِ برحق ﷺ اترے،جو خاتونِ جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی والدہ،نوجوانانِ جنت کے سرداروں حضرت حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی نانی جان،حضرت محمد ﷺکی بہت ہی محبوب زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں۔آپ کی حیات میں حضورﷺ نے کسی اور سے نکاح نہ فرمایا اور آپ کو جنت میں شوو غل سے پاک محل کی بشارت سنائی۔ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے فضائل و مناقب بے شمار ہیں۔سر کارِ عالی وقار ﷺ کو آپ سے بہت محبت تھی کہ جب آپ کا وصال ہو گیا تو پیارے آقا ﷺ کثرت سے آپ کا ذکر فرماتے ۔چنانچہ

یادِ خدیجۃ الکبریٰ رضی الله عنہا:ایک بار حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن حضرت ہالہ بنتِ خویلد رضی اللہ عنہا نے سر کارِ رسالت ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی،ان کی آواز حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے بہت ملتی تھی۔ آپ ﷺ کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا اجازت طلب کرنا یاد آگیا اور آپ ﷺ نے جھرجھری لی۔(بخاری، ص 962،حدیث: 3821)

جنتی انگور: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو دنیا میں جنت کا انگور کھلایا ۔ (شرح زرقانی،4/376)

اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضور ﷺکی زبان مبارک سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہت زیادہ تعریف سنی تو انہیں غیرت اگئی اور انہوں نے کہہ دیا کہ اب تو اللہ پاک نے آپ کو ان سے بہتر بیوی عطا فرمادی ہے۔یہ سن کر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:نہیں ۔ خدا کی قسم!خدیجہ سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی۔جب سب لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا اس وقت وہ مجھ پر ایمان لائیں اورجب سب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اس وقت انہوں نے میری تصدیق کی اور جس وقت کوئی شخص مجھے کوئی چیز دینےکے لیے تیار نہ تھا اس وقت خدیجہ نے مجھے اپنا سارا مال دیا اور انہی کے شکم سے اللہ پاک نے مجھے اولاد عطا فرمائی۔(بخاری،2/565 ،حدیث: 3818)

قدم قدم پرساتھ :حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے قدم قدم پر آقاﷺ کا ساتھ دیا،حوصلہ بڑھایا اور ہمت بندھائی۔جب کفار کی جانب سے کوئی ناپسندیدہ بات سن کر غمگین ہو جاتے توحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے جاتےتو ان کے باعث آپ کی وہ رنج و غم کی کیفیت دور ہو جاتی۔

عام الحزن یعنی غم کا سال:اعلانِ نبوت کے دسویں سال جبکہ شعبِ ابی طالب کے محاصرے کو ختم ہوئے ابھی تھوڑا وقت گزرا تھا کہ اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ کے چچا ابو طالب کا انتقال ہو گیا،ابو طالب کی وفات سے آپ کو بہت صدمہ ہوا ،ابھی ابو طالب کی وفات کو ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی دنیا سے پردہ فرما گئیں۔مکے میں یہ دو ہستیاں ایسی تھیں جو آپ کے بہت قریب تھیں، قدم قدم پر انہوں نے آپ کی حمایت اور مدد کی، ان کی وفات کے حادثے ایک ہی سال میں بڑی قلیل مدت میں ہوئے اور آپ کو اس سے بہت رنج و غم ہوا ۔آپ رضی اللہ عنہا کو مکہ مکرمہ میں واقع حَجُون کے مقام پر دفن کیا گیا،حضور ﷺ خود بنفسِ نفیس آپ کی قبر میں اترے اور اپنے مقدس ہاتھوں سے دفن فرمایا۔(شرح الزرقانی علی المواہب،4/376)(الاکمال فی اسماء الرجال،ص593)الله پاک ان کے فیضان سے امت کو مالا مال فرمائے۔امین