سب مومنین کی پیاری امی جان جناب حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا ہیں۔سبحان اللہ الکریم آپ کی سیرتِ طیبہ و شان کی بھی کیا بات ہے۔آپ کی شان و عظمت کا ذکر احادیثِ کریمہ اور سیرت کی مختلف کتابوں میں بھی ملتا ہے۔سبحان اللہ آپ کی بھی کیا شان ہے!بخاری و مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کی ازواجِ مطہرات میں سے کسی پر اتنی غیرت نہ کی جتنی جناب حضرت خدیجۃ رضی اللہ عنہا پر غیرت کی۔حالانکہ میں نے انہیں دیکھا نہ تھا لیکن حضور ﷺ ان کا بہت ذکر کرتے تھے۔(بخاری، ص 962،حدیث: 13818)

شرح حدیث:حکیمُ الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ حدیثِ مذکور بالا کی شرح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:یہاں غیرت بمعنی شرم و حیا (اور) بمعنی حسد نہیں بلکہ بمعنی رشک یا غبطہ ہے دینی امور میں رشک جائز ہے۔جنابِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی محبوبیت دیکھ کر رشک فرمایا کہ میں بھی ان کی طرح حضور انور ﷺ کی محبوبہ ہوتی کہ مجھے حضور ﷺ میری وفات کے بعد اسی طرح تعریفیں فرماتے جیسی ان کی فرماتے ہیں۔خیال رہے کہ جناب عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضور ﷺ کی بڑی ہی محبوبہ زوجہ ہیں،آپ کی محبوبیت بی بی خدیجہ رضی اللہ عنہا کی محبوبیت سے کسی طرح کم نہیں،رشک اس بات میں ہے جو ہم نے عرض کی کہ بعدِ وفات محبتِ مصطفیٰ کا جوش۔

(مراۃ المناجیح، 8/496)

یادِ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا: ایک بار حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن حضرت ہالہ بنتِ خویلد رضی اللہ عنہا نے سرکار ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی،ان کی آواز حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے بہت ملتی تھی۔چنانچہ اس سے آپ کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا اجازت طلب کرنا یاد آگیا اور آپ نے جُھر جُھری لی۔(بخاری،ص 962،حدیث:3821)

قربان جائیے!کیا شان ہے آپ کی! ذرا سوچئے کہ جب حضور نبی کریم ﷺ کی یادوں کو اپنے دل کے گلدستے میں سجانے اور آپ کی اداؤں کو اپنانے والا بڑے بڑے مراتب پالیتا ہے تو جنہیں حضور ﷺ یاد فرمائیں، جن سے محبت فرمائیں، جن کے فراق میں گریہ فرمائیں اور جن کے متعلقین کا اکرام فرمائیں ان کی عظمت و شان کا کیا عالم ہوگا! جیسا کہ

حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی سہیلی کا اکرام:سبحان اللہ!صد کروڑ صدقے آپ کی محبت کے! بے شک محبوب سے محبت کے ساتھ ساتھ محبوب سے نسبت رکھنے والی ہر چیز بھی محبوب و پیاری ہوتی ہے اور اس کا ادب و احترام کیا جاتا ہے،اِس محبت کا اظہار سرکار ﷺ اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے درمیان بھی دیکھا جاسکتا ہے۔چنانچہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد حضور ﷺ اپنی بلند وبالا شان و رفعت مقام کے باوجود حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کا اکرام فرماتے تھے،بارہا جب آپ کی بارگاہ میں کوئی شے پیش کی جاتی تو فرماتے:اسے فلاں عورت کے پاس لے جاؤ کیونکہ وہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلی تھی،اسے فلاں عورت کے گھر لے جاؤ کیونکہ وہ خدیجہ سے محبت کرتی تھی۔(الادب المفرد،ص 28،حدیث:232)

بکری کے گوشت کا تحفہ:آپ ﷺ بہت دفعہ بکری ذبح فرماتے،پھر اس کے اعضاء کاٹتے،پھر وہ جناب خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کے پاس بھیج دیتے۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:میں کبھی حضور ﷺ سے کہہ دیتی کہ گویا خدیجہ کے سوا دنیا میں کوئی عورت ہی نہ تھی!تو آپ فرماتے:وہ ایسی تھیں،وہ ایسی تھیں اور ان سے میری اولاد ہوئی۔(بخاری،2/565 ،حدیث: 3818)

شرح حدیث: مفسر شہیر،محدثِ جلیل حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث شریف کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:( حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ ) جب حضور ﷺ کی زبانِ پاک سے ان کی تعریف بہت سنتی تو جوش ِغیرت میں عرض کرتی کہ یارسول اللہ ﷺ! حضور تو ان کی ایسی تعریفیں کرتے ہیں گویا اُن کے سوا کوئی بیوی آپ کو ملی ہی نہیں یا اُن کے سوا دنیا میں کوئی بی بی ہے ہی نہیں،( اور حضور ﷺ کے فرمان:وہ ایسی تھیں،وہ ایسی تھیں) کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اس سے جناب خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہت سی صفات کی طرف اشارہ ہے یعنی وہ بہت روزہ دار،تہجّد گزار،میری بڑی خدمت گزار،میری تنہائی کی مُوَنِس،میری غم گسار،غارِ حرا کے چلّے میں( یعنی خلوت نشینی کے دوران)میری مددگار تھیں اور میری ساری اولاد انہیں سے ہے۔(مراۃ المناجیح،8/497 )

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی چند خصوصیات: حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہت سی خصوصیات ہیں جن میں سے کچھ عرض کرنے کی سعادت حاصل کرتی ہوں :

1-حضورﷺکا سب سے پہلا نکاح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ہوا۔

2-حضور ﷺ نے آپ کی حیات میں کسی اور سے نکاح نہیں فرمایا۔

3 -آپ سے کبھی کوئی ایسی بات سرزد نہیں ہوئی جس پر نبی کریم ﷺ نے غصہ فرمایا ہو۔

4 -نبی کریم ﷺ کے بیٹے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے علاوہ حضور ﷺ کی تمام اولاد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہی سے ہوئی۔

5-آپ قیامت تک آنے والے تمام سادات کی نانی جان ہیں۔

6-دیگر ازواجِ مطہرات کی نسبت آپ نے سب سے زیادہ عرصہ کم وبیش 25 برس نبی کریم ﷺ کے ساتھ رہنے کا شرف حاصل کیا۔

7-حضور ﷺ کے علانِ نبوت کی سب سے پہلی خبر آپ کو ہی پہنچی۔

8-حضور ﷺ کے بعد اسلام میں سب سے پہلے آپ نے نماز پڑھی اور حضور ﷺ کی امامت میں پڑھی۔

10-آپ ہمیشہ پیارے آقا ﷺ کی تعظیم و آپ کی باتوں کی تصدیق کرتی رہیں۔

(فیضان خدیجۃ الکبریٰ،ص 59تا 62ملخصاً)

جنت میں زوجیت کی بشارت: حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا مرضِ وفات شریف میں مبتلا تھی کہ سرکار ﷺ آپ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا:اے خدیجہ!تمہیں اس حالت میں دیکھنا مجھے گراں ( ناگوار) گزرتا ہے لیکن اللہ پاک نے اس گراں گزرنے میں کثیر بھلائی رکھی ہے۔تمہیں معلوم ہے کہ اللہ پاک نے جنت میں میرا نکاح تمہارے ساتھ،مریم بنتِ عمران،حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن کُلْثُم اور فرعون کی بیوی آسیہ کے ساتھ فرمایا ہے۔(معجم لکبیر،9/ 393، حدیث:18531)

انتقالِ پُرملال:نبوت کے دسویں سال رمضان المبارک کے مہینے میں جبکہ ابو طالب کو وفات پائے ابھی 3 یا 5 روز ہی ہوئے تھے کہ دس تاریخ کو آپ رضی اللہ عنہا نے بھی آخرت کے سفر کا آغاز فرمایا۔بوقتِ وفات آپ کی عمر شریف 65 سال تھی۔آپ کا مزارِ پُر انوار مکہ مکرمہ کے مشہور ترین قبرستان جنت المعلی میں موجود ہے۔اللہ پاک آپ کے مزار پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین