معاشرےکےافرادکےظاہروباطن کو بُری خصلتوں سے پاک کرکےاچّھے اوصاف سے مزیّن کرنا اور انہیں معاشرے کا ایک باکردار فرد بنانا بہت بڑا کام اور انبیائے کرام علیہمُ الصَّلٰوۃ و السَّلام کا طریقہ ہے۔،اس حوالے سے ہمارے پیارے آقاصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اندازِ تربیت بہترین نمونہ ہے اور یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ کسی نبی کو جو عقل عطا کی جاتی ہے وہ اوروں سے بہت زیادہ ہوتی ہے،کسی بڑے سے بڑے عقل مند کی عقل ان کی عقل کے لاکھویں حصّے تک بھی نہیں پہنچ سکتی ۔ آئیے!رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا تین چیزوں کے بیان سے تربیت فرمانے کے بارے میں چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرماتے ہیں۔

1:-ایمان کی حلاوت (مٹھاس) حضرت اَنس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ تین چیزیں جس شخص میں ہوں وہ ایمان کی مٹھاس پائے گا1:جس کو اللہ و رسول ان دونوں کے ماسوا (سارے جہان ) سے زیادہ مَحبوب ہوں۔2:اور جو کسی آدمی سے خاص اللہ ہی کے لئے محبت رکھتا ہو۔3 اور جو اسلام قبول کرنے کے بعد پھر کفر میں جانے کو اتنا ہی بُرا جانے جتنا آگ میں جھونک دئیے جانے کو بُرا جانتا ہے۔

شرح:-جس طرح’’شکر‘‘اور چیز ہے اور ’’شکرکی مٹھاس ‘‘اور چیز ہے اسی طرح ایمان اور چیز ہے ا ور ایمان کی لذت اور چیزہے۔جس شخص کے منہ کا ذائقہ بالکل درست ہو اگر وہ شکر کھائے گا تو اس کو شکر کی مٹھاس کا لُطف و مزہ بھی محسوس ہوگا لیکن اگر کوئی صَفْر اوی بخار کا مریض جس کے منہ کا ذائقہ بگڑ کر تلخ ہوچکا ہو اگر وہ شکر کھائے گا تو اس کو شکر کی مٹھاس محسوس نہیں ہوگی۔

بس بالکل یہی مثال ایمان کی ہے جوشخص کلمہ پڑھ کر مومن ہوگیا اور ایمان کے بعد اس میں تین خَصْلَتیں پیدا ہوگئیں تو وہ شخص ایمان کی مٹھاس یعنی ایمانی لذت کا لُطف و مزہ بھی پالے گااور جس شخص میں یہ تینوں خصلتیں نہیں پیدا ہوئیں تو وہ شخص اگرچہ صاحب ایمان تو ہوگامگر ایمان کی مٹھاس یعنی ایمان کی لذت خاص کے لطف و مزہ سے مَحروم رہے گا۔(کتاب:منتخب حدیثیں , حدیث نمبر:11)

2:-دو بے وفا اور ایک وفادار ساتھی:مندرجہ ذیل حدیث پاک میں اُن تین چیزوں کو بیان کیا گیا ہے جن کا تعلق انسان کے ساتھ اس کی زندگی میں ہوتا ہے لیکن ان تینوں میں سے دو بے وفا اورساتھ چھوڑ جانے والی ہیں اور فقط ایک وفادار اور قبر میں ساتھ جانے والی ہے۔حدیث:حضرت سَیِّدُنَا انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےفرمایا: میت کے پیچھے تین چیزیں جاتی ہیں ، گھر والے ، مال اور اس کاعمل، پس دو چیزیں یعنی اس کے گھر والے اور اس کا مال واپس لوٹ آتے ہیں اور ایک چیز یعنی اس کا عمل اس کے ساتھ باقی رہتاہے۔ (کتاب:فیضان ریاض الصالحین جلد:2 , حدیث نمبر:104)

3:-تین نجات دلانے والی اور تین ہلاک کرنے والی چیزیں۔حدیث:روایت ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین چیزیں نجات دینے والی ہیں اور تین چیزیں ہلاک کرنے والی۔ نجات دینے والی تو وہ1: الله سے ڈرنا ہے خفیہ اور علانیہ2: سچی بات کہنا ہے خوشی اور ناخوشی میں3:درمیانی چال ہے امیری اور فقیری میں۔ لیکن ہلاک کرنے والی چیزیں تو وہ1:نفسانی خواہش ہے جس کی پیروی کی جائے2:بخل ہے جس کی اطاعت ہو3: انسان کا اپنے کو اچھا جاننا یہ ان سب میں سخت تر ہے۔(کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:5122)

4:-تین لعنتی چیزوں سے بچو۔روایت ہے حضرت معاذ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین لعنتی چیزوں سے بچو،گھاٹوں،درمیانی راستہ اور سایہ میں پاخانہ کرنے سے (ابوداؤد)

شرح حدیث:ہر وہ جگہ جہاں لوگ بیٹھتے یا آرام کرتے ہوں وہاں پاخانہ کرنا منع ہے کہ اس سے رب تعالٰی بھی ناراض ہے اور لوگ بھی گالیاں دیتے ہیں۔اس سے معلوم ہوا کہ مسجد کے غسل اور استنجاءخانوں میں پاخانہ کرنا سخت جرم ہے۔بندوں کو ستانے والا رب کے عذا ب کا مستحق ہے۔(کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:355)

5:-تین چیزیں جن کا ارادہ بھی ارادہ اور مذاق بھی ارادہ:روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین چیزیں وہ ہیں جن کا ارادہ بھی ارادہ ہے اور مذاق بھی ارادہ ہے نکاح ، طلاق اور رجوع (ترمذی،ابوداؤد)اور فرمایا ترمذی نے یہ حدیث حسن غریب ہے۔

شرح حدیث: یعنی ارادۃً بولے تو بھی واقع ہوجائیں گی اور مذاق دل لگی سے کہے یا ویسے ہی اس کے منہ سے نکل جائے یا کسی اور زبان میں بولے جس سے وہ واقف نہ ہو،بہرحال یہ کلمات اس کے منہ سے نکل جائیں یہ چیزیں واقع ہوجائیں گی بشرطیکہ دیوانگی یا نیند میں نہ کہے بیداری و ہوش میں کہے۔

ان تین چیزوں کا ذکر صرف اہتمام کے لیے ہے ورنہ تمام تصرفات شرعیہ جن میں دوسرے کا حق ہوجاتا ہو سب کا یہ ہی حکم ہے۔یہ حدیث بہت سی اسنادوں سے مروی ہے بعض اسنادوں سے حسن ہے بعض سے غریب لہذا جن لوگوں نے اس حدیث کو ضعیف کہا غلط کہا چند اسنادوں سے تو ضعیف بھی قوی ہوجاتی ہے اس کی کتاب اﷲ سے بھی تائید ہوتی ہے رب تعالٰی فرماتا ہے: لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْؕ- ۔منافقین نے حضور کی شان میں بکواس بکی تھی،پوچھ گچھ پر بولے کہ ہم تو مذاق کرتے تھے فرمایا بہانہ نہ بناؤ تم کافر ہوچکے۔معلوم ہوا کہ کفر و اسلام عمدًا ومذاقًا ہر طرح ثابت ہوجاتا ہے اور اس پر احکام شرعیہ مرتب ہوجاتے ہیں۔(کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:5 , حدیث نمبر:3284)