پیارے اسلامی بھائیو! جس طرح کچھ نیکیاں ظاہری ہوتی ہیں جیسے نماز اور کچھ باطنی جیسے اخلاص ۔ اسی طرح بعض گناہ بھی ظاہری ہوتے ہیں جیسے قتل اور بعض باطنی جیسے تکبر ۔ ظاہری گناہوں کے ساتھ ساتھ باطنی گناہوں کے علاج پر بھی بھر پور توجہ دینا لازم ہے ۔ حضرت سیدنا امام محمد غزالی رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ظاہری اعمال کا باطنی اوصاف کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے ۔ اگر باطن خراب ہو تو ظاہری اعمال بھی خراب ہوں گے اور اگر باطن حسد، تکبر وغیرہ عیوب سے پاک ہو تو ظاہری اعمال بھی درست ہو نگے ۔ (منہاج العابدین ، ص 13) باطنی گناہوں کا علم حاصل کرنا فرض ہے۔ انہی گناہوں میں سے ایک گناہ حسد بھی ہے۔ حسد شیطانی کام ہے کیونکہ سب سے پہلا آسمانی گناہ حسد ہی تھا اور یہ شیطان نے کیا تھا۔

حضرت وہب بن منبہ رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :حسد سے بچو، کیونکہ یہ پہلا گناہ ہے جس کے ذریعے آسمان میں اللہ پاک کی نافرمانی کی گئی اور یہی پہلا گناہ ہے جس کے ذریعے زمین میں اللہ پاک کی نافرمانی کی گئی ۔(تنبیہ المغترین، الباب الثالث فی جملۃ اخری من الاخلاق، ومن اخلاقہم رضی اللہ عنہم عدم الحسد لاحد من المسلمین۔۔۔ الخ، ص188)

حسد کی تعریف : کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال (یعنی اس کے چھن جانے) کی تمنا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ نعمت نہ ملے، اس کا نام حسد ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، ص43)حسد کا حکم: اگر اپنے اختیار و ارادے سے بندے کے دل میں حسد کا خیال آئے اور یہ اس پر عمل بھی کرتا ہے یا بعض اعضاء سے اس کا اظہار کرتا ہے تو یہ حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات ، ص 44) اللہ پاک قراٰن پاک میں ارشاد فرماتا ہے : ﴿اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۚ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بلکہ یہ لوگوں سے اس چیز پر حسد کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا فرمائی ہے۔ (پ5، النسآء : 54)

حسد باطنی بیماریوں کی ماں ہے ۔ غصے کی کوکھ سے کینہ اور کینے کے بطن سے حسد جنم لیتا ہے اور حسد سے بدگمانی و شماتت جیسی بہت سی ظاہری و باطنی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں، اسی لیے حسد کو ام الامراض یعنی بیماریوں کی ماں کہا گیا ہے۔

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ حسد ایک مذموم صفت ہے ۔ حسد کی مذمت کے متعلق چند احادیثِ مبارکہ آپ بھی پڑھئے :

(1) نیکیوں کو کھا جاتا ہے: حسد سے دور رہو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ خشک لکڑیوں کو‘‘ یا فرمایا: گھاس کو کھا جاتی ہے۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الحسد، 4 / 361، حدیث: 4903)

(2)ایمان اور حسد جمع نہیں ہوتے: آدمی کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہوتے ۔(سنن نسائی، کتاب الجہاد، فضل من عمل فی سبیل اللہ ۔۔۔ الخ، ص505 ،حديث : 3610)

(3)حسد ایمان کو تباہ کر دیتا ہے: حسد ایمان کو اس طرح تباہ کر دیتا ہے جیسے صَبِر (یعنی ایک درخت کاانتہائی کڑوا نچوڑ) شہد کو تباہ کر دیتا ہے۔(جامع صغیر، حرف الحائ، ص232، حدیث: 3819)

(4) کوئی تعلق نہیں: اللہ پاک کے مَحبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حاسِد سے اپنی بیزاری کا اِظہار ان اَلفاظ میں فرمایا ہے : حَسَد کرنے والے، چُغلی کھانے والے اور کاہِن کا مجھ سے اور میرا ان سے کوئی تعلُّق نہیں ۔(مجمع الزوائد، کتاب الادب، باب ماجاء فی الغیبۃ والنمیمۃ، 8/172،حدیث : 13126)

(5) بغیر حساب جہنم میں داخلہ: خوفِ خدا رکھنے والے مسلمان جنت میں بے حساب داخلے کی رو رو کردعا کرتے ہیں مگر حاسِد کی بدنصیبی دیکھئے کہ اس کو حساب لئے بغیر ہی جہنم میں داخل کیا جائے گا، چنانچہ اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عظیم ہے:چھ اَفراد ایسے ہیں جو بروزِ قِیامت بِغیر حساب کے جہنَّم میں ڈال دیئے جائیں گے۔ عَرْض کی گئی : یارسولَ اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کون لوگ ہیں ؟ فرمایا : (1) حاکِم اپنے ظُلم کے باعِث (2) اہلِ عَرَب تعَصُّب (یعنی قوم پرستی کہ ظلم پر اپنی قوم کی مدد کرتے رہنے ) کے سبب (3) گاؤں کا سردار تکبُّرکی بدولت (4) تاجِر خِیانت کرنے کی وجہ سے (5)دیہاتی اپنی جَہالت کے سبب (6) اور ذی عِلم اپنے حَسَد کے باعِث ۔(کنزالعمال، 16/37، حدیث : 44023،ملخصًا)

(6) ہر خطا کی جڑ :فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: حسد سے بچتے رہو کیونکہ حضرت آدم علیہ السّلام کے دوبیٹوں میں سے ایک نے دوسرے کو حسد ہی کی بنا پر قتل کیا تھا ، لہٰذا حسد ہر خطا کی جڑ ہے۔ (جامع الاحادیث للسیوطی ، 3/395،حدیث: 9314)یادر ہے کہ حسد حرام ہے البتہ اگر کوئی شخص اپنے مال و دولت یا اثرو وجاہت سے گمراہی اور بے دینی پھیلاتا ہو تو اس کے فتنے سے محفوظ رہنے کیلئے اس کی نعمت کے زوال کی تمنا کرنا حسد میں داخل نہیں اور حرام بھی نہیں۔

حسد کے اسباب : سات چیزیں حسد کی بنیاد بن سکتی ہیں: (1) بغض و عداوت (2) خود ساختہ عزت (3) تکبر (4)احساس کمتری (5) من پسند مقاصد کے فوت ہو جانے کا خوف (6) حب جاہ (7) قلبی خباثت۔

محترم قارئین! ہم بھی اپنی ذات پر غور کریں کہ کہیں ہم بھی حسد کی بیماری میں مبتلا تو نہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم معاشرے سے حسد جیسی مذموم صفت کو ختم کریں اور آپس میں محبت و بھائی چارہ قائم کریں ۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو حسد سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور دینِ اسلام کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ:حسد کے بارے میں مزید معلومات کیلئے مکتبۃُ المدینہ کا مطبوعہ رسالہ "حسد" کا مطالعہ کیجئے ۔ علم دین کا انمول خزانہ ہاتھ آئے گا۔ ان شاء الله