قرآنِ مجید کلامِ الٰہی ہے جو لوگوں کو خیر اور شر میں فرق کرنے کی صلاحیت بخشتا ہے اور تمام بنی نوعِ انسان کے لیے ہدایت کا دائمی ذریعہ ہے۔ یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ اس میں ہر چیز کا  واضح بیان موجود ہے جیسا کہ اللہ پاک کا ارشاد ہے: ونزلنا عليك الكتاب تبيانا لكل شيء(سورۃ النحل :89)ترجمۂ کنزالعرفان:اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا جو ہر چیز کا روشن بیان ہے۔ بالکل اسی طرح قرآنِ کریم میں دھاتوں کا تذکرہ بھی موجود ہے اور ایک پوری سورت ہی دھات کے نام پر نازل ہوئی جس کا نام سورۃ الحدید ہے۔ قرآنِ پاک میں کل 4 دھاتوں کے نام آئے ہیں: 1 لوہا 2 تانبا 3 سونا 4 چاندی۔سورۃ الحدید ،آیت 25 میں لوہےکا ذکر آیا ہے ۔ وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْهِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ ترجمۂ کنزالعرفان:اور ہم نے لوہا اتارا اور اس میں سخت لڑائی( کا سامان)ہے اور لوگوں کے لئے فائدے ہیں۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے لوگوں کے لیے لوہا پیدا کیا اور لوگوں کو اس کی صنعت کا علم دیا ۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا : اللہ پاک نے چار بابرکت چیزیں زمین پر اتاریں: 1 لوہا 2 آگ 3 پانی 4 نمک۔ لوہے کے فائدے یہ ہیں کہ اس میں سخت قوت ہے اور اسی سے جنگی سازوسامان بنائے جاتے ہیں، اس کے علاوہ لوہا دیگر صنعتوں اور پیشوں میں بہت کام آتا ہے۔(تفسیرِ صراط الجنان جلد9 ،ص 751 ،752 )سورۃ الکہف آیت 29 میں تانبے کا ذکر آیا ہے۔وَ اِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوْا بِمَآءٍ كَالْمُهْلِ یَشْوِی الْوُجُوْهَ ؕترجمۂ کنز العرفان:اگر وہ پانی کے لئے فریاد کریں گے تو ان کی فریاد اس پانی سے پوری کی جائے گی جو پگھلائے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا جو ان کے منہ کو بھون دے گا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:وہ روغن زیتون کی تلچھٹ( وہ چیز جو پانی وغیرہ میں حل نہیں ہوتی) کی طرح گاڑھا پانی ہے۔ترمذی شریف کی حدیث میں ہے : جب وہ منہ کے قریب کیا جائے گا تو منہ کی کھال اس سے جل کر گر پڑے گی اور بعض مفسرین کا قول یہ ہے کہ وہ پگھلایا ہوا رانگ (ایک نرم دھات) یا پیتل ہے۔ (تفسیرِ صراط الجنان جلد5 ،ص 561،562)سورۂ الِ عمران آیت میں سونے اور چاندی کا ذکر آیا ہے۔زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الْبَنِیْنَ وَ الْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ وَ الْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَ الْاَنْعَامِ وَ الْحَرْثِ ؕ ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ۚوَ اللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ ترجمۂ کنزالعرفان:لوگوں کے لئے ان کی خواہشات کی محبت کو آراستہ کر دیا گیا یعنی عورتوں اور بیٹوں اور سونے چاندی کے جمع کیے ہوئے ڈھیروں اور نشان لگائے گئے گھوڑوں اور مویشیوں کو (ان کے لیے آراستہ کردیا گیا) یہ سب دنیاوی زندگی کا ساز و سامان ہے اور صرف اللہ پاک کے پاس اچھا ٹھکانا ہے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے لئے ان کی من پسند چیزوں کو خوش نما بنا دیا گیا چنانچہ اور عورتوں ،مال واولاد، سونا ،چاندی، کاروبار اور عمدہ سواریوں کی محبت لوگوں کے دل میں رچی ہوئی ہے ۔ ان چیزوں کو آراستہ کرنے اور ان کی محبت کو دل میں پیدا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ خواہش پرستوں اور خدا پرستوں میں فرق ہو جائے ۔(تفسیرِ صراط الجنان جلد1،ص 509)اس آیت میں ہمارے لئے بہت اعلیٰ درس ہے کہ انسان کو دنیا کی زینت اور خوشنمائی میں اتنا غرق نہیں ہونا چاہیے کہ اللہ پاک کو فراموش کر بیٹھے۔ آخر میں اللہ پاک ہمیں بھی قرآن میں غور وفکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں! اللہ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار!