قرآنِ کریم میں ارشادِ ربّانی ہے:وَ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ (پارہ14 النحل89)ترجمۂ کنز الایمان: اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا کہ ہر چیز کا روشن بیان ہے۔قرآنِ کریم اگرچہ ظاہر میں 30 پاروں کا مجموعہ ہے لیکن اس کا باطن کروڑوں بلکہ اربوں علوم و معارف کا ایسا خزانہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔ تمام علوم قرآن میں موجود ہیں لیکن لوگوں کی عقلیں ان کے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ درحقیقت قرآنِ کریم میں پوری کائنات اور سارے عالم کی ہر ہر چیز کا واضح، روشن اور تفصیلی بیان ہے۔(عجائب القرآن مع غرائب القرآن ص 419)یہاں قرآنِ کریم کی وہ آیتیں درج کی جاتی ہیں جن میں صراحتاً (یعنی واضح طور پر) کسی نہ کسی دھات کا ذکر ہے۔1لوہا:وَ اَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْهِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ(پارہ 2٧ الحدید 25)ترجمۂ کنز العرفان:اور ہم نے لوہا اتارا،اس میں سخت لڑائی (کا سامان) ہے اور لوگوں کے لئے فائدے ہیں۔مفسرین نے فرمایا : یہاں آیت میں اتارنا پیدا کرنے کے معنی میں ہے اور مراد یہ ہے کہ ہم نے لوہا پیدا کیا اور لوگوں کے لئے مَعادِن سے نکالا اور انہیں اس کی صنعت کا علم دیا۔ لوہے کافائدہ یہ ہے کہ اس میں انتہائی سخت قوت ہے، یہی وجہ ہے کہ اس سے اسلحہ اور جنگی ساز و سامان بنائے جاتے ہیں اور اس میں لوگوں کیلئے اور بھی فائدے ہیں کہ لوہا صنعتوں اور دیگر پیشوں میں بہت کام آتا ہے۔(تفسیر صراط الجنان، الحدید،تحت الآیۃ 25)2سونا:یُحَلَّوْنَ فِیْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ(پارہ 15 الکھف 31)ترجمۂ کنز العرفان: انہیں ان باغوں میں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے۔اس آیت مبارکہ میں فرمایا گیا کہ جنتیوں کو سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے۔ سونا ایک مفرد زرد رنگ کی دھات ہے جو پانی سے 19 گنا بھاری ہے۔ اس کے زیورات اور سکے بنتے ہیں۔ یہ ان چند دھاتوں میں سے ہے جو کسی ایک تیزاب میں نہیں گھلتے۔ دو تیزابوں کے مرکب میں گھلتے ہیں۔ اس کے نہایت باریک تار کھینچے جاسکتے ہیں اور باریک ورق بنائے جاسکتے ہیں۔خیال رہے کہ دنیا میں سونے کا استعمال مردوں کیلئے حرام ہے۔ سونے کے زیورات مرد پر حرام ہیں ورنہ سونے کی اشیاء عورتوں کے لیے بھی ممنوع ہیں۔3چاندی:وَ یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِاٰنِیَةٍ مِّنْ فِضَّةٍ وَّ اَكْوَابٍ كَانَتْ قَؔوَارِیْرَاۡۙ (پارہ 29 الدھر 15)ترجمۂ کنز العرفان:اور ان پر چاندی کے برتنوں اورگلاسوں کے دَور ہوں گے جو شیشے کی طرح ہوں گے۔آیت مبارکہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ پاک کے نیک بندوں پر چاندی کے برتنوں اور گلاسوں میں جنتی شراب کے دَور ہوں گے اور وہ برتن چاندی کے رنگ اور اس کے حسن کے ساتھ شیشے کی طرح صاف شفاف ہوں گے۔(تفسیر صراط الجنان بحوالہ خازن، الانسان، تحت الآیۃ: 1516، 4/340، مدارک، الانسان، تحت الآیۃ: 1516، ص1307، ملتقطاً)چاندی ایک سفید رنگ کی قیمتی دھات ہے جو کان سے نکلتی ہے اور بیشتر زیورات، سکے اور نازک قسم کے برتن وغیرہ بنانے کے کام میں آتی ہے۔ یہ ایک سفید عنصر دھات ہے جو پانی سے ڈیڑھ گنا بھاری ہے۔ تانبے وغیرہ کی چیزوں پر اس کاملمع کرتے ہیں۔4سیسہ:اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِهٖ صَفًّا كَاَنَّهُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ (پارہ 28 الصف 4)ترجمۂ کنز العرفان:بیشک اللہ ان لوگوں سے محبت فرماتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح صفیں باندھ کر لڑتے ہیں گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔سیسہ ایک دھات کا نام ہے جو رانگ کی قسم میں سے نیلاہٹ لئے ہوئے ہوتی ہے۔ بندوق کی گولیاں اسی سے بناتے ہیں۔5تانبا:قَالَ اٰتُوْنِیْۤ اُفْرِغْ عَلَیْهِ قِطْرًاؕ (پارہ 16 الکھف 96)ترجمۂ کنز الایمان: کہا لاؤ میں اس پر گلا ہوا تانبہ اُونڈیل دوں۔تانبا ایک سرخی مائل دھات ہے جو کانوں میں پائی جاتی ہے جسے تار کی شکل میں کھینچا جاسکتا ہے، اسے خالص کے علاوہ پیتل اور کانسی وغیرہ مختلف بھرتوں میں استعمال کیا جاتا ہے، سونے میں بھی صلابت پیدا کرنے کے لیے کام میں لاتے ہیں۔نیز یہ ایک سرخی مائل عنصر دھات ہے جو کافی مرکبات میں پائی جاتی ہے۔ یہ پانی سے نوگنا بھاری ہوتی ہے۔ مسلمانوں کے برتن عموماً اسی کے بنتے ہیں۔