قرآن ِکریم اللہ پاک کی وہ سب سے آ خری اور مستند کتاب ہےجسے انسانوں کی دینی،اخلاقی،سماجی اور معاشرتی ہدایت کے لئے آ خری نبی، حضرت محمد مصطفیٰ  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر نازل کیا گیا، قرآن ِپاک ایک بے مثل کتاب ہے، یہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، جس میں زندگی کے ہر ہر پہلو کی وضاحت موجود ہے ۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:قرآنِ مجید ہر نافع علم پر مشتمل ہے، یعنی اس میں گزشتہ واقعات کی خبریں اور آئندہ ہونے والے واقعات کا علم موجود ہے، ہر حلال و حرام کا حکم اس میں مذکور ہے اور اس میں تمام چیزوں کا علم موجود ہے، جن کی لوگوں کو اپنے دنیوی، دینی، معاشی اور اُخروی معاملات میں ضروت ہے۔قرآنِ کریم ایک ایسی بے مثل و بے مثال کتاب ہے، جس میں کھانے پینے کی اشیا سے لے کر سونا، چاندی، دھاتوں تک کا ذکر ہے، دھاتیں بہت قیمتی ذخائر میں سے ہیں، کسی ملک کی ترقی کا انحصار بڑی حد تک ان پر ہوتا ہے، جن ممالک میں معدنی ذخائر موجود ہوتے ہیں، ان کی ترقی کا گراف بھی بہت بلند ہوتا ہے، قرآن ِپاک میں بھی ان دھاتوں کا ذکر ہے:وَ لَوْ لَاۤ اَنْ یَّكُوْنَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً لَّجَعَلْنَا لِمَنْ یَّكْفُرُ بِالرَّحْمٰنِ لِبُیُوْتِهِمْ سُقُفًا مِّنْ فِضَّةٍ وَّ مَعَارِجَ عَلَیْهَا یَظْهَرُوْنَ ۙ وَ لِبُیُوْتِهِمْ اَبْوَابًا وَّ سُرُرًا عَلَیْهَا یَتَّكِـُٔوْنَ ۙوَ زُخْرُفًا ؕوَ اِنْ كُلُّ ذٰلِكَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ؕ وَ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِیْنَ ۔ترجمہ:اور اگر یہ نہ ہوتا کہ سب لوگ ایک دین پر ہوجائیں تو ضرور رحمن کے منکروں کے لئے چاندی کی چھتیں اور سیڑھیاں بناتے، جن پر چڑھتے اور ان کے گھروں کے لئے چاندی کے دروازے اور چاندی کے تخت جن پر تکیہ لگانے اور طرح طرح کی آ رائش اور یہ جو کچھ ہے، جیتی دنیا ہی کا اسباب ہے اور آ خرت تمہارے رب کے پاس پرہیزگاروں کے لئے ہے۔(پارہ 25،سورۃ الزخرف، آ یت نمبر 34،35)تفسیر صراط الجنان :یہ سونا چاندی دنیاوی مال و دولت ہے، کافروں کا مال ودولت، عیش و عشرت دیکھ کر اگر سب لوگ کافر ہو جائیں گے تو ضرور ہم کافروں کو اتنا سونا چاندی دیتے کہ وہ ا نہیں پہننے کے علاوہ ان سے اپنے گھروں کی چھتیں اور سیڑھیاں بناتے، لیکن یہ سب دنیاوی زندگی کا سامان ہے اور پرہیزگاروں کے لئے آخرت تمہارے ربّ کے پاس ہے۔چاندی:اس آیتِ مبارکہ میں چاندی کا ذکر ہے، یہ بھی ایک دھات ہے، یہ پہاڑوں، دریاؤں کے کنارے پائی جاتی ہے، یہ سونے کے مقابلے میں سستی ہوتی ہے، اس سے زیورات بنائے جاتےہیں۔فَلَوْ لَاۤ اُلْقِیَ عَلَیْهِ اَسْوِرَةٌ مِّنْ ذَهَبٍ اَوْ جَآءَ مَعَهُ الْمَلٰٓىٕكَةُ مُقْتَرِنِیْنَ۔ترجمۂ کنزالعرفان:تو اس پر کیوں نہ ڈالے گئے سونے کے کنگن یا اس کے ساتھ فرشتے آتے کہ اس کےپاس رہتے۔(پارہ 25،سورۃ الزخرف، آ یت نمبر 53)تفسیر صراط الجنان: فرعون نے کہا کہ اگر حضرت موسی علیہ السلام سچے ہیں تو اللہ پاک نے انہیں ایسا سردار بنایا ہے، جس کی اطاعت واجب ہے تو انہیں سونے کا کنگن کیوں نہیں پہنایا؟فرعون نے یہ بات اپنے زمانے کے دستور کے مطابق کہی کہ اس زمانے میں جس کسی کو سردار بنایا جاتا تھا تو اسے سونے کا کنگن اور سونے کا طوق پہنایا جاتا تھا۔سو نا:اس آیت ِمبارکہ میں سونے کا ذکر ہے، یہ بہت قیمتی دھات ہے، یہ پہاڑوں اور دریاؤں سے ملتا ہے اور اس کو تلاش کرکے نکالنے تک مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور اس سے زیورات بنائے جاتے ہیں، جس سے زینت حاصل کی جاتی ہے، ہمارے ملک پاکستان میں کافی مقامات سے سونا دریافت ہوتا رہتا ہے۔

اِنَّ شَجَرَتَ الزقُوم طعام الاثیم کا المھل یغلی فی البطون کغلی الحمیم۔ترجمۂ کنزالعرفان:بے شک زقوم کا درخت گناہگار کی خوراک ہے، گلے ہوئے تانبے کی طرح پیٹوں میں جوش مارتا ہوگا، جیسے کھولتا ہوا پانی جوش مارتا ہے۔اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بے شک جہنم کا کانٹے دار اور انتہائی کڑوا زقوم نام کا درخت بڑے گناہ گار یعنی کافر کی خوراک ہے اور جہنمی زقوم کی کیفیت یہ ہے کہ گلے ہوئے تانبے کی طرح کفار کے پیٹوں میں ایسے جوش مارتا ہوگا، جیسے کھولتا ہوا پانی جوش مارتا ہے۔تانبا:تا نبابھی ایک دھات ہے، اس سے مختلف اشیاء بنائی جاتی ہیں، تانبے کے برتن بھی بنائے جاتے ہیں، خصوصاً بجلی کی تاریں بنانے کے لئے استعمال ہوتا ہے، اس سے پرانے زمانے میں سکے اور برتن بنائے جاتے تھے۔اتونی زبر الحدید حتی اذا ساوی بین الصدفین قال انفخوا حتی اذا جعلہ نارا قال اتونی افرغ علیہ قطرا فما السطاعوان یظھرو ہ ومستطاعوا لہ نقبا۔ترجمۂ کنزالعرفان:میرے پاس لوہے کے ٹکڑے لاؤ، یہاں تک کہ جب وہ دیوار دونوں پہاڑوں کے درمیان برابر کردی تو ذوالقرنین نے کہا آگ بھڑکاؤ، یہاں تک کہ جب اس لوہے کو آگ کر دیا تو کہا مجھے دو، تاکہ میں اس گرم لوہے پر پگھلایا ہوا تانبہ انڈیل دوں تو یاجوج ماجوج اس پر نہ چڑھ سکے اور نہ اس میں سوراخ کر سکے۔تفسیر: حضرت ذوالقرنین نے لوگوں سے کہا کہ میرے پاس پتھر کے سائز کے لوہے کے ٹکڑے لاؤ، جب وہ لے آئے تو ان سے بنیاد کھدوائی، جب وہ پانی تک پہنچی تو اس میں پتھر پگھلائے ہوئے تانبے سے جمائے اور لوہے کے تختے اوپر نیچے چُن کر ان کے درمیان لکڑی اور کوئلہ بھروا دیا اور آگ دے دی، اس طرح یہ دیوار پہاڑ کی بلندی تک اونچی کردی گئی۔لوہے:لوہا بھی ایک دھات ہے، اس کے ذخائر ہوتے ہیں، پاکستان میں کئی مقامات سے ذخائر دریافت ہوئے ہیں، چترال میں اچھی قسم کا لوہا دریافت ہوا ہے، لوہے سے مشین اور دیگر استعمال کی چیزیں بنائی جاتی ہیں، یہ بھی ملک کی صنعتی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے، پاکستان میں لوہے کے ذخائر وسیع پیمانے پر موجود ہیں۔اللہ پاک نے انسانوں کی بھلائی کے لئے ایسی اشیا پیدا کی ہیں، جن سے فائدہ اٹھا کر ترقی کی راہ پر گامزن ہواجاسکتا ہے، جن ممالک میں ان دھاتوں کے ذخائر پائے جاتے ہیں، وہاں ترقی کا گراف بلند ہوتا ہے، ہمارا ملک پاکستان معدنی ذخائر سے مالا مال ہے، سونا،چاندی، خام، لوہا یہاں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔