دل میں دشمنی کو روکے رکھنا اور موقع پاتے ہی اس کا اظہار کرنا کینہ کہلاتا ہے۔ (لسان العرب،1/888)

نبی پاک ﷺ کا ارشاد ہے: عنقریب میری امّت کو پچھلی امتوں کی بیماری لاحق ہو گی۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: پچھلی امتوں کی بیماری کیا ہے؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تکبّر کرنا، اترانا، ایک دوسرے کی غیبت کرنا اور دنیا میں ایک دوسرے پر سبقت کی کوشش کرنا نیز آپس میں بغض رکھنا، بخل کرنا،یہاں تک کہ وہ ظلم میں تبدیل ہوجائے اور پھر فتنہ وفساد بن جائے۔ (معجم اوسط، 6/348، حدیث: 9016)

ہر پیر اور جمعرات کے دن لوگوں کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں، پھر بغض وکینہ رکھنے والے دو بھائیوں کے علاوہ ہر مؤمن کو بخش دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے: ان دونوں کو چھوڑ دو یہاں تک کہ یہ اس بغض سے واپس پلٹ آئیں۔ (مسلم، ص1388، حدیث: 2565)

اللہ اکبر آپس میں بعض و کینہ رکھنا کس قدر برا ہے کہ دل میں اس بیماری کا ہونا بخش و مغفرت سے محرومی کا سبب ہے، نبی پاکﷺ کا فرمان عالیشان ہے: اللہ پاک (ماہ) شعبان کی پندرہویں رات اپنے بندوں پر (اپنی قدرت کے شایان شان) تجلّی فرماتاہے، مغفرت چاہنے والوں کی مغفرت فرماتا ہے اور رحم طلب کرنے والوں پر رحم فرماتاہے جبکہ کینہ رکھنے والوں کو ان کی حالت پر چھوڑ دیتا ہے۔ (شعب الایمان، 3/382، حدیث: 3835)

حضرت فضیل بن عیاض نے خلیفہ ہارون رشید کو ایک مرتبہ نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اے حسین وجمیل چہرے والے! یاد رکھ کل بروز قیامت اللہ پاک تجھ سے مخلوق کے بارے میں سوال کرے گا۔ اگر تو چاہتا ہے کہ تیرا یہ خوبصورت چہرہ جہنم کی آگ سے بچ جائے تو کبھی بھی صبح یا شام اس حال میں نہ کرناکہ تیرے دل میں کسی مسلمان کے متعلق کینہ یا عداوت ہو۔ بے شک رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے اس حال میں صبح کی کہ وہ کینہ پرور ہے تو وہ جنت کی خوشبو نہ سونگھ سکے گا۔ یہ سن کرخلیفہ ہارون رشید رونے لگے۔ (حلیۃ الاولیاء، 8 / 108، حدیث:11536)

ایمان ایک انمول دولت ہے اور ایک مسلمان کے لئے ایمان کی سلامتی سے اہم کوئی شے نہیں ہوسکتی لیکن اگر وہ بغض و حسد میں مبتلا ہوجائے تو ایمان چھن جانے کا اندیشہ ہے، چنانچہ اللہ پاک کے پیارے حبیب ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: تم میں پچھلی امّتوں کی بیماری حسد اور بغض سرایت کر گئی، یہ مونڈ دینے والی ہے، میں نہیں کہتا کہ یہ بال مونڈتی ہے بلکہ یہ دین کو مونڈ دیتی ہے۔ (ترمذی، 4/228، حدیث: 2518) حکیم الامّت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: اس طرح کہ دین و ایمان کو جڑ سے ختم کردیتی ہے کبھی انسان بغض و حسد میں اسلام ہی چھوڑ دیتا ہے شیطان بھی انہیں دو بیماریوں کا مارا ہوا ہے۔ (مراۃ المناجیح، 6 / 615)

سرکار ﷺ نے فرمایا: آپس میں حسد نہ کرو، آپس میں بغض وعداوت نہ رکھو، پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی بیان نہ کرو اوراے اللہ پاک کے بندو! بھائی بھائی ہو جاؤ۔ (بخاری، 4/ 117، حدیث: 6066)

مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: یعنی بدگمانی، حسد، بغض وغیرہ وہ چیزیں ہیں جن سے محبت ٹوٹتی ہے اور اسلامی بھائی چارہ محبت چاہتا ہے، لہٰذا یہ عیوب چھوڑو تاکہ بھائی بھائی بن جاؤ۔ (مراۃ المناجیح، 6 / 608)

ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے دل میں کسی مسلمان کے بارے میں بعض و کینہ رکھنا اللہ پاک اور اس کے حبیب صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی ناراضگی اور دنیا و آخرت میں بے سکونی اور ناکامی کا سبب ہے اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو بعض و کینہ سے محفوظ رکھے۔ آمین