اسلام سے پہلے عورت کی کوئی حیثیت نہ تھی، چاہے وہ ماں ہو یا بیٹی ہو یا بیوی، بیٹی ہو یا بہن، عورت کی عزت اور احترام کا کوئی تصور نہیں تھا۔ بیٹی ہوتی تو معاذاللہ پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دی جاتی، بیوی ہوتی تو گویا پاؤں کی جوتی سمجھی جاتی۔ اللہ پاک کے فضل اور احسان پہ قربان کہ اس نے ہمیں اپنے پسندیدہ دین مذہب مہذب اسلام میں پیدا فرمایا جو تمام دینی اور دنیاوی اخلاق اور آداب سے آراستہ ہے۔ اسلام وہ پیارا دین ہے جس نے انسان تو انسان، جانوروں تک کے حقوق بیان فرمائے ہیں اور عورت کو حقیقی معنوں میں عزت اسلام ہی نے بخشی ہے، قرآن پاک نے عورت کے حقوق واضح ترین انداز میں بیان فرما کر دنیا بھر کی عورتوں کی عزت اور عصمت کی حفاظت فرمائی ہے۔ اسلام میں ماں ہونے کی حیثیت سے عورت کی جو تعظیم اور تکریم ہے وہ اسلام کے علاوہ کسی مذہب میں نہیں۔ ایسے ہی اسلام بیوی، بہن اور بیٹی کو جو تحفظ عطا فرماتا ہے وہ دوسرے کسی دین میں نہیں۔

مذہب مہذب اسلام نے بیوی کے حقوق بھی بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمائے ہیں۔خاوند کو چاہیے کہ دین کی حدود میں رہ کر اپنی بیوی کے حقوق کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ پورا کرے اور شریعت نے عورت کو جو جائز حقوق عطا کئے ہیں ان کی حق تلفی نہ کرے کیونکہ اللہ پاک نے جس طرح مردوں کے حقوق پورے کرنا عورتوں کے ذمے لگایا ہے اسی طرح عورتوں کے کچھ حقوق ہیں جن کا پورا کرنا مردوں پر فرض فرمایا ہے۔

اچھا برتاؤ: قرآن مجید میں بیویوں کے ساتھ حسن سلوک سے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- (پ 4، النساء:19) ترجمہ کنز الایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔علامہ بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: بیویوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے بات کرنا اور تمام امور میں انکے ساتھ انصاف کرنا ان کے ساتھ اچھا برتاؤ ہے۔ اچھے برتاؤ کی ایک وضاحت یہ بھی کی گئی ہے کہ جو اپنے لیے پسند کرو، ان کے لیے بھی وہی پسند کرو۔

اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر بیوی کے حقوق بیان کرتے ہوئے فرمایا: وَّ اٰتَیْتُمْ اِحْدٰىهُنَّ قِنْطَارًا(پ4، النساء:20 ) ترجمہ: اور تم اسے ڈھیروں مال دے چکے ہو۔ یہاں مزید بیوی کے حقوق بیان فرمائے گئے چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اگر تمہارا ارادہ بیوی کو چھوڑنے کا ہو تو مہر کی صورت میں جو مال تم اسے دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو۔

قرآنی احکامات کے مطابق بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی روشن مثال اللہ تعالیٰ کے پیارے اور آخری نبی ﷺ کی مبارک سیرت ہے چنانچہ سرکار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہو اور میں تم سب سے زیادہ اپنے گھر والوں سے اچھا سلوک کرنے والا ہوں۔ (ترمذی، 5/ 475،حدیث:3921) حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ الله علیہ اس حدیث پاک کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: بڑا خليق (اچھے اخلاق والا) وہ ہے جو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ خلیق ہو کہ ان سے ہر وقت کام رہتا ہے، اجنبی لوگوں سے خلیق ہونا کمال نہیں کہ ان سے ملاقات کبھی کبھی ہوتی ہے۔ (مرآة المناجیح، 5/ 96)

بہترین کون؟ اللہ کریم کے آخری نبی ﷺ نے فرمایا: مومنوں میں سے کامل تر مومن اچھے اخلاق والا ہے اور تم میں بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا ہو۔ (ترمذی، 2/ 386،حدیث: 1165)

اچھے اخلاق وہ عادت ہے جس سے اللہ رسول بھی راضی رہے اور مخلوق بھی، یہ ہے بہت مشکل مگر جسے یہ نصیب ہو جائے اس کے دونوں جہاں سنبھل جاتے ہیں کیونکہ بیوی صرف خاوند کی خاطر اپنے میکے والوں کو چھوڑ دیتی ہے اگر خاوند بھی اس پر ظلم کرے تو وہ کس کی ہو کر رہے۔ کمزور پر مہربانی سنت الہیہ بھی ہے سنت رسول بھی۔ (مرآة المناجیح، 5/ 101)

اللہ تعالیٰ ہمیں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی احسن طریقے سے ادائیگی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین