بیوی کے پانچ حقوق از بنت طارق جاوید خان، جامعۃ المدینہ
نوشہرہ روڈ گجرانوالہ
اسلام ایک واحد ایسا مذہب ہے جس میں زندگی کے ہر
شعبے سے تعلق رکھنے والے کے حقوق کا تعین اور تحفظ موجود ہے۔ اسلام سے قبل عورت کی
حیثیت انتہائی کم تھی۔ اسلام نے عورت کو وراثت میں حصہ دار بنایا۔ عورتوں کو مردوں
کے مساوی حقوق فراہم کیے ہیں۔ جس طرح مردوں کے حقوق پورے کرنا عورتوں کے ذمہ لگایا
ہے اسی طرح عورتوں کے بھی کچھ حقوق ہیں جن کا ادا کرنا مردوں کا فرض ہے۔ خاوند کو
چاہیے کہ حدود میں رہ کر اپنی بیوی کے حقوق کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ سرانجام دے
اور شریعت نے عورت کو جو جائز حقوق عطا کیے ہیں ان کی حق تلفی نہ کرے۔ بیوی کے
ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم قرآن مجید میں بھی ذکر فرمایا گیا ہے، چنانچہ ارشاد
باری تعالیٰ ہے: وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ-
(پ 4، النساء:19) ترجمہ کنز الایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔
حدیث مبارکہ کی روشنی میں بیوی کے حقوق:
1۔ بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنا: پیارے
آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہو
اور میں تم سب سے زیادہ اپنے گھر والوں سے اچھا سلوک کرنے والا ہوں۔ (ترمذی، 5/ 475،حدیث3921)
دین اسلام بھی اس شخص کو بہترین قرار نہیں دے سکتا
جو لوگوں کی نظروں میں اچھا بننے اورعزت پانے کے لیے سب کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش
آئے مگر جب گھر میں داخل ہو تو اس کی بیوی ڈر جائے، بچے بھاگ جائیں،نوکر سہم جائیں
اور جب وہ گھر سے نکل جائے تو اس کی بیوی سکون میں رہے (جیسے اس پر سے مصیبت ٹل
گئی)اور اس کے بچے اور نوکر خوش ہو جائیں۔ ہر شخص کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ
کہیں وہ اس بات کا مصداق تو نہیں بن رہا۔
2۔کامل ایمان والا: تاجدار انبیاء
ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: بے شک کامل ایمان والا وہ ہے جس کا خلق اچھا ہو اور وہ
اپنی بیوی کے ساتھ نرمی سے پیش آئے۔(ترمذی، 2/387، حدیث: 1165)
شادی شدہ زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے ضروری ہے
کہ بیوی کے ساتھ ہمیشہ تحمل اور بردباری سے پیش آیا جائے۔ خاوند اپنی بیوی کے ساتھ
نرمی اور خوش خلقی سے پیش آئے اور یہ اس صورت میں ممکن ہے جب اس کا خود کا اخلاق
اچھا ہو گا جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث شریف میں بھی اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ
کامل ایمان والا وہ ہے جس کا خلق اچھا ہو۔(ترمذی، 2/387، حدیث: 1165)
3۔حلال کھلانا: نیز
بیوی کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ اسے حلال کھلائیں حرام وناجائز نہ کھلائیں
کیونکہ حرام کھانے والا دوزخ کا حقدار ہے اور جب بھی بیوی لذیذ کھانا وغیرہ بنائے
تو شوہر کا فرض ہے کہ اس کی تعریف کرے اس سے اسے وہ خوشی ملے گی جو آپ دولت سے
نہیں دے سکتے۔ اگر خاوند اپنی بیوی کو پانی پلائے تو اس پر بھی اس خاوند کو اجر
وثواب ملے گا۔(مجمع الزوائد، 3/300، حدیث: 4659)
4۔ بیوی کے جذبات کا خیال رکھنا سنت ہے:
بیوی
کے جذبات کا خیال رکھنا پیارے آقا ﷺ کی سنت ہے خاص کر جب بیوی عمر میں ذرا کم سن
ہو اور اس کی عادات چھوٹی بچیوں جیسی ہوں تو ان سے درگزر کرنا چاہیے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں
نبی کریم ﷺ کے پاس گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی میری سہیلیاں بھی تھیں جو میرے ساتھ
کھیلا کرتی تھیں جب رسول اللہ ﷺ تشریف لاتے تو وہ چلی جاتیں آپ ﷺ انہیں میرے پاس
بھیج دیتے تو وہ میرے ساتھ کھیلنے لگ جاتیں۔
اس حدیث مبارکہ میں بتایا گیا ہے کہ بیوی کے جذبات
کی دلداری کا لحاظ رکھنا چاہیے اس کا ایسا شوق جو خلاف شرع نہ ہو اسے برداشت کر
لینا چاہیے غرض یہ کہ بیوی سے ہنسی خوشی رہنا چاہیے۔ اس طرح میاں بیوی کی زندگی
میں اطمینان اور سکون کی دولت میسر رہے گی دونوں کا نبھا اچھی طرح ہو جائے گا۔
5۔ پردے کی تلقین: بیوی
کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ خاوند اسے بن ٹھن کر باہر جانے سے روکے جیسے فی زمانہ
خواتین بیاہ شادیوں پر یا رشتہ داروں کے ہاں میک اپ کر کے اچھا لباس پہن کر خوشبو
لگا کر جاتی ہیں کیونکہ حدیث مبارکہ میں اس کی سخت ممانعت بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ
تاجدار کائنات ﷺ نے فرمایا: جس کی بیوی زیورات پہن کر اور خوشبو لگا کر باہر نکلتی
ہے اگر شوہر اس پر رضامند ہے تو اس عورت کے ایک ایک قدم کے بدلے میں اس شوہر کے
لئے سزا ہے۔ (تحفہ شادی، ص 149)