حضوراقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کی: ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم اور سازوسامان نہ ہو۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری امت میں مفلس وہ ہےجو قیامت کے دن نماز،روزہ اور زکوة (وغیرہ اعمال)لے کر آئے اور اس کا حال یہ ہو کہ اس نے(دنیا میں) کسی کو گالی دی تھی، کسی پر تہمت لگائی تھی،کسی کا مال کھایا تھا، کسی کا خون بہایا تھااور کسی کو مارا تھا تو ان میں سے ہر ایک کو اسکی نیکیاں دے دی جائیں گی اور ان کے حقوق پورے ہونے سے پہلے اگر اس کی نیکیاں (اسکے پاس سے)ختم ہو گئیں تو ان کے گناہ اس پر ڈال ديئے جائیں گے، پھر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (صراط الجنان، 1/154) لہذا ہمیں صرف نیکی کرنی ہی نہیں بلکہ اسے بچانا بھی ہےاور کوشش کرنی ہے کہ دنیا سے بندوں کے حق کا بوجھ اپنے اوپر نہ لے کر جائیں۔ خدا کے تو ہم گناہگار ہیں مگر مخلو ق کے گناہگار نہ بنیں۔

بیوی کے حقوق: بیوی کے حقوق ازروئے قرآن و حدیث پیش خدمت ہیں۔

1۔حسن سلوک: شوہر اگرچہ گھر کی چھوٹی سی ریاست کا سربراہ ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی اسکو یہ بھی نصیحت کی گئی ہے کہ اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی بیوی پر سختی نہ کرے بلکہ حسن سلوک سے پیش آئے۔کیونکہ سسرال جیل خانہ اور بیوی باندی نہیں۔ ارشاد ربانی ہے: وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- (پ 4، النساء:19) ترجمہ کنز الایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔

یہ حکم کسی خاص حالت کا نہیں، جوانی میں بھی اور بڑھاپے میں بھی، وہ حسین و جمیل ہو تو بھی اور ظاہری حسن و جمال سے محروم ہو تب بھی، ڈھیروں مال لے کر آئےجب بھی اور خالی ہاتھ آئے جب بھی۔

2۔نان و نفقہ اور حق مہر کی ادائیگی: نفقہ سے مرادکھانا، کپڑے اور رہنے کا مکان ہے۔حق مہر اصلا اس بات کا علامتی اظہار ہے کہ شوہر اپنی بیوی کی تمام معاشی ذمہ داریاں اٹھائے گا۔یہ اپنی حیثیت کے مطابق مقرر کرنا چاہیئے۔ قرآن کے مطابق یہ ڈھیروں مال بھی ہو سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نکاح کی شرطوں میں سے جس شرط کا پورا کرناتمہارے لیے سب سے زیادہ اہم ہے وہ وہی شرط ہے جس کے ذریعے تم نے عورتوں کی شرمگاہوں کو اپنے لئے حلال کیا ہے۔ یہاں شرط سے مراد مہر ہے یا بیوی کا نان و نفقہ۔ مگر حق یہ ہے کہ اس سے مراد وہ تمام شرائط ہیں جو نکاح کے وقت یا نکاح کے بعد لگائی جاتی ہیں۔ (فیضان چہل احادیث، ص28)

3۔حق خلع: شوہر اور بیوی کا رشتہ آقا اور باندی کا نہیں بلکہ محبت و الفت کا ہے ازدواجی زندگی میں اگر بگاڑ پیدا ہو،شوہر اور بیوی میں نہ بن پائے تو جہاں ایک طرف مرد کو طلاق کا حق حاصل ہے تو دوسری طرف بیوی کو بھی اختیار ہے کہ وہ خلع لے لے۔ (سیرت رسول عربی، ص 231)

4۔بیوی کے والدین اور رشتہ داروں سے حسن سلوک: حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃاللہ علیہ اپنی انتہائی مفید تحریرمیں فرماتے ہیں کہ بیوی سب کچھ سن سکتی ہے مگر اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں کی برائی نہیں سن سکتی لہذا اسکے والدین کو کچھ مت کہا کرو۔ ابو جہل کے فرزند حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تو حضور ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا: عکرمہ رضی اللہ عنہ کے سامنے کوئی بھی ان کے باپ کی برائی نہ کرے۔ (اسلامی زندگی، ص 52)

5۔نرم رویہ: بیوی جو کہ شوہر کی خاطر اپنے میکے والوں کو چھوڑ آتی ہے بلکہ بعض دفعہ تو دیس چھوڑ کر پردیسی بھی بن جاتی ہے۔اگر شوہر اسے آنکھیں دکھائے گاتو وہ کہاں کی رہے گی۔

سیرت رسول عربی صفحہ 230 پر ایک حدیث مبارکہ نقل ہے جس میں آقا علیہ السلام نے عورت کو شیشی سے تشبیہ دی ہے۔یعنی عورت اس قدر نازک ہوتی ہے کہ ہلکی سی ٹھوکر سے شیشے کی طرح چور چور ہو کر بکھر سکتی ہے۔لہذا اسکے ساتھ نرمی سے پیش آنے کی بھرپور تاکید کی گئی ہے۔

آج ہمارا معاشرہ ہزاروں برائیوں کا مرتکب ہے۔ فتنہ و فساد کے شعلے بھڑک رہے ہیں اور اکثر فتنہ و فساد کی جڑ دو چیزیں ہیں: ایک غصہ اور اپنی بڑائی اور دوسراشرعی حقوق سے غفلت۔ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ مجھے بہت اونچا سمجھا جائےاور سب میرے حقوق ادا کریں مگر میں کسی کا حق ادا نہ کروں یوں ایسی آگ لگتی ہے کہ بجھائے نہیں بجھتی۔ لہذا حقوق العباد کی ادائیگی میں رتی برابر بھی غفلت نہیں بھرتنی چاہیئے۔اللہ پاک عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔