اسلام سے پہلے بیوی کی عزت و ناموس کی ایسی دھجیاں اڑآئی جاتی تھی گویا اسے پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا تھا لیکن اسلام نے بیوی کے حقوق کو تفصیلا بیان فرمایا اس کی ناموس کی حفاظت فرمائی اسلام نے بیویوں کے ایسے احکام بیان فرمائے ہیں کہ جس میں ایک بیوی بھی معاشرے میں باوقار و باعزت زندگی گزار سکتی ہے نیز قران و حدیث میں شوروں کو سختی سے اس بات کی تاکید فرمائی گئی ہے کہ بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور اس کے ساتھ نرمی اور خوش اخلاقی سے پیش آؤ۔ اللہ پاک اپنے کلام قران مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- (پ 4، النساء:19) ترجمہ کنز الایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔ علامہ علاؤ الدین علی بن محمد خازن علیہ الرحمہ مذکورہ ایت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اچھا برتاؤ یہ ہے کہ کھلانے پہنانے حق زوجیت ادا کرنے اور بات چیت کرنے میں ان سے اخلاقی خوش اخلاقی کے ساتھ پیش ائے اچھا برتاؤ کی ایک وضاحت یہ بھی کی گئی ہے کہ جو اپنے لیے پسند کرو ان کے لیے بھی وہی پسند کرو۔ (تفسیر خازن، 1/360)

علامہ بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: بیویوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے بات کرنا اور تمام امور میں ان کے ساتھ انصاف کرنا ان کے ساتھ اچھا برتاؤ ہے۔ (تفسیر خازن، 2/163)

حضرت سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم رؤف الرحیم ﷺ اپنی ازواج میں باری معین فرماتے اور ان میں عدل کرتے پھر یوں دعا فرماتے اے اللہ یہ میری تقسیم ہے جس کا میں مالک ہوں مجھے اس چیز میں ملامت نہ کرنا اس کا مالک تو ہے میں نہیں حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی رحمت شفیع امت ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کی دو بیویاں ہوں ان میں سے ایک کی طرف مائل ہو جائے تو وہ قیامت کے دن اس حال میں ائے گا کہ اس کی ایک جانب گری ہوگی۔ (ترمذی، 2/375، حدیث:1144)

حضرت سیدنا معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کی یا رسول اللہ ﷺ بیوی کے ہم پر کیا حقوق ہیں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم کھاؤ تو انہیں بھی کھلاؤ پہنو تو انہیں بھی پہناؤ چہرے پر نہ مارو اسے برا نہ کہو اسے گھر سے باہر مت چھوڑو۔ (ابو داود، 2/356،حدیث: 2142)

بیوی کو کھلانے پہنانے کے معنی:علامہ محمد بن علان شافعی فقیر رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں اس کا معنی یہ ہے کہ جب مرد خود بقدر کفایت کھاتا ہو تو عورت کو بھی بقدر کفایت کھلانا فرض ہے اور اگر مرد اچھا کھانے اچھا پہننے والا ہو تو ضرورت سے زیادہ جو کھلائے یا پہنائے گا تو وہ عورت پر احسان اور نفل ہوگا۔ (دلیل الفالحین، 2/105، تحت الحدیث: 278)

چہرے پر مارنے کی ممانعت: علامہ علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ چہرے پر مارنے کی ممانعت کے بارے میں فرماتے ہیں: چہرہ تمام اعضا میں سے عظمت والا ہے اور یہ تمام اعضا کا مظہر اور یہ نازک اعضا پر مشتمل ہے چہرے کے علاوہ باقی اعضاء پر اس وقت میں مارنے کی اجازت ہے جبکہ بیوی کوئی بے حیائی کا کام کرے یا کوئی فریضہ چھوڑے حضور نبی کریم ﷺ نے چہرے پر مارنے سے مطلقا منع فرمایا ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، 6/403، تحت الحدیث: 3259)

بیوی کو برا نہ کہو: اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں: ایک یہ کہ اسے گالی نہ دو کہ اس سے تمہاری زبان گندی ہوگی عورت کی عادت بگڑے گی کیوں کہ گالیاں سننے والا گالیاں بکنے بھی لگتا ہے دوسرے یہ کہ اسے برے کاموں کا عیب نہ لگاؤ بے عیب کو عیب لگانے سے وہ عیب دار ہو جاتا ہے بلکہ برائی دیکھ کر اکثر چشم پوشی کر لیا کرو۔ (مرآۃ المناجیح، 5/99)

بیوی کو گھر سے باہر مت چھوڑو: یعنی تم اس کی اصلاح کے لیے اس سے کلام و سلام بند کرو تو گھر سے باہر نہ نکال دو کہ اس سے وہ اور بھی ازاد ہو جائے گی بلکہ گھر ہی میں رکھو کھانا پینا جاری رکھو صرف بول چال چھوڑ دو یہ بائیکاٹ ان شاءاللہ اس کے لیے پوری اصلاح کا ذریعہ ہوگا۔ (مرآۃ المناجیح، 5/99)

حسن اخلاق سے پیش آۓ: سرکار نامدار مدینے کے تاجدار ﷺ نے ارشاد فرمایا: کامل مومن وہ ہیں اس کا اخلاق سب سے اچھا ہو اور تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں اچھے ہیں۔ (ترمذی،2/387، حدیث: 1165)

اور تم سے بہترین وہ ہے جو عورتوں کے حق میں اچھے ہیں: علامہ ابن اسیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حدیث پاک میں صلہ رحمی کرنے اس پر بھرنے کی طرف اشارہ ہے بعض نے کہا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اپنی بیوی سے خوش اخلاقی سے پیش آئے اور اس کو ایزا نہ دے اور اس پر احسان کرے اور اس کی طرف سے ملنے والی تکالیف پر صبر کرے چنانچہ حضور نبی کریم رؤف الرحیم ﷺ نے اپنے اہل کے لیے سب سے زیادہ اچھے اور ان کے خلاف احوال پر سب سے زیادہ صبر کرنے والے تھے۔ (دلیل الفالحین، 2/105، حدیث: 279)

بیوی سے درگزر: حضور نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا: کوئی مومن کسی مومنہ سے بغض نہ رکھے اگر اسے اس کی کوئی بات کوئی ایک بات نہ پسند ہو تو دوسری پسند ہوگی یا یہ فرمایا کوئی بات نہ پسند ہو تو اس کے علاوہ کوئی بات پسند بھی ہوگی۔ (مسلم، ص 595، حدیث: 1469)

مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: سبحان اللہ کیسی نفیس تعلیم ہے مقصد یہ ہے کہ بے عیب بیوی ملنا ناممکن ہے لہذا اگر بیوی میں دو ایک برائیاں بھی ہوں تو اسے برداشت کرو کہ کچھ خوبیاں بھی پاؤ گے یہاں مرقاۃ نے فرمایا کہ جو شخص بے عیب ساتھی تلاش میں رہے گا وہ دنیا میں اکیلا ہی رہ جائے گا ہم خود ہزار برائیوں کا سرچشمہ ہے ہر دوست عزیز کی برائیوں سے درگزر کرو اچھائیوں پر نظر رکھو ہاں اصلاح کی کوشش کرو بے عیب تو رسول اللہ ﷺ ہیں۔ (مراۃ المناجیح، 5/87)