حق عربی زبان کا مفرد لفظ ہے، اس کے معنی فرد یا جماعت کا واجب حصہ ہوتا ہے، اس کی جمع حقوق آتی ہے، الله پاک نے قرآن مجید میں عورتوں کے حقوق بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪- (پ 2، البقرۃ:228) ترجمہ: اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔یعنی جس طرح عورتوں پر شوہروں کے حقوق کی ادائیگی واجب ہے اسی طرح شوہروں پر عورتوں کے حقوق کی رعایت لازم ہے۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں جب یہ سوال ہوا کہ شوہر پر بیوی کے کیا حقوق ہیں تو ارشاد فرمایا: نفقہ سکنی (یعنی کھانا، لباس و مکان) ، مہر، حسن معاشرت، نیک باتوں اور حیاء و حجاب کی تعلیم و تاکید اور اس کے خلاف سے منع و تہدید، ہر جائز بات میں اس کی دلجوئی (عورت کے حقوق میں سے ہے)۔ اس سے معلوم ہوا کہ مردوں پر بیوی کے بہت سے حقوق ہیں جن میں سے پانچ حقوق درج ذیل ہیں:

1) اس کے ساتھ بھلائی سے پیش آئے اور اس کی عقل کی کمزوری کو مد نظر رکھتے ہوئے اس سے مہربانی کا سلوک کرے اور اس کے درد دکھ کو دور کرے حضور ﷺ نے ان کے حقوق کی عظمت میں ارشاد فرمایا: جس شخص نے اپنی بیوی کی بد خلقی پرصبر کیا اللہ تعالیٰ اسے مصائب پر حضرت ایوب علیہ السلام کے صبر کے اجر کے برابر اجر دے گا اور جس عورت نے خاوند کی بد خلقی پر صبر کیا اللہ تعالیٰ اسے فرعون کی بیوی آسیہ کے ثواب کے مثل ثواب عطا فرمائے گا۔(احیاء العلوم، 2/24)

بیوی سے حسن سلوک یہ نہیں کہ اس کی تکالیف کو دور کیا جائے بلکہ ہر ایسی چیز کو اس سے دور کرنا بھی شامل ہے جس سے تکلیف پہنچنے کا خدشہ ہو اور اس کے غصہ اور ناراضگی کے وقت حلم کا مظاہرہ کرنا اور اس معاملہ میں حضور ﷺ کے اسوہ حسنہ کو مد نظر رکھنا شامل ہے۔

2)اس کو نان نفقہ وغیرہ مہیا کرنا: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب مسلمان اپنے گھر والوں پر ثواب کی طلب میں خرچ کرتا ہے تو یہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے۔ گھر والوں سے مراد بیوی بچےوغیرہ ہیں۔

یہاں تک کہ اسلام میں شوہر کے لیے بیوی کو پانی پلانے کابھی ثواب بیان فرمایا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک آدمی جب اپنی بیوی کو پانی پلاتا ہے تو اسے اجر دیا جاتا ہے۔ صحابیٔ رسول فرماتے ہیں کہ پھر میں اپنی زوجہ کے پاس آیا، اسے پانی پلایا اور یہ حدیث پاک سنائی۔ (معجم کبیر، 18/258، حدیث: 646)اسی طرح ایک اورحدیث پاک میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک کی رضا کے لئے تم جتنا بھی خرچ کرتے ہواس کا اجر دیا جائے گا یہاں تک کہ جو لقمہ تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو (اس کا بھی اجر ملے گا)۔ (بخاری، 1/438، حدیث:

3) شوہرکا ایک حق یہ بھی ہے کہ اسے چاہئے کہ اپنے منصب کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام تر فرائض منصبی کو بخوبی انجام دے، خود بھی برائیوں سے بچے اور حتی المقدور اپنے بیوی بچوں کو بھی گناہوں کی آلودگی سے دور رکھے، نبی اکرم، نور مجسم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم سب نگران ہو اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ بادشاہ نگران ہے، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ آدمی اپنے اہل و عیال کا نگران ہے اس سے اس کے اہل و عیال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ عورت اپنے خاوند کے گھر اور اولاد کی نگران ہے اس سے ان کے بارے میں پوچھاجائے گا۔

4)شوہر کا چوتھا حق یہ ہے کہ وہ اپنی زوجہ کا مہر اچھی طرح سے ادا کرے۔ مہر کے متعلق رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے ظالمانہ روش اختیار کر کے عورت کا مہر ادا نہ کیا وہ خدا کے سامنے زنا کار ہے۔ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اسے مخاطب کر کے فرمائے گا۔ اے میرے بندے میں نے اپنی کنیز کو ایک معاہدے کے مطابق تیرے عقد میں دیا تھا لیکن تو نے مجھ سے باندھے ہوئے عہد کو پورا نہیں کیا۔ اور اس پر ظلم روا رکھا۔ اس کے بعد عورت کے حق کی مقدار کے مطابق نیکیاں اور اچھے اعمال اس کے شوہر سے لے کر اس کی بیوی کو دے دیئے جائیں گے۔ اور چونکہ کوئی نیک کام اس کے حساب میں باقی نہیں بچے گا۔ عہد شکنی کے جرم میں اسے دوزخ میں لے جایا جائیگا۔ (بحار الانوار، 10/349)

5)اگر کوئی عیب نظر آئے تو اس کی اصلاح کرنے کی کوشش کرے، اس دنیا میں ہر انسان میں بے شمار خوبیاں بھی ہیں اور برائیاں بھی ہیں آدمی کو ہمیشہ سامنے والے کی خوبیوں پر نگاہ ہونی چاہیے کسی کی برائیاں تلاش کر کے اس کو ذلیل نہ کیا جائے، اس طرح بیوی میں بے شمار خوبیاں میں انہی کو بنیاد بنا کر زندگی گزاری جائے اگر کوئی معمولی برائی ہے تو نظر انداز کر دی جائے۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اگر اس میں ایک برائی ہے تو دوسری اچھائی بھی تو ہے اسے دیکھ لیا کرو۔ (مسلم، ص 595، حدیث: 1469)