اسلام نے حقوق کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ایک حقوق اللہ دوسرا حقوق العباد اور ان دونوں کی اہمیت و افادیت مسلم ہے اگر کوئی حقوق اللہ میں کوتاہی کرے یعنی نمازیں قضا کرتا رہے تو یہ حقوق اللہ میں کوتاہی ہوگی لیکن اس کی تلافی کی صورت ہے اور وہ صورت یہ ہے کہ بندہ نمازوں کو قضا کرنے سے سچی توبہ کرے اور جو نمازیں چھوٹ گئی ہیں ان کی قضا کرے مگر یہ حقوق اللہ ہیں لیکن حقوق العباد کا معاملہ سخت ہے حقوق العباد توبہ سے معاف نہیں ہوتے بلکہ جس کی حق تلفی کی ہوتی ہے اس سے معافی مانگنا ضروری ہے مثال کے طور پر اگر کسی نے کسی کی دل آزاری کی تو س سے معافی مانگنا ضروری ہے اگر وہ شخص معاف نہ کرے تو قیامت کے دن اس کا حساب ہوگا لہذا ہمیں حقوق العباد کا خاص خیال رکھنا چاہیے اور حقوق العباد میں عام مسلمان کے حقوق بھی شامل ہیں اور حدیث پاک میں مسلمانوں کو ایک جسم قرار دیا گیا ہے جیسا کہ

اللہ کے آخری نبی ﷺ نے فرمایا: ایمان والوں کی آپس میں محبت، رحم اورشفقت ومہربانی کی مثال اس جسم جیسی ہے جس کاایک حصہ بیمار ہوتوباقی جسم بے خوابی اوربخار کی طرف ایک دوسرے کوبلاتا ہے۔ (بخاری، 4/103، حدیث: 6011)

رسول اللہ ﷺ کا انتخاب بے مثال ہوتا ہے خواہ وہ افراد ہوں یا الفاظ۔ اس حدیث پاک میں جن الفاظ کو زبان مصطفےٰ سے ادا ہونے کا اعزاز ملا ہےان میں مرادی معنی کے اعتبار سےفرق ہے مثلاً:

( 1 ) تراحم کامعنی ایک دوسرے پررحم کرنا ہے، مراد یہ ہے کہ مسلمان کسی اور غرض کے بغیر صرف اور صرف اسلامی بھائی چارے کی وجہ سے ایک دوسرے پررحم کریں۔

( 2 ) توادّ کامعنی ایک دوسرے سے محبت کرنا ہے، یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ آپس کی محبت بڑھانے کے تعلقات رکھے جائیں جیسےایک دوسرے کو تحفے دیئے جائیں، ملاقات کی جائے وغیرہ۔

( 3 ) تعاطف کامعنی ایک دوسرے پر نرمی کرنا ہے، اس سے مراد ایک دوسرے کی مدد کرنا ہے۔ (فتح الباری، 11 / 372، تحت الحدیث: 6011)

اپنے رشتہ داروں کے علاوہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہر مسلمان کے دوسرے مسلمان پر بھی کچھ حقوق ہیں۔ ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ ان کو ادا کرے چند یہ ہیں:

(1)ملاقات کے وقت سلام کرے اور مرد مرد سے اور عورت عورت سے مصافحہ کرے تو بہت ہی اچھا ہے۔

(2) سلام کا جواب دے۔ یاد رکھیں کہ سلام کرنا سنت ہے اور سلام کا جواب دینا واجب ہے۔

(3)مسلمان چھینک کر ''الحمدﷲ'' کہے تو ''یرحمک اﷲ'' کہہ کر اس کا جواب دے۔

(4)بیمار کی تیمارداری کرے۔

(5)اپنی حیثیت کے مطابق ہر مسلمان کی خیر خواہی اور اس کی مدد کرے۔

(6)مسلمانوں کی نماز جنازہ اور ان کے دفن میں شریک ہو۔

(7)ہر مسلمان کا مسلمان ہونے کی حیثیت سے اعزاز و اکرام کرے۔

(8)کوئی مسلمان دعوت دے تو کوئی وجہ نہ ہو تواس کی دعوت کو قبول کرے۔

(9)مسلمان کے عیبوں کی پردہ پوشی کرے اور ان کو اخلاص کے ساتھ ان عیبوں سے باز رہنے کی نصیحت کرے۔

(10)اگر کسی بات میں کسی مسلمان سے ناراضی ہوجائے تو تین دن سے زیادہ اس سے سلام و کلام بند نہ رکھے۔

اللہ کریم ہمیں عام و خواص اور ہر مسلمان کے حقوق کا خیال اور ان کے حقوق کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔