حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں: (1) سلام کا جواب دینا۔ (2) مریض کی بیمار پرسی کرنا۔ (3) جنازے کے ساتھ جانا (4) اس کی دعوت قبول کرنا (5) اور چھینک کا جواب یرحمک الله کہہ کر دینا۔ (مسلم، ص 1192، 2162)یہ حدیث مسلمانوں کے باہمی حقوق کے بارے میں بلکل واضح ہے۔ البتہ مذکورہ حقوق میں چند باتوں کی طرف توجہ ضروری ہے:

(1) سلام کا جواب دینے میں بعض جگہ رسمی طور پر ہاتھ ملا لیتے ہیں یا دعائیں دیتے ہیں مگر وعلیکم السلام کا لفظ نہیں کہتے حالانکہ یہ ضروری ہے، سلام کا جواب دینا واجب ہے جیتے رہو لمبی عمر پاؤ کہنے سے یہ واجب ادا نہیں ہوتا۔

سلام کا جواب دینا فرض ہے۔ بعض سنتوں کا ثواب فرض سے زیادہ ہے سلام سنت ہے اور جواب سلام فرض ہے مگر ثواب سلام کرنے کا زیادہ ہے۔

(2) مریض کی مزاج پرسی میں اس کا خیال رہنا چاہئے کہ ایسے وقت میں عیادت کیلئے جائیں جب اس کو ملاقات کرنے میں کوئی تکلیف نہ ہو اور اتنی دیر اس کے پاس نہ بیٹھے کہ وہ اکتا جائے، یا اپنی کسی ضرورت میں تنگی محسوس کرے۔ مثلاً بعض اوقات کوئی مریض پر اس طرح مسلط ہو جاتا ہے کہ اگر وہ سونا چاہے تو سو نہیں سکتا یا خاموش رہنا چاہتا ہے تو لحاظ کی وجہ سے نہیں رہ سکتا۔

مریض کی عیادت کرنے کا ثواب: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے کسی مریض کی عیادت کی وہ مسلسل جنت کی روش میں رہا۔ آپ سے پوچھا گیا: یا رسول اللہ! جنت کی روش کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا: اس کے پھل جنہیں وہ چنتا ہے۔ (مسلم، ص 1066، حدیث: 6554)

جب بھی کوئی بیمار ہو اس کی عیادت ضرور کیا کریں اس کے پاس نہیں جا سکتے تو کال کر کے پوچھ لیں۔ کوئی پریشانی کی بات اس کے سامنے مت کریں۔ اللہ رب العزت ہمیں عمل صالحہ کرنے کی توفیق دے آمین یا رب العالمین

(3) جنازے کے ساتھ جانے میں بھی اس کا خیال رہے کہ کوئی کام خلاف سنت نہ ہو۔ آج کل جنازے میں بہت سی چیزیں اپنی طرف سے بڑھائی گئی ہیں، ان سے بچنے اور کسی مناسب موقع پر دوسروں کو بھی ان رسومات و بدعات سے منع کرے۔

نماز جنازه: جس مسلمان کے جنازے میں ایسے چالیس آدمی شامل ہوں جو اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہراتے ہوں تو اللہ تعالیٰ اس میت کے حق میں ان کی سفارش قبول کرتا ہے۔ نماز جنازہ پڑھنے کے لیے میت کی چار پائی اس طرح رکھیں کہ میت کا سر شمال کی سمت قبلے کی دائیں جانب اور پاؤں جنوب کی جانب ہوں، پھر باوضو ہو کر صفیں باندھیں۔ میت اگر مرد ہے تو امام (اس کے ) سر کے سامنے کھڑا ہو اور اگر عورت ہے تو اس کے درمیان کھڑا ہو۔

پھر دل میں نیت کر کے دونوں ہاتھ کندھوں یا کانوں تک اٹھائیں اور پہلی تکبیر کہہ کر سورہ فاتحہ پڑھیں۔

(4) دعوت قبول کرنے میں بھی یہ شرط ہے کہ وہاں جا کر کسی نا جائز کام میں شرکت نہ ہو جیسے آج کل ولیمہ وغیرہ کی دعوتیں، بے پردگی، غیر محرم مرد و عورت کے آزادانہ اختلاط اور فلم سازی اور تصویر بازی سے بھری ہوئی ہوتی ہیں ایسی دعوتوں کا قبول کرنا جائز نہیں۔ اگر تم میں سے کسی کو کھانے کی دعوت دی جائے تو دعوت قبول کر لینی چاہیے۔

(5) چھینکنے والا جب الحمد لله کہے تو اس وقت اس کو یہ کہ کر دعا دینی چاہئے یرحمک اللہ اللہ تم پر رحمت کرے۔ البتہ کچھ لوگ دینی یاد نیاوی کاموں میں مشغول ہیں تو وہاں چھینکنے والے کیلئے بہتر یہ ہے کہ وہ الحمد لله زیر لب کہے تا کہ سننے والوں پر یہ دعائیہ کلمہ کہنا لازم نہ ہو۔

رسول اللہ ﷺ کو جب چھینک آتی تھی تو اپنے ہاتھ سے یا اپنے کپڑے سے منہ ڈھانپ لیتے، اور اپنی آواز کو کم کرتے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کے حقوق پورے کرنے اور پیارے آقا ﷺ کے فرامین پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔