علم حدیث کی اہمیت

Sat, 18 Apr , 2020
3 years ago

حدیث کی اہمیت:

ایک مسلمان کی زندگی میں پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی احادیث مبارکہ کی بے انتہا اہمیت ہے کلام اللہ( قرآن مجید) کے بعد کلام رسول (حدیث شریف) کا ہی درجہ ہے ، کوئی بھی کلام اس سے بڑھ نہیں سکتا۔

حدیث مبارک ہی سے انسان کو معرفتِ الہی حاصل ہوتی ہے اور معرفتِ الہی ہی توحید کی اصل ہے، حدیث مبارک ہی مسلمان کو عبادت کا طریقہ سکھاتی ہیں اور عبادات کا شرعی مفہوم بھی احادیث سے ہی ملتا ہے حدیث مبارکہ زندگی کے ہر ہر شعبے میں رہنمائی فرماتی ہیں، خواہ وہ سیاسی شعبہ ہو یا کاروباری خواہ وہ سائنس ہو یا نجی زندگی، دینی معاملات ہوں یا دنیوی۔

ایک مسلمان کی زندگی میں جہاں قرآن کریم دماغ کی حیثیت رکھتا ہے تو وہیں حدیث شریف دل کی حیثیت رکھتی ہیں کیونکہ ان دونوں کے بغیر ہی انسان نامکمل ہے۔

اللہ پاک نے قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا:

وَ  یُعَلِّمُهُمُ  الْكِتٰبَ  وَ  الْحِكْمَةَۚ-

ترجمہ کنزالایمان : اور انھیں پاک کرتا اور انھیں کتاب و حکمت سکھاتاہے

( آل عمران آیت:۱۶۴)

پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی یہ تعلیمات حکمت سے بھرپور کلمات کے ذریعے امت تک پہنچ رہی ہیں اور زندگی کے ہر ہر موڑ پر اس کی رہنمائی کررہی ہیں۔

ایک جگہ ارشاد فرمایا۔

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ

ترجمہ کنز الایمان: بےشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے (الاحزاب :۲۱)

جب تک حدیث مبارک کو ہم نہ لیں گے اس وقت تک قرآن پاک کے اس فرمان پر ہم کیسے عمل کرسکیں گے ۔ جس اسوه کی برکتیں صحابہ کرام نے اپنی آنکھوں سے دیکھ کر حاصل کیں اب وہی اسوہ ہمیں احادیث کے ذریعے سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔

حدیثِ مبارک بے شمار فوائد کی حامل ہیں کیونکہ قرآن کریم میں اللہ پاک نےنماز،روزہ، زکوة اور حج وغیرہ کی ادائیگی کا محض حکم ارشاد فرمایا ، جب کہ ان کا طریقہ حدیث مبارک سے ہی ملتا ہے، نماز کی ہیئت ، حج کے ارکان روزہ کا اصل مفہوم حدیث مبارک سے ہی ملتا ہے، حدیث مبارک ہی مومن کے لئے مشعل راہ ہے اس کے بغیر نجات ناممکن ہے۔

فرضی خاکہ :

اُم البنین نے اپنی معلمہ باجی سے سوال کیا کہ حدیث کے بغیر انسان کی عبادات و زندگی کس طرح نامکمل ہیں،حالانکہ قرآن کریم میں تو ہر خشک و ترکا بیان ہے، خود اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ہے۔

تو معلمہ باجی نے ارشاد فرمایا:بیٹابے شک قرآنِ کریم میں حق فرمایا گیا ہے کہ اس میں ہر خشک و تر کا بیان ہے، مگر بہت سی باتیں قرآنِ کریم میں اس طرح مختصر بیان کی گئی ہیں اور بعض پوشیدہ طور پر بیان کی گئی ہیں کہ ان کاحقیقی معنی سمجھنا ناممکن ہوتا ہے ان کو سمجھنے سے ایک عام انسان عاجز ہے مگر ان کا معنی ہمیں حدیث مبارک ہی سے سمجھ آسکتا ہے، بے شک قرآن ہی دین کی اصل ہے مگر اس اصل سے فیوض و فوائد حاصل کرنے کے لئے حدیث ہی بنیادی ذریعہ ہیں۔