دعوت اسلامی کے شعبہ ٹرانسلیشن ڈیپارٹمنٹ کے تحت 21 مئی 2022ء عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں تربیتی نشست کا انعقاد کیا گیا جس میں ٹرانسلیشن ڈیپارٹ کے ملک و بیرون ملک (افریقہ، یورپ، ایشیاء) میں موجود مترجم، مفتش اور دیگر ٹیم ممبرز نے شرکت کی۔
نشست کے آغاز میں قرآن کریم کے تراجم کی رپورٹ پیش کی گئی جس میں نیشنل اور انٹرنیشنل 29 زبانوں میں تراجم قرآن کا کام کتنا ہوا ہےیہ بیان کیا گیا۔
رپورٹ پیش کرنے کے بعد رئیس دار الافتاء اہلسنت، شیخ الحدیث والتفسیر مفتی محمد قاسم عطاری مُدَّ ظِلُّہُ العالی نے شرکا کی تربیت کی اور تین موضوعات پربیان فرمایا جن کا خلاصہ درجِ ذیل ہے:
(1)کام کرنے والے کی نیت اور مقصد
مفتی صاحب دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہنے اپنے کام کو سرانجام دیتے ہوئے جو نیت اور مقصد پیش نظر ہونا چاہیے اس پر توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ ’’نیت کی بلندی ، ہمت کی بلندی اور محنت“ کسی بھی کام کو اچھے انداز میں کرنے کے لیے بنیادی چیزیں ہیں۔ اس کام کی سعادت اور عظمت کو ہر دم پیش نظر رکھیں تورحمت خداوندی کاحصول بھی ہو گا ۔اپنا قیمتی وقت دیتےہوئے ہمارا اصل مقصد کام ہونا چاہیئے، جو لوگ کام کو بقیہ معاملات پر ترجیح دیتے ہیں وہی کامیاب ہوتے تھے۔مفتی صاحب نے کام کی نیت کے حوالے سے فرمایا کہ دیگر کسی بھی مصروفیات سے زیادہ اہم اپنا وقت اپنے کام کو دیتے ہیں اس لئے کام کی نیت عظیم ہے۔ مفتی صاحب نے اپنا معمول بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے اپنے کام کی نیتیں لکھ کر رکھی ہوئی ہے اور ہر تین دن میں ان کی دہرائی کرتا ہوں۔
(2)ترجمہ کے کام کی اہمیت و عظمت
مفتی قاسم صاحب حفظہ اللہ نے ترجمہ کے کام کی اہمیت وعظمت بیان کرتے ہوئے فرما یا کہ حضورخاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم تمام اقوام کی طرف مبعوث ہوئے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نذیر یعنی ڈر سنانے والا ہونا یہ سب قوموں کے لیے ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سب لوگوں تک ان کی زبان میں پہچانا عظیم سعادت ہے۔ یہ کام کتنی ذمہ داری کا ہے اس کی اہمیت کو اس طرح سمجھیں کہ حدیث کا ترجمہ کرنے والا رسول اللہ ﷺ کی اور ان کے احکامات کی ترجمانی کررہا ہوتا ہے۔ اردو ترجمہ پڑھنے والا یہ نہیں کہتا کہ ترجمہ نگار کا فرمان ہےبلکہ وہ یہی کہتا ہے کہ رسول اللہ کا فرمان ہے۔
اسی طرح ترجمہ کے کام کا اثر ، اس کی معنویت اور اہمیت بعض اوقات صدیوں تک باقی رہتی ہےاور ترجمہ کرنے والے کو اس کا اجر ملتا رہتا ہے۔ شیخ سعدی علیہ الرحمہ نے جو قرآن کا ترجمہ فارسی میں کیا ہےاس کا فائدہ آج تک ہو رہاہے۔
(3) ترجمہ کرنے میں کیا انداز ہو
اس موضوع پر کلام کرتے ہوئے مفتی صاحب نے فرمایا کہ ترجمہ بنیادی طور ایک زبان کے کلا م کو دوسری زبان میں منتقل کرنے کا نام ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ایک زبان کی فصاحت،زوربیانی ،تہذیب ،سوچ ،نظریات ، حسن بیان اور ذوق کو دوسری زبان میں منتقل کرنے سے ہی ترجمہ میں نکھار آتا ہے ۔ اور اس کے لیے مسلسل کوشش اور سیکھنے کی تگ و دو میں رہنا ضروری ہے ۔ ترجمے کی روح یہی ہے کہ جن الفا ظ اور قیودات کا اصل زبان میں لحاظ کیا گیا ہے اس کا لحاظ ترجمہ شدہ زبان میں بھی رکھا جائے لیکن اس میں ہر زبان کی فصاحت اور حسن بیان کا لحاظ رکھنا ضروری ہے ۔بہترین تراجم کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ شیخ محقق شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی فارسی کتب میں جو عربی کا کلام ترجمہ ہوا اس کی فصاحت اور حسن بیان بعض اوقات عربی سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔
اسی طرح امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمہ قرآن کنزالایمان شریف کے حوالے سے مفتی صاحب نے فرمایا کہ ’’اگرچہ کنزالایمان شریف کے محاسن پر مختلف زاویوں سے بہت سارا کام ہوا ہے لیکن اس کی پوری علمیت ابھی تک بیان نہیں ہوئی ‘‘۔
ترجمہ کے معیار و مقدار کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مفتی صاحب نے ارشاد فرمایا کہ ’’ معیار کی کوئی حد نہیں ہے۔ مثلا میرے سامنے اردو زبان کا کوئی کلام آئےتو میں اس میں غلطی نکال دوں کہ اس طرح نہیں بلکہ یوں بہتر ہوتا،بنیادی طور پر معیار اور مقدار دونوں کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ یہ نہ ہو کہ معیار کی وجہ سے اصلی مقصود ہی فوت ہو جائے ‘‘۔
تربیتی نشست کے آخر میں ٹیم ممبر ز نے اس طرح کی نشست کے اہتمام پر ذمہ داران کا شکریہ ادا کیا اور مزید اس طرح کےتربیتی پرواگرام کرنے کا مشورہ بھی دیا ۔