تربیت و تفہیم ایک ایسا معاملہ ہے کہ ابتدائے
کائنات سے اب تک اس کے انداز میں بتدریج
تبدیلیاں آتی رہی ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ جو انداز اللہ کریم کے نیک بندوں اور بالخصوص رسولِ اکرم، شہنشاہِ دوعالم ﷺ
نے اپنائے نہ تو ان سے بہتر کوئی انداز اپنائے جاسکتے ہیں اور نہ ہی ان کا مکمل
احاطہ ہوسکا ہے۔ پیارے مصطفےٰ ﷺ کے اسوۂ تربیت و تفہیم میں ایک انداز ”مختلف سوالات کے جوابات دے کر تربیت
فرمانا“ کی سات صورتیں گزشتہ مضامین میں
بیان ہوئیں، اسی سلسلے کی ایک کڑی اس مضمون
میں پیش کی جاتی ہے:
(8)مختلف اعمال کے اجر و ثواب کے متعلق سوالات کا جواب
دینا
یہ ایک حقیقت ہے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان ہمارے لئے اللہ کریم کی بہت بڑی
اور عظیم نعمت ہیں، یہ انہی نفوس قدسیہ کا فیضان ہے کہ انہوں نے بارگاہِ رسالت میں
طرح طرح کے موضوعات پر سوالات کئے اور حضور نبی کریم ﷺ نے جوابات ارشاد
فرمائے جس کے نتیجے میں بعد میں آنے والوں کو زندگی کے ہر شعبہ میں رہنمائی مل رہی
ہے۔ صحابہ
کرام علیہم الرضوان آسمان ہدایت کے درخشاں ستارے ہیں، یہ ان کی فہم و فراست، طلب
علم دین کی حرص، احکام شریعت جاننے کی جستجو اور ہر عمل میں اخلاص و للہیت کا ہی
نتیجہ ہے کہ طرح طرح کے معاملات و حالات میں ایسے ایسے سوالات بارگاہِ نبی میں کئے
کہ جن پر ملنے والے نبوی جوابات رہتی دنیا
تک کے لئے ہدایت و رہنمائی کا چراغ ہیں۔ دیگر ہزاروں موضوعات کی طرح صحابہ کرام کے سوالات کا ایک موضوع یہ بھی تھا
کہ مختلف اعمال کے اجرو ثواب کے متعلق
سوالات کرتے تھے اور رسولِ کریم ﷺ جوابات
عطا فرماتے ہوئے تربیت و تفہیم فرماتے جیسا کہ
ایک شخص رسولِ کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا، عرض کی: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ
إِنْ شَهِدْتُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ،
وَصَلَّيْتُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ، وَصُمْتُ الشَّهْرَ، وَقُمْتُ رَمَضَانَ،
وَآتَيْتُ الزَّكَاةَ؟
یارسول اللہ!آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ اگر میں
گواہی دوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں، اور پانچ
نمازیں ادا کروں اور رمضان کے روزے رکھوں اور رمضان میں عبادت كروں اور زکاۃ ادا
کروں تو میں کن لوگوں میں سے ہوں؟
رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ
مَاتَ عَلَى هَذَا كَانَ مِنَ الصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ
جو ان اعمال پر فوت ہوا وہ صدیقین اور شہداء میں سے ہے۔(صحیح ابن خزیمۃ، جلد3، صفحہ340، حدیث:2212)
قارئین کرام! غور کیجئے کہ کوئی بہت زیادہ عبادت نہیں
صرف توحید و رسالت کی گواہی کے بعد تین
فرائض کی ادائیگی پر صدیقین اور شہداء کا درجہ ملنے کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔ یہ
رسولِ کریم ﷺ کا اندازِ تعلیم و تربیت ہے
کہ دینِ الٰہی پر عمل کرنے والوں کو بڑے بڑے اجر و ثواب کی بشارت عطا فرماتے جس سے
عمل کرنے والوں کو مزید حوصلہ ملتا اور وہ اپنے اعمال میں مزید اخلاص و استقامت
لانے کی کوشش کرتے۔
اسی طرح اجروثواب کے متعلق اصحاب عقبہ نے بھی سوال کیا
تھا، یہ بڑا ہی ایمان افروز واقعہ ہے چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ حضرت عباس حضور اكرم ﷺ کے ہمراہ انصار
کے پاس گئے اور فرمایا: بات شروع کرو لیکن بات لمبی نہ کرنا، کیونکہ جاسوسوں کی
آنکھیں تمہارے اوپر ہیں اور مجھے تم پر
کفار قریش کا بھی خطرہ ہے۔
ان میں سے ایک شخص جس کی کنیت ابوامامہ تھی اور وہ ان
دنوں میں انصار کے خطیب سمجھے جاتے تھے اور ان کا نام اسعد بن زرارہ تھا، انہوں نے
نبی کریم ﷺ سے عرض کی: یارسول اللہ! آپ کا ہم سے اپنے رب کے لئے، اپنے لئے اور
اپنے اصحاب کے لئے کیا مطالبہ ہے؟ اور ساتھ میں یہ بھی فرما دیجئے کہ ہمیں اس پرکیاثواب
حاصل ہوگا؟
نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں تم سے اپنے رب
کے لیے یہ سوال کرتا ہوں کہ اس کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ
ٹھہراؤ۔ اور اپنی ذات کے لیے یہ سوال کرتا ہوں کہ مجھ پر ایمان لاؤ اور ان چیزوں
سے میری حفاظت کرو جن سے تم اپنی جانوں کی حفاظت کرتے ہو اور میں اپنے اصحاب کے لیے
تم سے سوال کرتا ہوں کہ ان کے ساتھ تم غم خواری کا معاملہ کرو۔
انصار نے عرض کیا : فَمَا لَنَا إِذَا فَعَلْنَا ذَلِكَ
اگر ہم ایساکریں گے تو ہمارے لیے
کیا ثواب ہے۔
ارشاد فرمایا: لَكُمْ عَلَى
اللَّهِ الْجَنَّةُ
تمہارے لیے اللہ کے ذمہ کرم پر جنت ہوگی۔(مصنف ابن ابی شیبۃ، جلد7، صفحہ444، حدیث:37103)
بارگاہِ رسالت میں مختلف اعمال
کے اجرو ثواب کے متعلق صرف صحابہ کرام ہی سوال نہ کرتے تھے، بلکہ صحابیات طیبات
بھی یہ جذبہ رکھتی تھیں، چنانچہ حضرت
سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ چلے جارہے تھے کہ ایک عورت
اپنے بچے کے ساتھ حاضر بارگاہ ہوئی، اس نے
عرض کی: یارسول اللہ ! کیا یہ بچہ بھی حج کرسکتاہے؟
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہاں اور
اس کا اجر تیرے لئے ہے۔
عرض کی: فَمَا ثَوَابُهُ إِذَا وَقَفَ بِعَرَفَةَ
جب یہ وقوفِ عرفہ کرے گا تو اس کا کیا اجر ہے؟
ارشاد فرمایا: يُكْتَبُ لِوَالِدَيْهِ بِعَدَدِ كُلِّ مَنْ وَقَفَ بِالْمَوْقِفِ عَدَدُ شَعْرِ
رُءُوسِهِمْ حَسَنَاتٌ
اس کے والدین کے لئے ہر وقوفِ
عرفہ کرنے والے کے بالوں کے برابر نیکیاں لکھی جائیں گی۔
(المعجم الاوسط،
جلد3صفحہ350، حدیث:3375)
محترم قارئین! اس جواب پر قربان جانے کو جی
چاہتاہے، ہر وہ بندہ جسے اللہ کریم نے استطاعت دی ہے اسے
چاہئے کہ خود پر حج فرض ہے تو وہ تو لازمی کرے لیکن ہو سکے تو اپنے بچوں کو بھی
کروائے کہ اتنی ساری نیکیاں دنیا کے مال کے خرچ ہونے کے ڈر سے چھوڑنا عقلمندی نہیں
ہے۔