کسی عمل
یا اجر کا مجمل ذکر کرنا اور سامعین کا شوق و تجسس سے سوال کرنا
سامع کے ذہن میں بات کو بٹھا دینے کا ایک انداز
یہ بھی ہے کہ کسی عمل یا کسی فائدہ کا مجمل ذکر کیا جائے، یہ انداز بھی رسولِ کریم ﷺ کی مبارک سیرت کے
مطالعہ سے ملتا ہے ، آپ ﷺ کئی مواقع پر کسی عمل یا کسی اجر کا مجمل ذکر فرماتے جس
سے سامعین کو شوق پیدا ہوتا کہ اس عمل کے بارے میں جانا جائے یوں وہ خوب متوجہ
ہوجاتے ، چنانچہ
جنت کی کیاریاں
ایک مرتبہ رسولِ معلم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِذَا مَرَرْتُمْ بِرِيَاضِ الجَنَّةِ
فَارْتَعُوا
جب تمہارا گزر جنت کی کیاریوں پرسے ہوتو اس میں
سے کچھ چُن لیا کرو۔
حریصِ علم مصطفےٰ جناب ابوہریرہ نے عرض کیا:یارسول اللہ!
وَمَا رِيَاضُ الجَنَّةِ؟
جنت کی کیاریاں کیا
ہیں؟
ارشاد فرمایا: مساجد
مزید عرض کیا:
وَمَا الرَّتْعُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟
یارسول اللہ!ان میں
سے چننا کیا ہے؟
تو ارشاد فرمایا:
یہ کہنا:سُبْحَانَ اللَّهِ وَالحَمْدُ لِلَّهِ
وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ
(سنن ترمذی، کتاب الدعوات، جلد5، صفحہ304، حدیث:3520)
ایک درہم کا لاکھ سے تقابل
اسی طرح ایک موقع پر مجلسِ اصحاب میں
ارشاد فرمایا:
سَبَقَ دِرْهَمٌ مِائَةَ أَلْفٍ
ایک درہم ایک لاکھ
پر سبقت لے گیا
ایک اور لاکھ میں
بہت فرق ہے، یہ ایسا جملہ ہے کہ ہر سننے
والا متجسس ہوجاتاہے کہ ایسے کیسے ہوسکتاہے! چنانچہ صحابہ کرام نے بھی پیارے نبی ﷺ کے اس فرمان پر عرض
کیا: یارسول اللہ! وہ کیسے؟
معلمِ اعظم جنابِ
رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
رَجُلٌ لَهُ دِرْهَمَانِ فَأَخَذَ أَحَدَهُمَا
فَتَصَدَّقَ بِهِ، وَرَجُلٌ لَهُ مَالٌ كَثِيرٌ فَأَخَذَ مِنْ عُرْضِ مَالِهِ مِائَةَ
أَلْفٍ، فَتَصَدَّقَ بِهَا
ایک آدمی جس کے پاس
دو درہم ہیں اس نے ان میں سے ایک صدقہ کردیا اور ایک آدمی جس کے پاس کثیر مال ہے
اس نے اپنے مال میں سے ایک لاکھ صدقہ دیے۔(سنن الکبری للنسائی، کتاب الزکاۃ، جلد2، صفحہ32، حدیث:2307)
قارئین کرام! واقعی
بہت قابلِ غور بات ہے کہ ایک شخص کی کل
ملکیت ہی دو درہم ہیں اس نے جب ایک درہم راہِ خدا میں دیا تو گویا اس نے اپنی آدھی
دولت راہِ خدا میں دے دی، اور جس کے پاس کثیر دولت ہے اس نے ایک لاکھ درہم راہِ
خدا میں دیا اگرچہ بظاہر یہ ایک لاکھ ہے لیکن اس کی دولت کے اعتبار سے تو کچھ حصہ
بنتاہے۔ اس فرمانِ عظیم میں تربیت و تفہیم
کے دو نکات یہ بھی ملے کہ (1)غربا کو انفاق فی سبیل اللہ پر حوصلہ افزائی فرمائی گئی اور (2)کسی کے پاس مال کم ہو یا زیادہ،بہرصورت
انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب ہے۔
کسی
اچھے مقام یا بدلے کاذکر فرمانا جس
سے لوگ متجسس ہو کر سوال کرتے
کسی اجر، انعام یا اچھے مقام و رتبہ کا ذکر کرنا اور یہ نہ بتانا
کہ یہ کس کے لئےہے تو سامعین کو ایک تجسس ہوتاہے کہ آخر یہ کس کے لئے ہوگا؟
یہ بھی ایک تربیت و تفہیم کا انداز ہے جو کہ سیرتِ نبی کریم ﷺ سے ہمیں معلوم
ہوتاہے چنانچہ
جنتی محل
مصنف
ابن ابی شیبہ میں ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ فِي الْجَنَّةِ غُرَفًا
تُرَى ظُهُورُهَا مِنْ بُطُونِهَا، وَبُطُونُهَا مِنْ ظُهُورِهَا
بے شک جنت میں ایک مکان ہے جس کے اندر سے اس کا باہر نظر آتاہے اور اس کے باہر سے اس کا
اندر نظر آتاہے۔
ایک اعرابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا:
لِمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟
یارسول اللہ! وہ کس کے لئے ہے؟
معلم اعظم جنابِ رسول مکرم ﷺ نے فرمایا:
هِيَ لِمَنْ قَالَ طَيِّبَ
الْكَلَامِ، وَأَطْعَمَ الطَّعَامَ، وَأَفْشَى السَّلَامَ، وَصَلَّى بِاللَّيْلِ
وَالنَّاسُ نِيَامٌ
وہ اس کے لئے ہے جو ستھری بات کہے، کھانا
کھلائے، سلام عام کرے اور رات میں جب لوگ سوجاتے ہیں وہ نماز (نفل) ادا کرے۔(مصنف
ابن ابی شیبۃ، کتاب الادب، باب ماقالوا فی افشاء السلام، جلد13، صفحہ193،
حدیث:26257)
(بقیہ اگلی قسط میں)