معلّمِ  اعظم، جنابِ رسولِ اکرم ﷺ کی مبارک سیرت سے معلوم ہونے والے طرقِ تربیت و تفہیم میں سے ایک اہم طریقہ ”سوال و جواب“ کا تذکرہ چل رہا تھا، گزشتہ مضامین میں صحابہ کرام کے سوالات کی 10نوعتیں اور ان پر رسولِ کریم ﷺ کے جوابات اور تربیت و تفہیم فرمانے کا انداز بیان کیا گیا۔ اب ہم یہ بیان کریں گے کہ رسولِ کریم ﷺ کی مبارک سیرت اور انداز سے ایسی کئی صورتوں کا پتا چلتا ہے کہ آپ ﷺ خود ایسا کلام یا عمل بھی فرماتے کہ نتیجۃ سامعین و ناظرین سوال کرتے اور اپنی علمی تشنگی کا اظہار کرتے جس پر رسولِ کریم ﷺ جواباً تربیت و تفہیم فرماتے، آئیے اس کی چند صورتیں ملاحظہ کرتے ہیں:

سامعین کو متجسس کرنے والا کلام فرمانا اور نتیجۃ سوالات ہونا اور آپ کا جواب دینا

کبھی ایسا ہوتا کہ رسول کریم ﷺ لوگوں کو جہنم کے کسی طبقے یا وادی کا ذکر فرماتے یا اس سے پناہ مانگنے کی تاکید فرماتے، اس طرح سامعین میں تجسس پیدا ہوجاتا کہ معلوم تو کریں کہ آخر وہ کونسا گناہ ہے جس کی اتنی سخت سزاہے؟ چنانچہ لوگ آپ کی بارگاہ میں سوال کرتے، سنن ابن ماجہ میں کہ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا:

تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ جُبِّ الحَزَنِ

’’جُبُّ الْحُزْن سے پناہ مانگو۔‘‘

نبی کریم ﷺ کے اس کلام مبارک کو سن کر لوگوں کو تجسس ہوا کہ آخر یہ کیا چیز ہے؟ چنانچہ اس کلام کے نتیجے میں سوال کیا گیا: یارسول اللہ! وَمَا جُبُّ الحَزَنِ؟ جُبُّ الْحُزْن کیا ہے؟

قارئین کرام سامعین کے ذہن میں کسی بات کو بہت مستقم کرنے کا یا ایک انداز ہوتا ہے جو رسولِ معلم ﷺ نے اپنایا، لوگ جب آپ ﷺ کے فرمان پر متجسس و متوجہ ہوئے اور سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:

وَادٍ فِي جَهَنَّمَ تَتَعَوَّذُ مِنْهُ جَهَنَّمُ كُلَّ يَوْمٍ مِائَةَ مَرَّةٍ

یہ جہنم کی ایک وادی ہے جس سے خود جہنم بھی دن میں چار سو مرتبہ پناہ مانگتا ہے۔

اس پر لوگوں نے مزید عرض کیا:یارسول اللہ!

وَمَنْ يَدْخُلُهُ؟ اس میں کون داخل ہوگا؟

ارشاد فرمایا:

الْقَرَّاءُونَ الْمُرَاءُونَ بِأَعْمَالِهِمْ

اس میں ان قراء (اہل علم) کو ڈالا جائے گا جو اپنے اعمال کی ریاکاری کرتے ہوں گے۔ (ابن ماجہ،کتاب السنۃ، باب الانتفاع بالعلم والعمل بہ،1/166، حدیث:255)

رسولِ کریم ﷺ نے ایک موقع پر نماز کی درست ادائیگی کی اہمیت دلانے کے لئے ارشاد فرمایا:

إِنَّ أَسْوَأَ النَّاسِ سَرِقَةً، الَّذِي يَسْرِقُ صَلَاتَهُ

سب سے بدتر چور وہ ہے جو اپنی نماز ميں چوری کرتا ہے؟

اب یہ ایک ایسی بات تھی کہ جس پر ہر کسی کی توجہ اٹھتی ہے، کیونکہ ہر وہ مسلمان جو نما ز ادا کرتاہے تو یقینا وہ جاننا چاہے گا کہ آخر نماز کی چوری کیا ہے؟ چنانچہ اس کلام کے نتیجے میں لوگوں نے عرض کیا: یارسول اللہ!

وَكَيْفَ يَسْرِقُهَا؟

کوئی شخص اپنی نماز ميں کس طرح چوری کرسکتا ہے؟

پیارے مصطفےٰ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لَا يُتِمُّ رُكُوعَهَا وَلَا سُجُودَهَا

وہ اس کے رکوع و سجود پورے نہيں کرتا۔(مسند احمد، مسند ابی سعید الخدری، جلد18، صفحہ90، حدیث:11532)

قارئین کرام غور کیجئے کہ رسولِ کریم ﷺ نے کس قدر مختصر اور بہت متوجہ کردینے والا کلام فرمایا کہ لوگوں کو تجسس ہوا اور پھر سوال کرکے ایسا جواب پایا جو کائنات میں آنے والے آخری مسلمان تک کے لئے نصیحت رہے گا۔

کسی عمل کو مقربین کے عمل سے تشبیہ دینا اور پھر سوال پر سمجھانا

حضوراکرم ﷺ کا ایک اندازِ تربیت یہ بھی تھا کہ کسی عمل کمی دیکھ کر اس کی درستی اور فائدہ سمجھانے کے لئے مقربین کا ذکر فرماتے، جب لوگ اس پر حصولِ توضیح کے لئے سوال عرض کرتے تو تربیت فرماتےجیسا کہ

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

أَلَا تَصُفُّونَ كَمَا تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟

تم لوگ ایسے صفیں کیوں نہیں بناتے جیسے فرشتے ربّ العزّت کی بارگاہ میں بناتے ہیں؟

قارئین کرام غور کیجئے کہ کیسابات کو دل کے اندر اتار دینے والا اندازِ تفہیم ہے، ایسے الفاظ ارشاد فرمائے کہ ہر بندہ مؤمن بارگاہِ الٰہی میں کھڑے ہونے کے انداز کے بارے میں جاننے کے لئے تڑپ اٹھے ، چنانچہ ایسا ہی ہوااور صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا:یارسول اللہ!

وَكَيْفَ تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟

فرشتے اپنے ربِّ کریم کی بارگاہ میں کیسے صفیں بناتے ہیں؟

ارشاد فرمایا:

يُتِمُّونَ الصُّفُوفَ الْأُوَلَ وَيَتَرَاصُّونَ فِي الصَّفِّ

وہ اگلی صفیں پوری کرتے ہیں اور صف میں مِل کر کھڑے ہوتے ہیں۔ (صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ ، باب الامر بالسکون فی الصلاۃ۔۔الخ، صفحہ181، حدیث:968{430})