اشاعتِ دین کا جذبہ رکھنے والی عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت پچھلے نگرانِ شعبہ مولانا مہروز عطاری مدنی نے دیگر ذمہ داران کے ہمراہ مردان شہر میں قاضی شمس صاحب سے عیادت کی۔

اس موقع پر مولانا مہروز عطاری مدنی نے انہیں اللہ پاک کی رضا پر راضی رہنے کا ذہن دیا اور اُن کی صحتیابی کے لئے دعا کروائی۔

بعدازاں نگرانِ شعبہ مولانا مہروز عطاری مدنی نے ذمہ داران کے ہمراہ حضرت جلال الدین بخاری اور ضامن شاہ بابا رحمہما اللہ کے مزار پر حاضری دی۔( کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

عاشقانِ رسول  کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام فیضانِ مدینہ سرگودھا میں ڈویژن ذمہ داران کے مدنی مشورے کا انعقاد ہوا جس میں ڈویژن ، ڈسٹرکٹ اور تحصیل نگران سمیت دیگر ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے شرکت کی ۔

نگران پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری نے 12 دینی کاموں کی کارکردگی کا جائزہ لیا اور سافٹ ویئر شیڈول کے بارے میں ذمہ داران کو بریفنگ دی ۔اس کے علاوہ مدنی مشورے میں ذمہ داران کی طرف سے کئے گئے سوالات کے جوابات دیئے اور دعوتِ اسلامی کے تحت ہونے والی اجتماعی قربانی کے انتظامات کے بارے میں نکات فراہم کئے ۔ ساتھ ہی دینی کاموں کے اخراجات کے لئے قربانی کی کھالیں جمع کرنے کا ذہن بھی دیا۔ (رپورٹ: عبدالخالق عطاری،کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری )


دعوتِ اسلامی کے زیرِا ہتمام 12 دینی کاموں کے سلسلے میں پچھلے دنوں ذمہ دار اسلامی بھائی مردان شہر، صوبہ خیبرپختونخوا کے دورے پر تھے۔

اس دوران ذمہ داران میں موجود نگرانِ شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ مولانا مہروز عطاری مدنی نے مردان میں واقع جامع مسجد بلال کی انتظامیہ سے ملاقات کی اور دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں کےحوالے سے گفتگو کی۔

بعد نمازِ ظہر سیکھنے سکھانے کا حلقہ لگایا گیا جس میں مولانا مہروز عطاری مدنی نے سنتوں بھرا بیان کیا اور وہاں موجود عاشقانِ رسول کی دینی و اخلاقی اعتبار سے تربیت کی۔( کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


مدنی مرکز فیضان مدینہ  فیصل آباد میں شعبہ مدرسۃالمدینہ بالغان کے ذمہ داران کی آن لائن میٹنگ منعقد ہوئی جس میں نگران مجلس اور دیگر ذمہ داران نے شرکت کی۔

نگرانِ پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری نے شعبہ مدرسۃُالمدینہ بالغان کی موجودہ کار کرگی کا جائزہ لیا اور قیمتی مدنی پھولوں سے نوازتے ہوئے اہداف دیئے۔(رپورٹ: عبدالخالق عطاری،کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری )


عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت گزشتہ روز مردان شہر، صوبہ خیبرپختونخوا میں نگرانِ شعبہ تقسیمِ رسائل سیّد محمد حسنین عطاری اور نگرانِ شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ مولانا مہروز عطاری مدنی کی تاجر اسلامی بھائیوں سے ملاقات ہوئی۔

اس دوران نگران اسلامی بھائیوں نے تاجران کو عالمی سطح پر ہونے والی دعوتِ اسلامی کی دینی و فلاحی خدمات کے بارے میں بریفنگ دی جس پر انہوں نے دعوتِ اسلامی کی کاوشوں کو سراہا۔بعدازاں تاجران کو دعوتِ اسلامی کا ماہنامہ فیضانِ مدینہ تحفے میں پیش کیا۔( کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


مردان شہر صوبہ خیبرپختونخوا میں ایک شخصیت اسلامی بھائی کے گھر پر دعوتِ اسلامی کے زیرِا ہتمام اجتماعِ میلاد کا انعقاد کیا گیا جس میں نگرانِ شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ مولانا مہروز عطاری مدنی نے سنتوں بھرا بیان کیا۔

دورانِ بیان مولانا مہروز عطاری مدنی نے دعوتِ اسلامی کے شعبہ جات کا تعارف کرواتے ہوئے دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کرنے کی ترغیب دلائی،مزید اُن کا کہنا تھا کہ دعوتِ اسلامی کا ماہنامہ فیضانِ مدینہ ہر گھر کی ضرورت اور اصلاح کا سامان ہے۔( کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


فیضانِ مدینہ  فیصل آباد میں نگران پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری نے شعبہ رابطہ برائے ایگریکلچر اینڈ لائیوا سٹاک کے ذمہ داران کا آن لائن مدنی مشور ہ لیا جس میں شعبے کے متعلقہ رکن شوریٰ ، نگران مجلس پاکستان اور صو بائی ذمہ داران نے شرکت کی ۔

اس مدنی مشورے میں نگرانِ پاکستان مشاورت نے سابقہ شعبے کی کار کردگی کا جائزہ لیا اور آئندہ کے لئے اہداف دیئے۔اس کے علا وہ ذمہ داران کی تقرری ، تین ماہ کی کارکردگی کا تقابلی جائزہ ، جدول رپورٹ کے مدنی پھولوں پر گفتگو ہوئی جس پر نگران پاکستان مشاورت نے قیمتی مدنی پھولوں سے نوازا۔(رپورٹ: عبدالخالق عطاری،کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری )


دینی کاموں کے سلسلے میں پچھلے دنوں دعوتِ اسلامی کے ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے صوبہ خیبرپختونخوا کے شہر مردان میں قائم جامعہ قادریہ کا وزٹ کیا جہاں اُن کی ملاقات استاذُالعلماء، امام المدرسین فضلِ سبحان صاحب سے ہوئی۔

اس موقع پر نگرانِ شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ مولانا مہروز عطاری مدنی نے فضلِ سبحان صاحب کو دعوتِ اسلامی کےدینی کاموں کے بارے میں بتایا نیز ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے حوالے سے چند اہم نکات پر مشاورت کی۔بعدازاں فضلِ سبحان صاحب نے دعوتِ اسلامی کے متعلق اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا اور دعائے خیر کروائی۔( کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

انبیائے کرام علیہم السّلام اللہ پاک کے خاص چنے ہوئے بندے ہیں جنہیں اللہ پاک نے اپنی مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اس دنیا میں بھیجا۔ یہ ہستیاں انتہائی اعلی اور عمدہ اوصاف کی مالک تھیں۔ ان پاک  نفوس قدسیہ میں سے ایک ہستی حضرت زکریا علیہ السّلام کی ہے جن کے اوصاف اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں بیان فرمائے۔ جن میں سے چند درج ذیل ہیں :۔

(1) حضرت زکریا علیہ السّلام نے اولاد کے لئے دعا مانگی تو وہ بھی پاکیزہ اولاد کی دعا مانگی۔ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِیَّا رَبَّهٗۚ-قَالَ رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةًۚ-اِنَّكَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِ(۳۸) ترجمۂ کنزالعرفان: وہیں زکریا نے اپنے رب سے دعا مانگی ،عرض کی :اے میرے رب! مجھے اپنی بارگاہ سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بیشک تو ہی دعا سننے والا ہے۔ (پ3، اٰلِ عمرٰن:38)

(2) اللہ پاک نے حضرت مریم رضی اللہ عنہا کی پرورش کے لئے آپ کا انتخاب فرمایا کیونکہ حضرت زکریا علیہ السّلام کے گھر حضرت مریم علیہا السّلام کی خالہ تھیں۔ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے : فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ وَّ اَنْۢبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًاۙ-وَّ كَفَّلَهَا زَكَرِیَّاؕ ترجمۂ کنزالایمان: تو اسے اس کے رب نے اچھی طرح قبول کیا اور اسے اچھا پروان چڑھایا اور اسے زکریا کی نگہبانی میں دیا ۔ (پ3، آلِ عمران:37)

(3) حضرت زکریا علیہ السّلام کا ایک وصف یہ بیان ہوا کہ اللہ پاک نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور انہیں سعادت مند فرزند حضرت یحییٰ علیہ السّلام عطا فرمایا اور حضرت زکریا علیہ السّلام کے لئے آپ کی زوجہ کو اتنی زیادہ عمر میں بھی اولاد کے قابل بنا دیا ۔( مدارک، الانبیآء، تحت الآیۃ: 90، ص725)

قراٰنِ پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ ترجمہ کنزالایمان: تو ہم نے اس کی دعا قبول کی۔(پ17، الانبیآ:90)

(4) آپ علیہ السّلام کا ایک وصف یہ ہے کہ آپ نے ایک تو نیک صالح بیٹے کی دعا مانگی اور دوسرا یہ کہ وہ دعا کرنا دین کے لیے تھا، نہ کہ کسی دُنْیَوی غرض کے لئے تھا۔

قراٰن کریم میں ہے: وَ اجْعَلْهُ رَبِّ رَضِیًّا(۶) ترجمہ کنزالایمان: اے میرے رب اسے پسندیدہ کر۔ (پ16،مریم:6)

(5) آپ علیہ السّلام کو جب بیٹے کی خوشخبری دی گئی تو اس کا نام یحییٰ بھی اللہ پاک نے خود عطا فرمایا۔ اور اس وقت اس نام کا کوئی دوسرا موجود نہ تھا ۔ یہ بھی آپ علیہ السّلام کا ایک وصف ہے کہ آپ کو بیٹا عطا کیا گیا اس وقت اس نام کا کوئی دوسرا نہ تھا۔ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: یٰزَكَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِ-ﹰاسْمُهٗ یَحْیٰىۙ-لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا(۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے زکریا! ہم تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہے ،اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی دوسرا نہ بنایا۔ (پ 16، مریم: 7)

(6)حضرت زکریا علیہ السّلام کا ایک وصف یہ ہے کہ آپ کو جو بیٹا عطا کیا گیا اس کے اوصاف بھی قراٰنِ پاک میں بیان فرمائے گئے۔ جیسا کہ قراٰنِ پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: فَنَادَتْهُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ هُوَ قَآىٕمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِۙ-اَنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰى مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۳۹) ترجمۂ کنزالایمان: تو فرشتوں نے اسے آواز دی اور وہ اپنی نماز کی جگہ کھڑا نماز پڑھ رہا تھا بیشک اللہ آپ کو مژدہ دیتا ہے یحییٰ کا جو اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق کرے گا اور سردار اور ہمیشہ کے لیے عورتوں سے بچنے والا اور نبی ہمارے خاصوں میں سے۔(پ3،آلِ عمرٰن:39)

اللہ پاک ہمیں حضرت زکریا علیہ السّلام کا فیضان نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


حضرت  زکریا علیہ السّلام اللہ پاک کے عظیم نبی تھے، آپ علیہ السّلام حضرت یحییٰ علیہ السّلام کے والد تھے اور اللہ پاک کی ولیہ، حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے خالو تھے۔ حضرت زکریا علیہ السّلام حضرت سلیمان علیہ السّلام کی اولاد میں سے تھے۔

حضرت زکریا علیہ السّلام کی صفات کابیان قراٰنِ پاک کے پارہ 17، سورہ الانبیاء کی ایت نمبر 90میں اس طرح ہوا ہے۔

(1)نیکیوں میں جلدی کرنے والے:اللہ پاک نے حضرت زکریا علیہ السّلام کی اس صفت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ٘-وَ وَهَبْنَا لَهٗ یَحْیٰى وَ اَصْلَحْنَا لَهٗ زَوْجَهٗؕ-اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے یحییٰ عطا فرمایا اور اس کے لیے اس کی بیوی کو قابل بنا دیا۔ بیشک وہ نیکیوں میں جلدی کرتے تھے ۔(پ17، الانبیآ:90)

اس آیت میں اللہ پاک نے حضرت زکریا علیہ السّلام کا نیکیوں میں جلدی کرنا بیان کیا گیا ہے۔ مسلم شریف کی حدیث پاک میں نیکیوں میں جلدی کرنے کے بارے حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: (نیک)اعمال میں جلدی کرو، ان فتنوں سے پہلے جو اندھیری رات کے حصوں کی طرح ہوں گے۔ آدمی صبح مؤمن ہوگا، شام کو کافر ہو جائے گا اور شام کو مؤمن ہوگا تو صبح کافر ہو جائے گا ۔ (مسلم، کتاب الایمان)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السّلام کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے ہمیں بھی نیکیوں میں جلدی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین

(2)امید اور خوف کے درمیان رہتے: اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کی اس خوبی کو قراٰنِ پاک میں اس طرح بیان کیا ہے: وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًاؕ-وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ(۹۰) اور ہمیں بڑی رغبت سے اور بڑے ڈر سے پکارتے تھے اور ہمارے حضور دل سے جھکنے والے تھے۔(پ17، الانبیآ:90)

اس آیت میں اللہ پاک نے حضرت زکریا علیہ السّلام کا ایک اور وصف بیان کیا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السّلام اللہ پاک کی رحمت سے امید بھی رکھتے تھے اور اللہ پاک کا خوف بھی رکھتے تھے۔ بخاری کی حدیث پاک میں حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اللہ پاک کی رحمت اور اللہ پاک کے خوف کے بارے میں ارشاد فرمایا: جس روز اللہ پاک نے رحمت کو پیدا فرمایا تو اس کے سو حصے کئے اور 99حصے اپنے پاس رکھ کر ایک حصہ مخلوق کے لئے بھیج دیا ۔ اگر کافر بھی یہ جان لے کہ اللہ پاک کے پاس کتنی رحمت ہے تو وہ بھی جنت سے مایوس نہ ہو اور اگر مومن یہ جان جائے کہ اس کے پاس کتنا عذاب ہے تو جہنم سے وہ بھی بے خوف نہ ہو۔(بخاری، کتاب الرقاق، باب الرجاء مع الخوف، 4/239،حدیث: 6469)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السّلام کے اس وصف پر بھی ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمایا۔ اٰمین

(3)اللہ کی بارگاہ میں دل سے جھکنے والے: اللہ پاک نے حضرت زکریا علیہ السّلام کے اس وصف کا بیان سورۃُ الانبیاء میں اس طرح ارشاد فرمایا: وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ(۹۰) اور ہمارے حضور دل سے جھکنے والے تھے۔(پ17، الانبیآء:90)

اللہ پاک ہمیں حضرت زکریا علیہ السّلام کی ان اوصاف پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


الله پاک نے انبیائے کرام علیہم السّلام کو دنیا میں اپنے ایک ہونے و دیگر ضروری احکام سے آگاہ کرنے اور ہدایت کا راستہ دکھانے کے لئے بھیجا تاکہ انبیائے کرام الله پاک کی طرف سے نازل شدہ کتاب یا احکام و وحی کے ذریعے لوگوں کو درست و حق راہ کی رہنمائی کریں، بہر کیف انبیائے کرام علیہم السّلام کے حوالے سے یہ عقائد رکھنا ہم پر لازم ہے کہ وہ گناہ سے پاک و معصوم ہوتے ہیں، غیب و پوشیدہ چیزوں کا علم رکھتے ہیں ،الله پاک کی عطا سے بہت سارے اختیارات رکھتے ہیں وغیرہ، یاد رہے الله پاک نے بعض انبیائے کرام کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی (جیسے کہ ہمارے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو) جیسا کہ الله پاک ارشاد فرماتا ہے: تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍۘ- ترجَمۂ کنزُالایمان: یہ رسو ل ہیں کہ ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر افضل کیا ۔( پ3، البقرۃ : 253 )

یہاں حضرت زکریا علیہ السلام کے کچھ اوصاف ذکر کئے جا رہے ہیں:

اوصاف :

(1) نیکیوں میں جلدی کرنا : حضرت زکریا علیہ السّلام کے اوصاف میں سے یہ ہے کہ آپ نیکیوں میں جلدی کرنے والے ، اللہ پاک کو بڑی رغبت اور بڑے ڈر سے پکارنے والے اور اللہ پاک کے حضور دل سے جھکنے والے تھے۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے: اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًاؕ-وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ(۹۰) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ نیکیوں میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں بڑی رغبت سے اور بڑے ڈر سے پکارتے تھے اور ہمارے حضور دل سے جھکنے والے تھے۔ (پ17، الانبیآ:90)

(2)خاص انبیائے کرام میں شامل کرنا :آپ کے اوصاف میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے آپ کو بطورِ خاص ان انبیائے کرام کے گروہ میں نام کے ساتھ ذکر کیا جنہیں اللہ کریم نے نعمت ہدایت سے نوازا، صالحین میں شمار فرمایا اور جنہیں ان کے زمانے میں سب جہان والوں سے فضیلت عطا کی ۔جیسا کہ ارشاد باری ہے: وَ زَكَرِیَّا وَ یَحْیٰى وَ عِیْسٰى وَ اِلْیَاسَؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَۙ(۸۵) وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ(۸۶) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو (ہدایت یافتہ بنایا) یہ سب ہمارے خاص بندوں میں سے ہیں۔ اور اسماعیل اور یَسَع اور یونس اور لوط کو (ہدایت دی)اور ہم نے سب کو تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔ (پ 7 ،الانعام:86،85)

(3)دعا کا قبول ہونا :آپ علیہ السّلام کے اوصاف میں سے یہ بھی ہے کہ جب آپ نے اپنے رب سے بیٹے کی دعا مانگی تو اللہ پاک نے اسے قبول فرمایا اور آپ علیہ السّلام کی زوجہ کا بانجھ پن ختم کرکے انہیں اولاد پیدا کرنے کے قابل بنادیا اور آپ علیہ السّلام کو سعادت مند اولاد حضرت یحییٰ علیہ السّلام عطا فرمایا۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے: وَ زَكَرِیَّاۤ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَۚۖ(۸۹) فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ٘-وَ وَهَبْنَا لَهٗ یَحْیٰى وَ اَصْلَحْنَا لَهٗ زَوْجَهٗؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور زکریا کو (یاد کرو) جب اس نے اپنے رب کو پکارا ، اے میرے رب! مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو سب سے بہتر وارث ہے۔ تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے یحییٰ عطا فرمایا اور اس کے لیے اس کی بیوی کو قابل بنا دیا۔(پ17، الانبیآ:90،89)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں انبیائے کرام علیہم السّلام کی سیرت اپنانے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین


اللہ پاک امر کن کا مالک ہے، لیکن قانونِ الٰہی اور سنت الٰہی یہ ہے کہ جب بھی کسی قوم کو اللہ پاک نے ہدایت دینے کا ارادہ فرمایا تو نبی علیہ السّلام کو اس قوم میں مبعوث فرمایا، جس نے نبی علیہ السّلام کی پیروی کی وہ مفلحون (کامیاب لوگوں) میں داخل ہو گیا اور جس نے ان کی مخالفت کی، ان کے ساتھ استھزاء(مزاق) کیا، تو وہ خائب و خاسر ہوا اللہ کے غضب میں داخل ہوا،  اس سلسلے کو اللہ پاک نے امام الانبیاء، خاتم الانبیاء، محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر تمام فرما دیا اب کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔

انبیائے کرام کے ذکر سے روح کو تازگی، قلب کو فرحت، اور عمل کا جزبہ ملتا ہے۔ انبیائے کرام وہ مبارک ہستیاں ہیں کہ جن کی زندگی کا ہر ہر پہلو نوع انسانی کے لیے مشعل راہ ہے، انہی ہستیوں میں سے ایک اللہ پاک کے برگزیدہ نبی حضرت زکریا علیہ السّلام کے مختلف اوصاف کے بارے میں جانتے ہیں۔

نام و نسب: آپ کا نام زکریا، کنیت ابو یحییٰ ہے، اور آپ کا سلسلہ نسب حضرت سیدنا داؤد علیہ الصلاۃ و السّلام سے جا ملتا ہے۔ (البدایہ والنہایہ،1/ 500)

اوصاف:اللہ پاک نے قراٰن مجید، برھان رشید میں آپ کے مختلف اوصاف حمیدہ کو ذکر فرمایا ہے ،آپ انتہائی پرہیزگار، اللہ کو بہت رغبت و ڈر سے پکارنے والے، نیکیوں میں جلدی کرنے والے، اپنے ہاتھ سے کما کر کھانے والے، اللہ کے حضور دل سے جھکنے والے ، حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے کفیل اور حضرت یحییٰ علیہ السّلام کے والد تھے۔

اللہ رب العزت فرماتا ہے: اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًاؕ-وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ(۹۰) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ نیکیوں میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں بڑی رغبت سے اور بڑے ڈر سے پکارتے تھے اور ہمارے حضور دل سے جھکنے والے تھے۔ (پ17، الانبیآ:90)

اس کی تفسیر میں علامہ خازن فرماتے ہیں: نیکیوں میں جلدی کرنا ان عظیم امور میں سے ہے، جس کی وجہ سے بندے کی تعریف و توصیف کی جائے، کیوں کہ یہ وصف اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ بندہ اللہ کی اطاعت کرنے میں بڑا حریص ہے۔ (تفسیر خازن سورۃ الانبیاء تحت الایۃ)

حضرت مریم کی کفالت: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْكَؕ-وَ مَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلَامَهُمْ اَیُّهُمْ یَكْفُلُ مَرْیَمَ۪-وَ مَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ(۴۴) ترجمۂ کنزالعرفان: یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم خفیہ طور پر تمہیں بتاتے ہیں اور تم ان کے پاس موجود نہ تھے جب وہ اپنی قلموں سے قرعہ ڈالتے تھے کہ ان میں کون مریم کی پرورش کرے گا اور تم ان کے پاس نہ تھے جب وہ جھگڑ رہے تھے۔(پ3،آل عمرٰن:44)

اس کی تفسیر میں امام فخرالدین رازی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: سب نے اپنی اپنی قلم پانی میں ڈالی تو حضرت زکریا علیہ السّلام کا قلم الٹی طرف بہنا شروع ہو گیا اس طرح حضرت مریم رضی اللہُ عنہا آپ علیہ السّلام کی کفالت میں آگئیں۔(تفسیر کبیر، اٰل عمران، تحت الآیۃ: 44 ، 3 / 219)

آپ نے حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے لیے بیت المقدس میں ایک کمرہ خاص کر دیا تھا جس میں آپ کے علاوہ کوئی نہیں آتا جاتا تھا۔ جب آپ آتے تو حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے پاس بے موسم پھل دیکھتے!! آپ نے حضرت مریم سے ایک روز پوچھ لیا: یٰمَرْیَمُ اَنّٰى لَكِ هٰذَاؕ یعنی اے مریم! یہ تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے؟ تو حضرت مریم نے عرض کی: هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِؕ (پ 3 ، آل عمران : 37)

اللہ کی جناب میں فرزند کی دعا کرنا: آپ نے جب حضرت مریم رضی اللہ عنہا پر اللہ پاک کی یہ نوازشات دیکھیں، تو انتہائی عاجزی کے ساتھ ربِ رزاق کی بارگاہ میں عرض کی: هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِیَّا رَبَّهٗۚ-قَالَ رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةًۚ-اِنَّكَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِ(۳۸) ترجمۂ کنزالعرفان: وہیں زکریا نے اپنے رب سے دعا مانگی ،عرض کی :اے میرے رب! مجھے اپنی بارگاہ سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بیشک تو ہی دعا سننے والا ہے۔ (پ3، آلِ عمران:38)

اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں: نمبر ایک جب بھی اللہ کی بارگاہ میں اولاد کی دعا کریں تو صرف اولاد کی نہیں، پاکیزہ، نیک اولاد کی دعا کی جائے۔

نمبر دو اللہ کی بارگاہ میں جب بھی دعا کی جائے تو اس یقین کے ساتھ کی جائے کہ وہ رب کریم میری دعا کو ضرور قبول فرمائے گا زکریا علیہ السّلام کا یہ قول اس بات پر دلالت کر رہا ہے۔ "بیشک تو ہی دعا سننے والا ہے"۔

حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی بشارت: آپ کی دعا اللہ پاک نے قبول فرمائی اور آپ کو نا صرف فرزند عطا فرمایا بلکہ انہیں اپنا برگزیدہ نبی بھی بنایا، ارشاد فرماتا ہے: یٰزَكَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِ-ﹰاسْمُهٗ یَحْیٰىۙ-لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا(۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے زکریا! ہم تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحیٰ ہے ،اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی دوسرا نہ بنایا۔ (پ 16، مریم: 7)

حضرت زکریا علیہ السّلام کے اوصافِ حمیدہ میں ایک وصف بڑا نمایاں ہے؛ اللہ پاک کی بارگاہ میں انتہائی عاجزی و انکساری کے ساتھ دعا کرنا۔ عرض کرتے ہیں وَّ لَمْ اَكُنْۢ بِدُعَآىٕكَ رَبِّ شَقِیًّا(۴) یعنی، اے میرے رب! میں تجھے پکار کر کبھی محروم نہیں رہا۔

یقیناً جب بندہ اپنے رب کی بارگاہ میں اس یقین و عاجزی کے ساتھ دعا کرتا ہے، "کہ مولا! میں کمزور ہوں مگر تو قادر ہے رزاق ہے تیرے لیے تو بس اتنا کہنا ہے "ہوجا" تو میری تمام مشکلیں پریشانیاں پل بھر میں حل ہو جائیں گی" تو ضرور کرم ہوگا۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہماری تمام حاجات پر اپنے پارے نبی زکریا علیہ السّلام کے صدقے میں رحمت کی نظر فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم