اسلام میں کسی انسانی جان کی حرمت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک فرد کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’جو کوئی کسی کو قتل کرے جبکہ یہ قتل نہ کسی اور جان کا بدلہ لینے کیلئے ہو اور نہ کسی کے زمین میں فساد پھیلانے کی وجہ سے ہو، تو یہ ایسا ہے، جیسے اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا، اور جو شخص کسی کی جان بچالے، تو یہ ایسا ہے، جیسے اس نے تمام انسانوں کی جان بچالی‘‘(سورۃ المائدہ: 32)

یعنی ایک شخص کے خلاف قتل کا یہ جرم پوری انسانیت کے خلاف جرم ہے، کیونکہ کوئی شخص قتلِ ناحق کا ارتکاب اسی وقت کرتا ہے، جب اس کے دل سے انسان کی حرمت کا احساس مٹ جائے، ایسی صورت میں اگر اس کے مفاد یا سرشت کا تقاضا ہوگا تو وہ کسی اور کو بھی قتل کرنے سے دریغ نہیں کرے گا اور اس طرح پوری انسانیت اس کی مجرمانہ ذہنیت کی زد میں رہے گی۔

اسلامی تعلیمات کی رو سے انسانی جان کو ہمیشہ عزت و حرمت حاصل رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ کسی انسان کا ناحق قتل کرنا کفر کے بعد کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑا گناہ ہے، اس پر قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’ قتل ناحق کی سزا جہنم ہے‘‘، دوسری جگہ فرمان ربانی ہے ’’اور جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اللہ اس پر غضب نازل کرے گا اور لعنت بھیجے گا اور اللہ نے اس کیلئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘(سورۃالنسا ء :93)۔

قتل کن صورتوں میں جائز: شریعت نے صرف تین صورتوں میں قتل کو جائز قرار دیا ہے، (1) قتل کے بدلے قتل یعنیٰ قصاص، (2) شادی شدہ مرد یا عورت اگر زنا کرے تو حد قائم کرنے کی صورت میں انہیں رجم کر کے مار ڈالنا، (3) ارتداد کے جرم میں قتل کرنا۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو مسلمان شخص یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں تو اس کا خون (یعنی قتل کرنا) فقط تین صورتوں کی وجہ سے حلال ہے، جان کے بدلے جان (قاتل کو قتل کرنا)، شادی شدہ زانی اور دین سے مرتد ہو کر جماعت چھوڑنے والا‘‘(صحیح البخاری 6878)۔ ان تینوں صورتوں کے علاوہ جو بھی قتل ہوگا وہ قتل ناحق اور فساد فی الارض کے ضمن میں آئے گا۔

روز قیامت سب سے پہلے خون کا حساب: حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روز قیامت لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خونوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا (صحیح البخاری: 6533، صحیح مسلم: 1678)

انسانی خون کی حرمت: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہی ہے جو گناہوں اور برائیوں کو چھوڑ دے‘‘(صحیح البخاری : 6484)۔

ایک مومن کی حرمت کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ ہے، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا : اے کعبہ تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے، مومن کے جان و مال کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے‘‘ (صحیح الترغیب 2339)مقتول قاتل کوعرش تک لے جائے گا

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:روزِ قیامت مقتول قاتل کو لے کر آئے گا اس(قاتل)کی پیشانی اور اس کا سر مقتول کے ہاتھ میں ہوگا اور اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا، وہ کہے گا : اے میرے رب! اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ حتیٰ کہ وہ اسے عرش کے قریب لے جائے گا(صحیح الترمذی 3029)۔

قاتل کا کوئی عمل قبول نہیں: حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو کسی مومن کو ناحق قتل کرے، پھر اس پر خوش بھی ہو تو اللہ اس کا کوئی عمل قبول نہ فرمائے گا نہ نفل اور نہ فرض‘‘ (سنن ابی داؤد: 4270)

مومن کو قتل کرنیوالے کی بخشش نہیں: حضرت ابودرداؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :امید ہے کہ اللہ ہر گناہ معاف فرما دے سوائے اس شخص کے جو حالت شرک میں فوت ہوگیا ہو یا جس نے عمدا ًکسی مومن کو قتل کیا ہو‘‘(سنن ابی دائود)۔

اسلحے سے اشارہ کرنے سے ممانعت: فولادی اور آتشیں اسلحہ سے لوگوں کو قتل کرنا تو بہت بڑا اِقدام ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ اِسلام کو اپنے مسلمان بھائی کی طرف اسلحہ سے محض اشارہ کرنے والے کو بھی ملعون و مردود قرار دیا ہے۔

حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے، تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگا دے اور وہ(قتل ناحق کے نتیجے میں) جہنم کے گڑھے میں جا گرے (صحیح البخاری: 7072)۔

حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص نیزے سے اپنے بھائی کی طرف اشارہ کرے، فرشتے اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں، حتی کہ وہ اسے رکھ دے (صحیح مسلم 2616)۔

اسلحے کی نمائش کی ممانعت: رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دوسرے پر اسلحہ تاننے سے ہی نہیں بلکہ عمومی حالات میں اسلحہ کی نمائش کو بھی ممنوع قرار دیا، حضرت جابرؓ سے روایت ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ننگی تلوار لینے دینے سے منع فرمایا(صحیح الترمذی: 2163)

جب اسلحہ کی نمائش، دکھاوا اور دوسروں کی طرف اس سے اشارہ کرنا سخت منع ہے تو اس کے بل بوتے پر ایک مسلم ریاست کے نظم اور اتھارٹی کو چیلنج کرتے ہوئے آتشیں گولہ و بارود سے مخلوقِ خدا کے جان و مال کو تلف کرنا کتنا بڑا گناہ اور ظلم ہوگا۔حجۃ الوداع کا پیغام

حضرت جریر بن عبد اللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ کر کافر نہ بن جانا (صحیح البخاری: 7080)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدانِ عرفات میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: بلا شبہ تمہارے خون اور تمہارے مال آپس میں ایک دوسرے پر حرام ہیں، جیسا کہ آج کے دن کی بے حرمتی تمہارے اس مہینے میں، تمہارے اس شہر میں حرام ہے (صحیح البخاری : 1739)۔

مومن کا قتل پوری دنیا کی تباہی سے بھی ہولناک: حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! البتہ مومن کا (ناحق) قتل اللہ تعالیٰ کے ہاں ساری دنیا کی تباہی سے زیادہ ہولناک ہے (صحیح النسائی: 3997)۔

ایک مومن کے مقابلے میں ساری دنیا معمولی چیز: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک پوری دنیا کا زوال و تباہی ایک مسلمان کے قتل سے کم تر ہے، یعنی ساری دنیا تباہ ہو جائے، یہ اللہ کے ہاں چھوٹا عمل ہے بہ نسبت اس کے کہ ایک مسلمان کو قتل کیا جائے‘‘(صحیح الترمذی : 1395)

ناحق خون میں شامل سب لوگ جہنم میں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد نے فرمایا: ’’اگر تمام آسمان اور زمین والے ایک مومن کے خون میں شریک ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں ڈال دے گا‘‘(صحیح الترمذی : 139)

قارئین کرام !قرآن وحدیث کی روشنی سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کو قتل کرنا شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے اور قاتل کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ایک طویل عرصہ تک رہے گا، اللہ تعالیٰ نے قاتل کیلئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے لہٰذا ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ قتل جیسے کبیرہ گناہ سے ہمیشہ بچے۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


قرآن و حدیث میں قتل ناحق کی مذمت بار بار آئی ھے۔کسی کام کے منع کرنے کا بار بار ذکر ہونا اس چیز کی اہمیت کو اجاگر کرتا ھے کہ اس چیز کو نا کرنے کی کتنی زیادہ تاکید ھے جیسے کہ ماقبل میں قتل ناحق کی مذمت کا ذکر ہوا۔

یہ بات اظھر من الشمس ھے کہ قرآن و حدیث میں قتل نا حق کی کتنی زیادہ مذمت آئی ھے اور کتنی تاکید کیساتھ منع کیا گیا ھے کہ قتل نا حق سے بچتے رہنا چاہیے لیکن جو ہمارا آج کا عنوان ھے وہ ھے قتل نا حق کی مذمت احادیث مبارکہ کی روشنی میں ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع کردے چاہے وہ احکامات قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں یا وہ احکامات احادیث مبارکہ میں بیان ہوئے ۔

بحیثیت مسلمان ہم سب کو چاہیے کہ ہم مسلمانوں بھائیوں کے تمام حقوق کا خیال رکھیں بالخصوص مسلمان کی جان کے معاملے میں ہمیں محتاط رہنا چاہیے کہ کہیں خدانخواستہ انجانے میں ہم کسی بھی مسلمان کے خون بہانے میں ملوث نا ہوجایے ہم اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ھیں

اس دنیا میں سب سے پہلے قتل کی ابتداء انسان نے کی کہ جب قابیل نے حضرت ہابیل علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنے والد محترم حضرت آدم علیہ السلام کے حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے قتل کیا اور یہ بدبختی قابیل کے کھاتے میں آئی کہ حدیث مبارکہ میں یہ بات بیان کی گئی ھے کہ جس کا مفہوم یہ ھے کہ قیامت تک جو شخص کسی دوسرے شخص کو نا حق قتل کرے گا تو اس کے قتل کا گناہ بھی قابیل کے نامعہ اعمال میں لکھا جائے گا کہ اس نے سب سے پہلے انسان کے قتل کی ابتداء کی ۔

حدیث پاک ھے کہ آقا کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان بزبان حضرت ابو ھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ "جس شخص نے کسی مسلمان کے قتل میں آدھے کلمے سے بھی اعانت کی وہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس حال میں آئے گا کہ اس کی پیشانی میں لکھا ہوگا کہ یہ شخص اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ھے ''( بحوالہ سنن ابن ماجہ جلد نمبر 2 ص 874 باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلما )

دیکھا آپ نے حدیث پاک میں!حدیث پاک میں قتل نا حق کی مذمت کس طرح بیان کی گئی کہ آدھے کلمے سے بھی جس نے قتل کے معاملے میں مدد کی اللہ تعالیٰ اس کی پیشانی میں لکھے گا کہ یہ شخص اللہ کی رحمت سے محروم ھے

ایک تو اسے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دھتکار دیا جائے گا دوسرا اس کو سب کے سامنے سخت رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا اور غضب الٰہی کی یہ صورت رسوائی ہی رسوائی ھوگی ہم۔اللہ تعالیٰ کی اس کے غصب سے پناہ مانگتے ہیں۔

کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا بروز قیامت بڑے خسارے کا شکار ہوگا فرمان مصطفے صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم بزبان سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ "زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل ہونے پر جمع ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے گا"(بحوالہ معجم الصغیر جلد اول ص 205)

مسلمانوں کے آپس میں قتل ناحق کرنے کے بارے میں وعیدیں ہمیں قرآن و حدیث میں کثیر مقامات پر ملتی ھیں کہ مزکورہ حدیث میں یہ بات گزری ھے کہ اگر سارے بندے بھی ایک مسلمان کے قتل کرنے پر جمع ہو جائیں تو اس کے عوض اللہ تعالیٰ تمام بندوں کو جہنم میں داخل فرمادے تو بھی اللہ تعالی کو کوئی پرواہ نھیں

اس سے ہمیں قتل ناحق کے مذموم ہونے کے بارے میں بات معلوم ہوئی کہ قتل نا حق اللہ تعالیٰ انتہائی ناپسند ھے۔ سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ھے کہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کا فرمان عالیشان ھے ''کہ جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے'' راوی فرماتے ھیں کہ میں نے عرض کی ” مقتول جہنم میں کیوں جائے گا فرمایا اس لیے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پر مصر تھا (بحوالہ بخاری شریف کتاب الایمان جلد اول ص نمبر 23 حدیث 31)

پیارے آقا کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے کئی فرمان مروی ھیں

چنانچہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ و سلم کا فرمان عالیشان ھے کہ جس نے غیر مسلم شہری یعنی معاھد کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک محسوس ہوتی ھے بحوالہ۔بخاری شریف کتاب الجزیہ

ایک اور جگہ فرمان مصطفے صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ھے کہ ''جس کسی معاہد کو قتل نا حق کیا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام فرمادے گا''( بحوالہ سنن نسائی کتاب القسامۃ حدیث نمبر 474)

دین اسلام کا یہ حسن ھے کہ اس نے مسلمانوں اور غیر مسلم کو عدل و انصاف کیساتھ حقوق مہیا کیے ہیں اور عملی طور پر انھیں اس پر عمل کرکے بھی سمجھادیا ھے

اللہ تعالیٰ ہمیں قتل ناحق سے بچائے آمین ثم آمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


ہمارے معاشرے میں جس طرح بہت سارے گناہ ناسور کی طرح بڑھتے جارہے ہیں انہی میں سے ایک مسلمان کا خون سستا ہوجانا ہے۔ خون مسلم کی حیثیت ظالموں کے نزدیک کتے جتنی نہ رہی۔ یاد رکھئے ایسے بگڑے ہوئے لوگوں کو اگر مقتول کی طرف سےمعافی نہ ملی تو قیامت کے دن ایسوں کو سخت ترین سزا ملےگی۔ جان بوجھ کر مسلمان کو ناحق قتل کرنا سخت ترین کبیرہ گناہوں میں سے ہے اور عذاب جہنم کو واجب کرتا ہے۔ اب اس کی مذمت احادیث سے سنئے۔

قتل ناحق وہ سخت ترین کبیرہ گناہ اور بدترین جرم ہے جو بندہ مومن کو تھکادیتا ہے اور اس کے بعد بندہ مومن بھلائی کی توفیق سےمحروم ہوجاتا ہے۔ سنن ابوداؤد میں ہے: "عن أبي الدرداء، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا يزال المؤمن معنقا صالحا، ما لم يصب دما حراما، فإذا أصاب دما حراما بلح»" ترجمہ: حضرت ابو درداء رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲصلَّی اﷲتعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا کہمومن تیز رواور صالح رہتا ہے جب تک حرام خون نہ کر لے اور جب حرام خون کر لیتا ہے تو اب وہ تھک جاتا ہے۔(سنن ابوداؤد، جلد4،صفحہ104، حدیث4270)

دوسری حدیث میں فرمایا: "عن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لن يزال المؤمن في فسحة من دينه ما لم يصب دما حراما»"ترجمہ: بندہ مومن اپنے دین کی وسعت میں رہےگا جب تک خون ناحق کا ارتکاب نہ کرلے۔ (مشکاۃ المصابیح مع مرقاۃ المفاتیح، جلد6، صفحہ2259، حدیث3447)

مسلمانو! قسم بخدا قتل مسلم بہت بھاری گناہ ہے یہاں تک کہ حدیث میں ساری دنیا کا مٹ جانا قتل مسلم سے ہلکا قرار دیا گیا۔ چنانچہ ترمذی شریف میں ہے: عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " «لزوال الدنيا أهون على الله من قتل رجل مسلم» " ترجمہ: حضرت عبداﷲ ابن عمرو سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ دنیا کا مٹ جانا اﷲ کے ہاں آسان ہے مسلمان آدمی کے قتل سے۔ (جامع الترمذی، جلد4، صفحہ16، حدیث1395)

قتل نا حق کی اہمیت دیکھئے کہ قیامت کے دن لوگوں میں سے سے پہلے اسی کا فیصلہ کیا جائےگا۔ چنانچہ مشکاۃ المصابیح میں ہے: "عن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أول ما يقضى بين الناس يوم القيامة في الدماء"ترجمہ: حضرت عبداﷲ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے خونوں کا فیصلہ کیا جاوے گا۔ (مشکاۃ المصابیح، جلد6، صفحہ2259، حدیث3448)

اللہ اکبر! مسلمانو! مسلمان کا قتل تو بڑی چیز ہے، اسلام تو ذمی کافرکے قتل کو بھی حرام قرار دیتا ہے اور حدیث میں اس کے متعلق فرمایا:چنانچہ بحوالہ بخاری مشکاۃ المصابیح میں ہے: ” عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قتل معاهدا لم يرح رائحة الجنة وإن ريحها توجد من مسيرة أربعين خريفا»“ترجمہ: حضرت عبداﷲ ابن عمرورضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جوکسی عہد و پیمان والے کو قتل کردے وہ جنت کی خوشبو نہ پائے گا حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کی راہ سے محسوس کی جاتی ہے۔(مشکاۃ المصابیح، جلد6، صفحہ2261، حدیث3452)

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ امت حبیب صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو دین حبیب کی طرف لائے تاکہ وہ آئی ہوئی ذلتوں سے نجات پاکر کھوئی ہوئی عزتوں سے ہمکنار ہوں اور پھر وہی عروج انہیں ملے جو زمانہ خیر القرون میں انہیں نصیب تھا۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللہ پاک نے ہمیں پیدا فرمایا اور ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا اور اس کے بعد مزید احسان یہ فرمایا کہ ھمیں مسلمان بنایا پھر اللہ پاک نے ھمیں اپنی رضا والے کام کرنے کا حکم دیا اور اپنی ناراضگی والے کاموں سے منع فرمایا۔ ان ممنوعہ افعال میں سے ایک قتل ناحق بھی ہے چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّا خَطَــٴًـا ترجمہ کنز العرفان : اور کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ کسی مسلمان کو قتل کرے مگر یہ کہ غلطی سے ہوجائے (پارہ 5, سورہ نسا6 آیت نمبر 92)

یاد رہے کسی مسلمان کو جان بوجھ کر ناحق قتل کرنا سخت کبیرہ گناہ ہے (ظاھری گناہوں کی معلومات صفحہ 78)

کسی مسلمان کو جان بوجھ کر ناحق قتل کرنا جہنم میں لمبے عرصے تک عذاب عظیم, اللہ پاک کے شدید غضب اور اللہ پاک کی لعنت کا موجب ہے چنانچہ فرمان باری تعالی ہے : وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا ترجمہ کنز العرفان : اور جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردے تو اس کا بدلہ جہنم ہے عرصہ دراز تک اس میں رہے گا اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔(پارہ 5, سورہ نسا6 آیت نمبر 93)

اس آیت مبارکہ سے واضح طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ اللہ پاک کو قتل ناحق کتنا سخت ناپسند ہے جس طرح قرآن پاک میں قتل ناحق کی ممانعت آٸی اسی طرح احادیث کریمہ میں بھی قتل نا حق کی مذمت وارد ہوٸی ہے اس متعلق چار فرامین مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھیے :

1- کبیرہ گناہ بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو (ناحق) قتل کرنا ہے (بخاری,کتاب الدیات, باب قول اللہ تعالی ومن احیاھا,358/4,حدیث 6871)

2- اوندھے منھ جھنم میں : اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل میں شریک ہو جاٸیں تو اللہ تعالی سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے ۔ (ترمذی,کتاب الدیات ,باب الحکم فی الدما6 ,100/3 ,حدیث 1403)

3 -اللہ کی رحمت سے مایوس : جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ پاک کی بارگاہ میں اس حال میں آۓ گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا "یہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہے" (ابن ماجہ , کتاب الدیات , باب التغلیظ فی من قتل--- , 262/3 , حدیث 2620) *

4- ناقابل تلافی گناہ : ممکن ہے کہ اللہ پاک ہر گناہ بخش دے سواۓ اس گناہ کے کہ آدمی جان بوجھ کر مومن کو قتل کرے یا وہ شخص جو کافر ہو کر مرے (الترغیب و الترھیب, کتاب الحدود و غیرھا , الترھیب من قتل النفس --- , 295/3 )

کسی بھی برائی سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کے اسباب سے بچاٶ کرلیا جاۓ آٸیے قتل ناحق کے کچھ اسباب جانتے ہیں تاکہ ھم اس گناہ سے بچ سکیں قتل ناحق کے اسباب کسی ناکامی پر شدید غم و غصہ , گھریلو ناچاقیاں ,جاٸیداد کے جھگڑے , مال و دولت کی حرص اور تکبر ہیں

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ھمیں اپنی رضا والے کام کرنے اور اپنی ناراضگی کے کاموں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


ہمارے درمیان بڑھتی ہوئی بے حیائی اور علم دین سے دوری کے سبب جس طرح باطنی گناہ عروج پار ہے ہیں اسی طرح ظاھری گناہںوں میں سے قتل نا حق بڑھتا جا رہا ہے جو ہمیں دشمنی کی طرف دھکیل دیتا ہے جیسا کہ اللہ کریم نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا جس نے زمین میں فساد برپا کرنے کے لیے بغیر کسی جان کے قتل کیا گویہ اس نے سب لوگوں کو قتل کیا ( سورہ مائدہ آیت نمبر 32 )

یہ آیت مبارکہ اسلام کی اصل تعلیمات کو واضح کرتی ہے کہ اسلام کس قدر امن و سلامتی کا مذھب ہے ( صراط الجنان مائدہ تحت آیت 32)

قتل ناحق کی مذمت احادیث طیبہ کی روشنی میں : آئیں کچھ احادیث کریمہ کی روشنی میں قتل نا حق کی مذمت پڑھتے ہیں کئی ایک احادیث میں قتل نا حق کی مذمت بیان کی گئی ہیں جن میں 5 کو ہم یہاں ذکر کریں گے

( 1 )رب کی رحمت سے مایوس: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو کسی مسلمان کے قتل پر آدھی بات سے بھی مدد کرے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا اللہ کی رحمت سے نا امید (مشکاة المصابیح حدیث نمبر 3484)

(2) قیامت کے دن رسوائی: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن مقتول قاتل کو لائے گا کہ اس کی پیشانی و سر اس کے ہاتھ میں ہوگا اور مقتول کی رگیں خون بہاتی ہوگی اور عرض کرے گا یارب اس نے مجھے قتل کیا تھا حتی کہ اسے عرش کے قریب کردے گا ۔ (مشکات المصابیح حدیث نمبر 3465)

(3)مسلمان کی جان کی اہمیت: حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ کے نزدیک دنیا ختم ہوجانا ایک مسلمان کے ظلما قتل سے زیادہ سہل ہے ۔ (ابن ماجہ حدیث نمبر 2619)

(4) جنت کی خوشبو سے محرومی: حضرت عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو کسی عہد و پیمان والے کو قتل کردے وہ جنت کی خوشبو نہ پائے گا حالانکہ اس کی خوشبو چالیس کی راہ سے محسوس کی جاتی ہے۔ (مشکات المصابیح حدیث نمبر 3452)

(5) جہنم کی وعید: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کسی مومن کو قتل کرنے میں اگر زمین و آسمان والے شریک ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں دھکیل دے۔ (ترمذی حدیث نمبر 1403)

اللہ کریم سے دعا ہیں کہ ہمیں دنیا میں اخلاص جیسی دولت سے مالامال فرمائے اور آپس میں بغض اور نفرت سے پھیلنے والی دشمنی اور غلط قدم اٹھانے سے محفوظ فرمائے اور علم دین جیسی عظیم نعمت عطاء فرمائے آمین ثم آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


ہمارا اسلام بہت ہی عمدہ اور خوبصورت ہے جس نے ہمیں تمام چیزوں کے احکامات بتا دیے ایک طرف جہاں نیکی کرنے پر ہمیں جنت الفردوس کی خوشخبری دی گئی اس طرح گناہ پر سزا کا بھی حکم دیا گیا ہے آج کل ہمارے معاشرے میں ہر گناہ عروج پر ہے ڈاکہ زنی چوری مال کو غصب کرنا کسی پر ظلم کرنا یتیم کا مال کہا جانا انہی میں سے ایک گنا بلکہ بہت بڑا گناہ کسی کو ناحق قتل کرنا ہے ہمارے معاشرے میں بات بات پر قتل کر دیتے ہیں ذرا سی بات ہوئی تو بس غصے سے باہر ہوگئے نا اسکا سوچا نا اسکے بیوی بچوں کا سوچا بس غصے میں آکر سب کچھ ختم کردیا اس کی وجہ کیا ہے ؟ اس کی وجہ کہیں علم دین سے دوری تو نہیں بلکہ علم دین سے دوری ہی ہے اگر ہم اس کے بارے میں (قتل نہ حق) جانتے ہوتے تو ہم یہ کام (قتل نہ حق)کرتے ہوئے سو بار سوچتے ہیں ۔ آئیے اسی کے بارے میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیں

’’حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مسلمان شخص کے قتل سے پوری دنیا کا ناپید ( تباہ) ہو جانا ہلکا (واقعہ) ہے۔‘‘(ترمذي، السنن، کتاب الديات، باب ما جاء في تشديد قتل المؤمن، 4: 16، رقم: 1395۔نسائي، السنن، کتاب تحريم الدم، باب تعظيم الدم، 7: 82، رقم:)

حضرت عبد اللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مومن کو قتل کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام دنیا کے برباد ہونے سے بڑا ہے۔‘‘(نسائي، السنن، کتاب تحريم الدم، باب تعظيم الدم، 7: 82، 83، رقم: 3988-3990۔ طبراني، المعجم الصغير، 1: 355، رقم: 594۔ بيهقي، السنن الکبری، 8: 22، رقم: 15647)

’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک پوری کائنات کا ختم ہو جانا بھی کسی شخص کے قتلِ ناحق سے ہلکا ہے۔‘‘(ابن أبي الدنيا، الأهوال: 190، رقم: 183۔ ابن أبي عاصم، الديات: 2، رقم: 2۔بيهقي، شعب الإيمان، 4: 345، رقم: )

اِن روایات اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک جان کو ناحق قتل کرنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اُنہوں نے ایک نفس کو نہیں بلکہ پوری کائنات کی حُرمت پر حملہ کیا ہے، اور اس کا گناہ اس طرح ہے جیسے کسی نے پوری کائنات کو تباہ کردیا ہے۔ اللہ عزوجل ہمیں محفوظ فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


مسلمان کو عمداً قتل کرنا سخت گناہ اور اشد کبیرہ ہے پھر یہ قتل اگر ایمان کی عداوت سے ہو یا قاتل اس قتل کو حلال جانتا ہو تو کفر بھی ہے قاتل اگر کسی مسلمان کو دنیوی عداوت کے سبب قتل کرے اگرچہ اسے حلال نہ جانتا ہو مدت دراز تک جہنم میں رہنے کا حقدار ہے (کیونکہ ایک انسان کا قتلِ ناحق ساری انسانیت کا قتل ہے) (سورة المائدہ آیت 32)

احادیث نبوی صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم میں قتلِ ناحق کی مذمت کو تفصیلا بیان کیا گیا عن عبد اللہ بن عمرو بن العاص قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والذی نفسی بیدہ لقتل مومن اعظم عند اللہ من زوال الدنیا (سنن نسائی المجلد الثانی ص161 مکتبہ یادگار شیخ)

سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

مجھے اس رب عزوجل کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اللہ کے نزدیک بندہ مومن کا قتل زوال دنیا سے بھی بڑا ہے۔ عن ابن عباس عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال يجيء المقتول بالقاتل يوم القيامه ناسيته وراسه بيده واوداجه تشخب دما یقول یارب قتلنی حتی یدنیہ من العرش۔ (مشکاة المصابیح الجزء الثانی الحدیث3311)

(2) سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن مقتول قاتل کو لائے گا اس حال میں کہ اس کی پیشانی اور سر اس مقتول کے ہاتھ میں ہوگا اور مقتول کے رگیں خون بہاتی ہوں گی اور عرض کرے گا یا رب اس نے مجھے قتل کیا تھا حتی کہ اسے عرش کے قریب کر دے گا

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمہ اللہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں مطلب یہ کے بارگاہ الہی میں قتل کا مقدمہ بہت اہتمام سے پیش ہوگا اور خاص طور پر سنا جاۓ گا لہذا قتل مومن سے بچو۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:5 , حدیث نمبر:3465)

عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال فی الحجۃ الوداع ویحکم (او قال ویلکم )لا ترجعو بعدی کفارا یضرب بعضکم رقاب بعض۔ صحیح مسلم للنووی کتاب الایمان ص332) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا : میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ دوسروں کی گردن مارنے لگو (شرع مسلم لنووی میں اس حدیث کی بہت سی تاویلیں کی گئی لیکن ان میں سے اظہر قول یہ بتایا کے(انہ فعل کفعل کفار) ایسا کرنا کفار کا طریقہ ہے اگرچہ کفر نہیں لیکن بندہ مومن یہ تو سمجھے کے اس قبیح فعل کو طریقہ کفار سے تشبیہ دی گئ ۔

عن عبد اللہ بن مسعود قال قال رسول اللہ علیہ وسلم اول ما یقضی بین الناس یوم القیمہ فی الدماء متفق علیہ ۔ مشکو المصابیح الجزء الثانی الحدیث 3298) سیدنا عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ علیہ الصلوۃ والسلام نے کے قیامت کے دن لوگوں کے درمیان سب سے پہلا فیصلہ خونوں کے بارے میں ہوگا

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمہ اللہ اس کی مراد کی توضیح میں فرماتے ہیں قیامت کے دن معاملات میں سب سے پہلے خون ناحق کا فیصلہ ہوگا بعد میں دوسرے فیصلے اور عبادات میں پہلے نماز کا حساب ہوگا یہ حدیث معاملات کے متعلق ہے وہ حدیث عبادات کے متعلق ہے لہذا دونوں میں کوئی تعارض نہیں (مراۃ المناجیح ص 299)

ان تمام نصوص طیبات سے اظہر من الشمس ہوا کے قتل ناحق نہایت ہی قبیح و مذموم عمل ہے اللہ کے غضب کو دعوت دینے والا شیطان لعین کو خوش کرنے والا بندے کو جہنم کی گہری وادیوں میں جھونکنے کا سبب ہے

اللہ جل شانہ سے دعا ہے کے تمام مسلمانوں کو اس مذموم عمل سے بچنے کی توفیق عطا فرماۓ واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللہ تعالٰی نے انسان کو”بہترین مخلوق“کےاعزاز سے نوازا، فضیلت و بزرگی اور علم و شرف سے بھی نوازا ہے۔ اور انسان کو”احسنِ تقویم“ کا تاج پہنایا اور اپنی پاک کتاب میں اس کی جان کی حُرمت کا اعلان فرمایا۔ جیسے:اللّہ پاک نے قرآن مجید ارشاد فرمایا:وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّؕ-وَ مَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهٖ سُلْطٰنًا فَلَا یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِؕ-اِنَّهٗ كَانَ مَنْصُوْرًا۔ ترجمہ کنزالعرفان: اور جس جان کی اللہ نے حرمت رکھی ہے اسے ناحق قتل نہ کرو اور جو مظلوم ہوکر مارا جائے تو ہم نے اس کے وارث کو قابو دیا ہے تووہ وارث قتل کا بدلہ لینے میں حد سے نہ بڑھے۔ بیشک اس کی مدد ہونی ہے۔

اسلام نے کئی جہتوں سے اللہ تعالٰی کی بہترین تخلیق انسان کی حفاظت کا ذہن دیا ہے۔ اور اسلام میں انسانی جان کی بے پناہ حرمت ہے اور کسی انسان کو قتل کرنا شدید کبیرہ گناہ ہے۔

اِسلام نہ صرف مسلمانوں بلکہ بلا تفریقِ مذہب، رنگ و نسل اِنسانوں کے قتل کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔ اِسلام میں کسی اِنسانی جان کی قدر و قیمت اور حرمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے بغیر کسی وجہ کے ایک فرد کے قتل کو پوری اِنسانیت کا خون بہانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ اللہ پاک نے ناحق قتل کے بارے میں قرآن مجید میں بھی ارشاد فرمایا ہے:مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا.ترجمہ کنزالعرفان:جس نے کسی جان کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے بدلے کے بغیر کسی شخص کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا۔

یہ آیتِ مُبارَکہ اسلام کی تعلیمات کو واضح کرتی ہے کہ اسلام کس قدر امن و سلامتی کا مذہب ہے اور اسلام کی نظر میں انسانی جان کی کس قدر اَہمیت ہے۔احادیث مبارکہ میں بھی ناحق قتل کرنے کی مذمت بیان کی گئی ہے۔

1: سب سے پہلے حساب اور فیصلہ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : ” آدمی سے سب سے پہلے جس چیز کا حساب لیا جائے گا ، وہ نماز ہے ۔ اور لوگوں کے درمیان سب سے پہلے فیصلہ قتل کے بارے میں ہوگا۔ ( سنن سنائی،حدیث 3996)

2: ناحق قتل کبیرہ گناہ: سب سے بڑے گناہ اللہ تعالٰی کے ساتھ شرک کرنا، کسی جان کو قتل کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا ہیں۔ (بخاری،حدیث:6871) اس حدیثِ مُبارَکہ سے معلوم ہوا کہ کبیرہ گناہوں میں شرک کے بعد سرِ فہرست کسی کی جان لینا ہے

3: دنیا کی تباہی سے زیادہ ہولناک: حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! البتہ مومن کا (ناحق) قتل اللہ تعالیٰ کے ہاں ساری دنیا کی تباہی سے زیادہ ہولناک ہے۔‘‘(سنن نسائی،حدیث 3991)

4: کبیرہ گناہ کیا ہے: حضرت ابو ایوب انصاری رَضِيَ الله تَعَالَى عَنْهُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّى اللَّهِ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ”جس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا، نماز قائم کی، زکوۃ ادا کی، رمضان کے روزے رکھے اور کبیرہ گناہوں سے بچتا رہا تو اس کے لئے جنت ہے۔ ایک شخص نے عرض کی: یا رسول اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ ) ، کبیرہ گناہ کیا ہیں ؟ نبی اکرم صَلَّى الله تَعَالَى عَلَيْهِ وَاللهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، کسی مسلمان کو (ناحق) قتل کرنا اور کفار سے جنگ کے دن میدان سے فرار ہونا۔ ( سنن نسائی حدیث 4014)

کسی کو بلاجواز قتل کرنے والا پورے سماج اورمعاشرے پر ظلم وزیادتی کرتا ہے۔ وہ معاشرے کو انارکی کی طرف لے جاتا ہے۔ اس جرم عظیم کے باعث قاتل کی دنیوی اور اخروی زندگی تباہ ہوکر رہ جاتی ہے۔ اس سے سکون و چین چھین لیا جاتا ہے۔ پھر سب سے بڑی حقیقت یہ کہ کل اس قاتل نے خود موت کا پیالہ پینا ہے اور اپنے اعمال کا مکمل جواب دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائیں۔آمین !

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


پیارے پیارے اسلامی بھائیوں آج میں آپ کے سامنے ناحق قتل کی مذمت لکھوں گا اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے درست لکھنے کی توفیق عطاءفرمائے۔ الله عز و جل فرماتا ہے یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰىؕ-اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَ الْاُنْثٰى بِالْاُنْثٰىؕ-فَمَنْ عُفِیَ لَهٗ مِنْ اَخِیْهِ شَیْءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اَدَآءٌ اِلَیْهِ بِاِحْسَانٍؕ-ذٰلِكَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ رَحْمَةٌؕ-فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (تفسیر صراط الجنان)پارہ 2 آیت (178)

ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو! تم پر فرض ہے کہ جو ناحق مارے جائیں ان کے خون کا بدلہ لو آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت تو جس کے لئے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی ہوئی تو بھلائی سے تقاضا ہو اور اچھی طرح ادا یہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارا بوجھ ہلکا کرنا ہے اور تم پر رحمت تو اس کے بعد جو زیادتی کرے اس کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (ترجمۂ کنز الایمان)

امام بخاری اپنی صحیح البخارى میں ابن عباس رضی الله تعالیٰ عنہما سے راوی کر نبی کریم صل الله عالم نے فرمایا الله تعالیٰ کے نزدیک سب لوگوں سے زیادہ مبغوض تین شخص ہیں حرم میں الحاد کرنے والا اور اسلام میں طریقہ جاہلیت کا طلب کرنے والا اور کسی مسلمان شخص کا ناحق خون طلب کرنے والا تاکہ اسے بہائے۔ (صحيح البخارى كتاب الديات، حصہ 4 ص 362)

امام ترمذی ابو سعید اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنھ سے روایت کرتے ہیں ہے کہ اگر آسمان و زمین والے ایک مرد مومن کے خون میں شریک ہو جائیں تو سب کو الله تعالیٰ جہنم میں اوندھا کر کے ڈال دے گا (جامع الترمذی کتاب الديات ج 3 ص 100)

ابوداود اور حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالی عنھ سے راوی رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ مومن تیز رو اور صالح رہتا ہے جب تک حرام خون نہ کرے اور جب حرام خون کر لیتا ہے تو اب وہ تھک جاتا ہے۔( سنن ابی داود کتاب الفتن ج 4 صے 139)

ابو داود وہ ابو الدرداء سے اور نسائی معاویہ رضي الله عنه سے۔ راوی ھے کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ امید ہے کہ گناہ کو اللہ بخش دے گا مگر اس شخص کو نہ بخشے گا جو مشرک ہو تے مر جائے یا جسے نے کسے مرد مومن کو قصداً ناحق قتل کیا(سنن ابی داؤد، کتاب الفتن، ج4، ص139)

الله تبارک وتعالیٰ نے سے دعا ہے کہ ہم کو کسی مسلمان شخص کو ناحق قتل کرنے سے بچے، رہنے کی توفیق عطا فرمائے

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اسلام کے مقدس مقامات میں کعبہ بڑی عظمت والی جگہ ہے۔یہ حرمت والا مقام ہے اور تمام انبیاء و صالحین کا عبادت کا مقام ہے۔اس کی عظمت ،شرافت،بزرگی اور بڑائی کرنے سے ہماری زبانیں عاجز ہیں مگر اللّٰہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے نزدیک ایک مومن کی جان و جسم عزت و عظمت کی شرافت وعظمت کعبہ سے بھی بڑھ کر ہے ۔اور آج کل کے پرفتن دور میں کبیرہ گناہوں میں سے ایک کبیرہ گناہ کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا ہے اور یہ بہت برا فعل اور قابل مذمت ہے ۔یہاں پر جو ابھی احادیث مبارکہ بیان ہوں گی وہ فقط مسلمانوں کو ڈرانے کے متعلق ہوں گی کہ مسلمان کو ڈرانا بھی جائز نہیں تو قتل تو بہت دور کی بات ہے ۔اور علماء کرام نے صرف ڈرانے کو بھی کبیرہ گناہ شمار کیا ہے ۔

اس پر کئی احادیث موجود ہیں ۔یہاں ان میں سے دو احادیث پیش خدمت ہیں ۔

نبئ کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: لا يحل لمسلم ان يروع مسلما. ترجمہ: کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو ڈراۓ۔ (ابو داؤد السنن،ج7کتاب الادب،الرقم4918)۔

ایک اور مقام پر نبئ کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: لا تروعواالمسلم فان روعة المسلم ظلم عظيم. ترجمہ: کسی مسلمان کو مت ڈراؤ ،بےشک مسلمان کو ڈرانا بہت بڑا ظلم ہے۔ (الھیثمی،مجمع الزوائد ،ج6)

حضرت براء بن عازب( رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ سرور کونین (صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم)کا فرمان عبرت نشان ہے: لزوال الدنیا اھون علی اللّٰہ من قتل مؤمن بغیر حق۔ ترجمہ:ساری دنیا کا تباہ ہو جانا اللّٰہ کے نزدیک مومن کے نا حق قتل سے زیادہ ہلکا ہے۔(قزوینی السنن،ج3،کتاب الدیات الرقم2628)

حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے ایک دوسری روایت میں ہے ۔ قتل المؤمن اعظم عنداللہ من زوال الدنیا ۔ ترجمہ: اللّٰہ کے نزدیک مومن کا قتل دنیا کے زائل ہونے سے بڑا معاملہ ہے ۔(نسائی السنن ج6،کتاب المحاریۃ،الرقم4025)

احادیث میں قاتل کے فرائض و نوافل کے قبول نہ ہونے کے بارے میں آیا ہے ۔چناچہ حضرت ابو عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم)کو فرماتے ہوئے سنا: من قتل مؤمنا فاغتبط بقتلہ لم یقبل اللّٰہ منہ فرضا ولا عدلا۔ ترجمہ:جس نے کسی مومن کو قتل کیا اور پھر اس کے قتل پر خوش ہوا اللّٰہ پاک اس کی فرض اور نفلی عبادات قبول نہیں کرے گا ۔(سجستانی ،السنن ج6،کتاب الغتن الرقم 4221)

قاتل بہت بڑی مصیبت میں ہے ۔قتل ایسا گناہ عظیم ہے جس پر سخت سے سخت وعیدیں وارد ہیں ایک حدیث پاک میں تو قاتل کو لازمی سزا دینے کا ذکر ہے ۔

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا: کل ذنب عسی اللّٰہ ان یغفرہ الا رجل یموت مشرکا او یقبل مؤمنا متعمدا۔ ترجمہ:قریب ہے کہ اللّٰہ ہر گناہ کو بخش دے مگر جو شخص مشرک ہونے کی حالت میں مرا یا جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر ناحق قتل کیا (یہ ایسے گناہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی سزا دے گا) مشرک کی مغفرت کبھی نہیں ہوگی اور قتل کا تعلق حقوق العباد سے ہے اس لیے قاتل کی بھی مغفرت آسان نہیں ۔

جب تک مقتول معاف نہ کرےاور وہ اپنی سزا پائے گا البتہ اگر مقتول اپنے مسلمان قاتل کو معاف کر دے گا تو مغفرت کی امید کی جا سکتی ہے اور جس شخص نے کسی دوسرے انسان سے زندہ رہنے کا حق ہی چھین لیا ہو وہ بھلا مقتول سے توقع رکھ سکتا ہے کہ وہ قاتل کو معاف کر دے ۔

اللّٰہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اس گناہ کبیرہ سے بچے رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے محبوب (صلی اللہ علیہ وسلم)کے صدقے ہمارا خاتمہ بالخیر فرماۓ آمین یارب العالمین۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اسلام امن وسلامتی کا مذہب ہے اسلام کی نظر میں انسان کی عزت و حرمت بہت زیادہ ہے لیکن افسوس کہ آج کل انسان کو قتل کرنا معمولی سا کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا غنڈہ گردی' دہشت گردی' ڈکیتی 'خاندانی 'لڑائی تعصب والی لڑائیاں عام ہے اور مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جارہا ہے گروپ جتھے عسکری ونگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل کرنا ہے ۔

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔

وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(93) ترجمہ" اور کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردے تو اسکا بدلہ جہنم ہے عرصہ دراز تک اس میں رہے گا اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور پر لعنت کی اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے (سورہ النساء 93 پارہ 5 )

قتل ناحق کی مذمت احادیث کی روشنی میں۔ آئے احادیث کی روشنی میں قتل نا حق کی مذمّت سنتے ہیں۔

(1)ناحق قتل کبیرہ گناہ ہے: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدار انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا" بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو (ناحق ) قتل کرنا ہے "۔۔(صراط الجنان فے تفسیر القران ص 309 جلد 2 )

(2)جہنم میں داخلہ کی وعید: حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہو جائیں تو اللہ پاک سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے (صراط الجنان فے تفسیر القران ص 309 جلد 2 )

(3) اللہ کی رحمت سے مایوس : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے"حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "جس نے کسی مؤمن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو قیامت کے دن اللہ تعالٰیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا ٫یہ اللہ عزوجل کی رحمت سے مایوس ہے ۔۔(صراط الجنان فے تفسیر القران ص309 جلد 2 )

(4)اللہ کے نزدیک قتل ناحق کی مذمت : حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے "رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا"اللہ پاک کے نزدیک دنیا کا ختم ہو جانا ایک مسلمان کو ظلما قتل سے زیادہ سہل ہے (صراط الجنان فے تفسیر القران ص 470جلد 2 )

(5)قاتل مقتول دونوں جہنم میں: حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے راوی فرماتے ہیں میں نے عرض کی ۔مقتول جہنم میں کیوں جائے گا ؟ ارشاد فرمایا اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پر مصر تھا (صراط الجنان فے تفسیر القران ص 309جلد 2 )

اللہ پاک ہمیں دین اسلام سمجھنے اور مسلمانوں کی عزت و احترام کی توفیق عطا فرمائے آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللّٰہ تبارک وتعالی نےٰ حضور پر نور رحمت دوعالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت کو دنیا میں بھیجا اور انسان دنیا کے محبت و جذبات میں آکر ایک دوسرے کا قتل کردیتا ہے اور قتل کرنا حرام ہے اسی وجہ کو سامنے رکھ کر چند احادیث و آیات قتل ناحق کی مذمت میں بیان کروں گا

مسلمان کو ناحق قتل کرنے کی مذمت: کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے اور کثیر احادیث میں ا س کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے، ان میں سے 4احادیث درج ذیل ہیں:

(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 4 / 358، الحدیث: 4871)

(2)…کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہو گا۔ حضرت ابو بکرہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205 ، الجزء الاول)

(3)…حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ، 1 / 23، الحدیث: 31)

(4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا 3 / 242، الحدیث: 2420)

اسی طرح اللّٰہ تعالٰی نے قرآن پاک میں بھی ارشاد فرمایا آیت مبارکہ ملاحظہ فرمائیے : وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(93) ترجمۂ کنز الایمان اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب۔

تفسیر صراط الجنان {وَ مَنْ یَّقْتُلْ: اور جو قتل کرے۔} اس سے پہلی آیت میں غلطی سے کسی مسلمان کو قتل کر دینے کا حکم بیان کیا گیا اور اس آیت میں جان بوجھ کر کسی مسلمان کو قتل کرنے کی اُخروی وعید بیان کی گئی ہے۔ (پ4,س النساء،آیت93)

وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّا خَطَــٴًـاۚ-وَ مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَــٴًـا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَّ دِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى اَهْلِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّصَّدَّقُوْاؕ-فَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍؕ-وَ اِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍۭ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ مِّیْثَاقٌ فَدِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى اَهْلِهٖ وَ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍۚ-فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَهْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ٘-تَوْبَةً مِّنَ اللّٰهِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا(92)

ترجمۂ کنز الایمان اور مسلمانوں کو نہیں پہنچتا کہ مسلمان کا خون کرے مگر ہاتھ بہک کر اور جو کسی مسلمان کو نادانستہ قتل کرے تو اس پر ایک مملوک مسلمان کا آزاد کرنا ہے اور خوں بہا کہ مقتول کے لوگوں کو سپرد کی جائے مگر یہ کہ وہ معاف کردیں پھر اگر وہ اس قوم سے ہو جو تمہاری دشمن ہے اور خود مسلمان ہے، تو صرف ایک مملوک مسلمان کا آزاد کرنا اور اگر وہ اس قوم میں ہو کہ تم میں ان میں معاہدہ ہے تو اس کے لوگوں کو خوں بہا سپرد کی جائے اور ایک مسلمان مملوک آزاد کرنا تو جس کا ہاتھ نہ پہنچے وہ لگاتار دو مہینے کے روزے رکھے یہ اللہ کے یہاں اس کی توبہ ہے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ (پ 4,س النساء،آیت92)

اللّٰہ تعالٰی سے دعا ہے کہ ہمیں حرام کام سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور جو ہم نے قتل ناحق کی مذمت میں احادیث و آیات پڑھیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللّٰہ علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔