نماز وہ انمول تحفہ ہے جو ہمارے پیارے آقا ﷺ کو معراج کی رات عطا فرمایا گیا، نماز کی اہمیت اس بات سے سمجھیے کہ عبادات کے احکام زمین پر نازل ہوئے جبکہ نماز وہ عظیم تحفہ ہے جو معراج پر بلا کر عطا فرمایا گیا، سبحان اللہ!آقا ﷺ کی شان یہ ہے کہ انہیں معراج پر بلایا گیا جبکہ ہم جیسے گنہگاروں کی معراج نماز قرار دی گئی کہ مرقاۃ میں ہے:نماز مومن کی معراج ہے۔(مرقاۃ المفاتیح،2/452،تحت الحدیث:746)

شبِ معراج 50 نمازوں کا تحفہ دیا گیا تھا پھر اس میں تخفیف کر دی گئی چنانچہ ہم جو نمازیں پڑھتی ہیں وہ پانچ ہیں اللہ پاک نے جب 50 نمازیں فرض فرما دیں اور پھر تخفیف بھی کر دی گئی تو فرمایا کہ جو یہ پانچ پڑھے انہیں ان 50 کا ثواب ملے۔ یاد رہے کہ ہمارے پیارے آقا ﷺ نے اپنی ظاہری حیات مبارکہ میں 11 سال چھ ماہ میں تقریبا 20 ہزار نمازیں ادا فرمائی اور 500 جمعہ ادا فرمائے اور عید کی 9 نمازیں ادا فرمائی۔

(فیضانِ نماز،ص7)

آقا ﷺنے نہ صرف اللہ پاک کے پیغامات کو بندوں تک پہنچا دیا بلکہ جو احکام نازل ہوئے ان پر لوگوں کو اس طرح عمل کر کے دکھایا کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مشعلِ راہ بن گئے۔

آقا ﷺ کی نماز سے محبت اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ حدیثِ پاک میں ہے:نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔(فیضانِ نماز،ص 10)اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ تمام رات نماز میں کھڑے رہے اور قرآن کی ایک ہی آیت بار بار پڑھتے رہے۔(سیرت رسول عربی، ص363)اس حدیثِ مبارک سے آقا ﷺ کی نماز سے محبت ظاہر ہوتی ہے

آپ کو معرفتِ الٰہی اور علم سب سے زیادہ تھا، اس لیے آپ سب سے زیادہ خدا ترس اور عبادت کرنے والے تھے۔چنانچہ آپ فرماتے ہیں:قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے!اگر تمہیں معلوم ہوتا جو مجھے معلوم ہے تو تم البتہ زیادہ روتے اور تھوڑا ہنستے۔(سیرت رسول عربی،364)

عبادت کے ساتھ ساتھ آپ کا خوفِ الٰہی بھی کمال درجے کا تھا۔چنانچہ حضرت عبداللہ بن شخیر روایت فرماتے ہیں کہ ایک روز میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ،کیا دیکھتا ہوں کہ آپ نماز پڑھ رہے ہیں اور رونے کے سبب سے آپ کے شکم مبارک سے تانبے کی دیگ(یعنی جوش)کی مانند آواز آ رہی ہے۔

(سیرتِ رسولِ عربی،ص 364)

اگر ہمارے گھر میں کچھ کھانے کے لیے نہ ہو یعنی فاقے چل رہے ہوں تو بیمار ہو جاتی ہیں اور بیماری کے سبب نماز پڑھنے کو دل نہیں کرتا لیکن آقا ﷺ کا طرزِ عمل ملاحظہ فرمائیے چنانچہ نبی ﷺ کے گھر میں جب فاقہ ہوتا تھا اور رات میں کچھ ملاحظہ نہ فرماتے تھے اور بھوک غلبہ کرتی تھی تو نبی ﷺ مسجد میں تشریف لا کر نماز میں مشغول ہوتے تھے۔(فیضانِ نماز،ص21)

ہمارے پیارے آقا ﷺ کی نماز سے محبت دیکھیے کہ جب بھوک کا غلبہ ہوتا تو نماز کی طرف متوجہ ہو جاتے اور اس طرح متوجہ ہوتے کہ بھوک کا احساس تک نہ رہتا۔ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ آج ہم اللہ پاک کی لاکھوں نعمتیں کھانے کے باوجود اللہ پاک کی نعمتوں سے غافل ہو کر دنیا کی رنگینیوں میں کھو چکی ہیں جبکہ ہمارے آقا ﷺ خود بھوکے رہ کر دوسروں کو کھلانے والے اور بھوک کے باوجود اللہ پاک کے صابر و شاکر بندے اور اللہ پاک کی عبادت کو بجا لانے والے تھے ۔

نماز میرے آقا کی راحت کا سبب ہے۔چنانچہ مدینے کی تاجدار ﷺ حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرماتے:اے بلال!ہمیں نماز سے راحت پہنچاؤیعنی اے بلال!اذان دو تاکہ ہم نماز میں مشغول ہوں اور ہمیں راحت ملے۔(فیضان نماز،ص25) (ابوداود،4 / 385،حدیث:4986)

آقا ﷺ کی نماز سے محبت اس عمل سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:مصطفےٰ جانِ رحمت ﷺ نے نماز میں کافی طویل قیام فرمایا،عرض کی گئی:آقا!آپ اتنی تکلیف کیوں اٹھاتے ہیں؟ آپ تو بخشے بخشائے ہیں!ارشاد فرمایا:کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ یعنی کیا میں اس بات کا شکر نہ کروں کہ میں بخشا گیا۔(سیرتِ رسولِ عربی،ص 363)حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو رات کے ایک حصے میں نماز پڑھتے دیکھا آپ یوں پڑھتے تھے:اَللہ اَکْبَرْ(تین بار)ذُو الْمُلْکِ وَالْجَبَرُوْتِ وَالْکِبْرِیَاءِ وَالْعَظَمَۃِ پھر دعائے استفتاح پڑھتے تھے بعد ازاں آپ نے(سورۂ فاتحہ کے بعد)سورۂ بقرہ پڑھ کر رکوع کیا،آپ کا رکوع(طوالت میں)مانندِ قیام کے تھا اور اس میں سَبْحَانَ رَبِیَّ الْعَظِیْمِ پڑھتے تھے، پھر آپ نے رکوع سے سر اٹھایا،آپ کا قومہ مانندِ رکوع کے تھا اور آپ اس میں لِرَبِّیَ اَلْحَمْدُ پڑھتے تھے،پھر آپ نے سجدہ کیا،آپ کا سجدہ مانندِ قومہ کے تھا،آپ سجدہ میں سَبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی پڑھتے تھے،پھر آپ نے سجدے سے سر اٹھایا،آپ دو سجدوں کے درمیان مانندِ سجدہ کے بیٹھے تھے اور رَبِّ اغْفَرْلِیْ،رَبِّ اغْفِرْلِیْ پڑھتے تھے،اس طرح آپ نے چار رکعتیں پڑھیں ،اور ان میں سورۂ بقرہ و ال عمران و نسآء و مائدہ یا انعام ختم کیں۔(سیرتِ رسولِ عربی،ص 364)

رسول اللہ ﷺ کی عبادت کے تفصیلی حالات کتبِ احادیث میں موجود ہیں،یہاں بوجہ اختصار ان کے ایراد کی گنجائش نہیں،مگر اتنا بتا دینا ضروری ہے کہ آپ کا طرزِ عمل افراط و تفریط سے خالی ہوا کرتا تھا، نہ تمام رات نماز پڑھتے اور نہ تمام رات سوتے بلکہ رات کو نماز بھی پڑھتے اور سو بھی لیتے۔

(سیرتِ رسولِ عربی،ص364)

حضورﷺ کی نماز سے محبت اللہ پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(56)(پ27،الذریت:56)ترجمۂ کنز الایمان:اور میں نے جِنّ اور آدمی اتنے ہی(اسی لئے)بنائے کہ میری بندگی کریں۔ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ كُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَۙ(98)وَ اعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى یَاْتِیَكَ الْیَقِیْنُ۠(99) (پ14،الحجر:98، 99)ترجمۂ کنز الایمان:تو اپنے رب کو سراہتے ہوئے اس کی پاکی بولو اور سجدہ والوں میں ہو۔اور مرتے دم تک اپنے رب کی عبادت میں رہو۔

نماز دین کا ستون ہے۔اللہ پاک نے معراج کے موقع پر اپنے محبوب کو نماز کا تحفہ عطا فرمایا۔حضور سرور ِعالم ﷺ نماز سے بے حد محبت فرمایا کرتے۔ کئی احادیثِ مبارکہ حضور کی نماز سے محبت پر دلالت کرتی ہیں،چنانچہ آپ نے نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک فرمایا۔(معجم کبیر،20 / 420،حدیث:1012)جب نماز کا وقت ہوتاتو آقاکریم ﷺ حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرماتے:قُمْ یا بِلَالُ فَاَرِحْنَا بِالصَّلَاۃِ اے بلال!اٹھو اور ہمیں نماز سے راحت پہنچاؤ ۔(ابوداود،4 / 385،حدیث:4986)مسلم شریف میں ہے کہ سیدہ عائشہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:نبیِ کریم ﷺ ہر وقت اللہ پاک کا ذکر کرتے تھے۔(مسلم، ص159،حدیث:826)

حضور تو وہ ہستی ہیں جن کی حیاتِ طیبہ میں ایسی راتیں بھی ہوں کہ ان کی ازواجِ مطہرات روایت کرتی ہیں کہ ہم دیکھتی تھی کہ رات کو حضور کا بستر خالی ہوتا تھا اور آپ کو ڈھونڈتے ہوئے جب ہم نکلتیں تو دیکھتیں کہ آپ جنت البقیع کے اندر کبھی حالتِ قیام میں تو کبھی حالتِ دعا میں تو کبھی حالتِ سجدہ میں اپنے رب سے گڑ گڑا رہے ہیں اور صحابہ کرام کی اکثریت اس بات پر گواہ ہے کہ انہوں نے دیکھا کہ حضور نبیِ کریم ﷺ کبھی کبھی ایک آیتِ مبارکہ کی تلاوت میں ساری ساری رات گزار دیتے تو کوئی بھی خوبی جو تصور میں آ سکتی ہے اور کوئی بھی وصف جس کا گمان کیا جا سکتا ہے امام الانبیاء ﷺ نے اسے اختیار کر کے اسے لاثانی قرار دیا،اس کو شرف بخشا اور بندگی کو بھی معراج بخشی حالانکہ آپ کا رب جو لوگوں سے عبادت کا تقاضا کرتا ہے لیکن آپ تو وہ ہیں کہ ان کے قیام کی طوالت دیکھ کر رب العالمین خود فرماتا ہے:قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًاۙ(2)نِّصْفَهٗۤ اَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِیْلًاۙ(3)(پ29،المزمل:3،2)ترجمہ:رات میں قیام فرما سوا کچھ رات کےآدھی رات یا اس سے کچھ کم کرو۔

یہ ہے حضور ﷺ کا ذوق عبادت۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نبیِ کریم ﷺ کی رات کی نماز کے متعلق پوچھا گیا کہ رات کو آقا کریم ﷺ کا کیا معمول تھا؟ تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:حضورﷺ رات کے پہلے حصہ میں سو جاتے پھر اٹھ کر قیام فرماتے تھے اس کے بعد جب سحری کا وقت قریب ہوتا تو وتر عطا فرماتے ،پھر اپنے بستر پر تشریف لے آتے، پھر اگر آپ کو رغبت ہوتی تو اپنی اہلیہ کے پاس جاتے، پھر جب اذان سنتے تو تیزی سے اٹھتے، اگر غسل کی حاجت ہوتی تو غسل فرماتے ورنہ صرف وضو فرما لیتے اور نماز کے لیے تشریف لے جاتے۔(شمائل ترمذی،ص161،حدیث:251)اللہ پاک ہمیں آقا کریم ﷺ کے ذوق عبادت میں سے کچھ حصہ نصیب فرمائے۔ آمین بجاہِ خاتم ِالنبیین ﷺ

حضرت حذیفہ رضی اللہ  عنہ فرماتے ہیں کہ ایک رات اللہ پاک کے نبی ﷺ مسجد میں نماز ادا فرما رہے تھے میں نے موقع غنیمت جانا اور آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر ابتدا میں نماز شروع کر دی۔اللہ پاک کے رسول، رسولِ مقبول ﷺ نے دورانِ نماز سورۃ البقرہ کی تلاوت شروع فرمائی ،میں دل میں خیال کر رہا تھا کہ حضور کائنات ﷺ سو آیات پڑھ کر رکوع فرما دیں گے لیکن آپ نے سو آیات پڑھ کر رکوع نہیں فرمایا بلکہ آگے پڑھتے گئے، اب میں نے پھر خیال کیا 200 آیات پڑھ کر رکوع فرما دیں گے لیکن آپ نے 200 آیات پر بھی رکوع نہیں فرمایا،اب مجھے خیال آیا کہ حضور اکرم ﷺ پوری سورۃ البقرہ تقریباً اڑھائی پارے ایک ہی رکعت میں پڑھ کر رکوع فرمائیں گے چنانچہ سورۃ البقرہ پوری ہو گئی لیکن اب بھی آپ نے رکوع نہ فرمایا، اب سورۂ ال عمران شروع ہو گئی میں سوچ رہا تھا کہ سورۂ ال عمران پڑھ کر رکوع فرما دیں گے، حضور اکرم ﷺ نے سورۂ ال عمران مکمل کرنے کے بعد سورۃ النسآء شروع کر دی، میں نے سوچا کہ حضور کریم ﷺ سورۃ النسآء پڑھ کر رکوع فرما دیں گے لیکن اب بھی میرا خیال درست نہ تھا،جان ِکائنات ﷺ نے سورۃ النسآء مکمل کی تقریباً سوا پانچ پارے کی تلاوت فرمائی اور سورۃ المائدہ کی تلاوت شروع فرما دی، سورۃ المائدہ کی تلاوت مکمل کرنے کے بعد تقریباً سوا چھ پارے پڑھنے کے بعد رکوع فرمایا۔میں نے سُنا کہ آپ رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم پڑھ رہے تھے ، پھر(دوسری رکعت میں آپ نے سورۂ اَنْعَام شروع فرما دی۔

(مصنف عبدالرزّاق ، 2 / 95و96 ، حدیث:2845)

غور کیجئے کہ نبیِ کریم ﷺ کی کیسی نماز تھی اور نماز سے کیسی محبت تھی!

ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں:میں نے حضور اقدس ﷺ سے اپنی بیماری کی شکایت کی تو آپ نے ارشاد فرمایا:تم سوار ہو کر لوگوں کے پیچھے طواف کر لو چنانچہ میں نے طواف کیا اور حضور پر نور ﷺ بیت اللہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ رہے تھے اور آپ نے نماز میں سورۂ طور کی تلاوت فرمائی۔

(بخاری، 3/335،حدیث:4853)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سجدہ والی سورتوں میں سب سے پہلے سورۂ نجم نازل ہوئی،اس کی تلاوت کر کے رسول اللہ ﷺ نے سجدہ کیا اور جتنے لوگ بھی آپ کے پیچھے تھے مسلمان یا کافر ان میں ایک کے علاوہ سب نے سجدہ کیا، میں نے اس سجدہ نہ کرنے والے کو دیکھا کہ اس نے اپنے ہاتھ میں مٹی لے کر اس پر سجدہ کیا اور اس دن کے بعد میں نے دیکھا کہ وہ کفر کی حالت میں قتل ہوا پڑا تھا اور وہ امیہ بن خلف تھا۔(بخاری ،3/338،حدیث:4863)

علامہ محمود آلوسی رحمۃ اللہ علیہ علامہ احمد بن موسی المعروف ابن مردویہ رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:سورۂ نجم یہ وہ پہلی سورت ہے جس کا رسول کریم ﷺ نے اعلان فرمایا اور حرم شریف میں مشرکین کے سامنے پڑھی۔(تفسیر روح المعانی،14/63)

حضورِ اقدس ﷺ باوجود بے شمار مشاغل کے اتنے بڑے عبادت گزار تھے کہ تمام انبیا و مرسلین علیہم و السلام کی مقدس زندگیوں میں اس کی مثال ملنی دشوار ہے۔

آقا ﷺ نے تقریباً 20 ہزار نمازیں ادا فرمائیں:

شبِ معراج پانچوں نمازیں فرض ہونے کے بعد ہمارے پیارے آقا ﷺ نے اپنی حیاتِ ظاہری(یعنی دُنیوی زندگی)کے گیارہ سال چھ ماہ میں تقریباً 20 ہزار نمازیں ادا فرمائیں،تقریباً 500 جُمعے ادا کئے اور عید کی 9 نمازیں پڑھیں۔(درّمختار،2/6وغیرہ،مراٰۃ المناجیح،2/346،سیرتِ مصطفٰے،ص249ملخصاً)قرآنِ کریم میں نماز کا ذکر سینکڑوں جگہ آیا ہے۔

آقا ﷺ کا نماز سے محبت کا انداز:

اعلانِ نبوت سے قبل بھی آپ غارِ حرا میں قیام و مراقبہ اور ذکر و فکر کے طور پر خدا کی عبادت میں مصروف رہتے تھے،نزولِ وحی کے بعد ہی آپ کو نماز کا طریقہ بھی بتا دیا گیا،پھر شبِ معراج میں نمازِ پنجگانہ فرض ہوئی۔ حضور ﷺ نمازِ پنجگانہ کے علاوہ نمازِ اشراق،نمازِ چاشت،تحیت الوضوء،تحیۃ المسجد،صلوة الاوابین وغیرہ سنن و نوافل بھی ادا فرماتے تھے۔راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر نمازیں پڑھا کرتے تھے۔تمام عمر نمازِ تہجد کے پابند رہے،راتوں کے نوافل کے بارے میں مختلف روآیات ہیں۔ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ آپ نماز ِعشاء کے بعد کچھ دیر سوتے پھر کچھ دیر تک اٹھ کر نماز پڑھتے پھر سو جاتے پھر اٹھ کر نماز پڑھتے۔غرض صبح تک یہی حالت قائم رہتی۔ کبھی دو تہائی رات گزر جانے کے بعد بیدار ہوتے اور صبح صادق تک نماز میں مشغول رہتے۔کبھی نصف رات گزر جانے کے بعد بستر سے اٹھ جاتے اور پھر ساری رات بستر پر پیٹھ نہیں لگاتے تھے اور لمبی لمبی سورتیں نمازوں میں پڑھا کرتے۔ کبھی رکوع و سجود طویل ہوتا کبھی قیام طویل ہوتا۔ کبھی چھ رکعت،کبھی آٹھ رکعت،کبھی اس سے کم،کبھی اس سے زیادہ۔ اخیر عمر شریف میں کچھ رکعتیں کھڑے ہو کر کچھ بیٹھ کر ادا فرماتے،رمضان شریف خصوصاً آخری عشرے میں آپ کی عبادت بہت زیادہ بڑھ جاتی تھی۔ آپ ساری رات بیدار رہتے اور اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن سے بے تعلق ہو جاتے تھے اور گھر والوں کو نمازوں کےلئے جگا یا کرتے تھے اور عموماً اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ نمازوں کے ساتھ ساتھ کبھی کھڑے ہو کر،کبھی بیٹھ کر،کبھی سر بسجود ہو کر نہایت آہ و زاری اور گریہ و بکا کے ساتھ گڑگڑا کر راتوں میں دعائیں بھی مانگا کرتے،رمضان شریف میں حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ قرآنِ عظیم کا دور بھی فرماتے اور کبھی ساری رات نمازوں اور دعاوٴں کا ورد بھی فرماتے اور کبھی ساری رات نمازوں اور دعاؤں میں کھڑے رہتے یہاں تک کہ پائے اقدس میں ورم آجایا کرتا تھا۔(صحاح ستہ وغیرہ کتب حدیث)

نماز کے متعلق احادیث:

1)سرکار عالی وقار ﷺ نے ارشاد فرمایا:نماز دین کا سُتُون ہے،جس نے اسے قائم رکھا،دین کو قائم رکھا اور جس نے اسے چھوڑ دیا اُس نے دین کو ڈھا دیا(یعنی گرا)۔(منیۃ المصلی، ص13)

2)حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،تاجدارِمدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک نے کوئی ایسی چیز فرض نہ کی جو توحید و نماز سے بہتر ہو۔اگر اس سے بہتر کوئی چیز ہوتی تو وہ ضرور فرشتوں پر فرض کرتا۔اِن(یعنی فرشتوں)میں کوئی رُکُوع میں ہے کوئی سجدے میں۔

(مسند الفردوس،1/165،حدیث:610)


دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام آج 04 فروری 2025ء کومجلس مدرسۃ المدینہ کی جانب سے حفاظ اجتماع منعقد کیاجائے گا ۔ اجتماع کا آغاز رات 8 بجکر 45 منٹ پر تلاوتِ قرآنِ مجید اور نعتِ رسولِ مقبول ﷺ سے ہوگا۔ یہ اجتماع ایوانِ اقبال ایجرٹن روڈ مال روڈ لاہور میں منعقد ہوگا۔

اجتماع میں بیان کے لئے خصوصی طور پر نگران پاکستان مشاورت حاجی شاہد عطاری فیصل آباد سے تشریف لائیں گے ۔

اس اجتماع میں لاہور میں قائم مدرسۃ المدینہ بوائز کے تمام سابقہ حفاظ ایوانِ اقبال میں آکر جبکہ پاکستان بھر کے دیگر مدارس المدینہ کے حفاظ مختلف مقامات پر جمع ہوکر شرکت کریں گے۔

واضح رہے کہ یہ اجتماع پونے نو بجے مدنی چینل پر براہِ راست ٹیلی کاسٹ بھی جائے گا۔

Madani Channel Live Streaming

https://www.youtube.com/watch?v=IpQdxyXt0r


فیصل آباد میں قائم دعوتِ اسلامی کے کنزالمدارس بورڈ ہیڈآفس میں گزشتہ روز ایک میٹنگ ہوئی جس میں شعبہ جاب پلیسمنٹ کے ہیڈ اور دیگر جملہ ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے شرکت کی۔

میٹنگ کے دوران رکنِ شوریٰ و صدر کنزالمدارس بورڈ مولانا حاجی محمد جنید عطاری مدنی نے شعبہ جاب پلیسمنٹ کے جملہ امور کی سابقہ کارکردگی کا جائزہ لیااور آئندہ کے اہداف دیئے جس پر حاضرین نے اپنی اپنی رائے پیش کی۔( کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


دعوتِ اسلامی کے تحت 24 جنوری 2025ء کو عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی میں مدرسین کا سنتوں بھرا اجتماع منعقد ہوا جس میں شعبہ فیضان آن لائن اکیڈمی (بوائز، گرلز) کے ذمہ داران بھی شریک ہوئے۔

اس اجتماعِ پاک میں نگرانِ شعبہ فیضان آن لائن اکیڈمی بوائز مولانا یاسر عطاری مدنی نے شعبے کے دینی کاموں کا جائزہ لیتے ہوئے رمضان عطیات کے بارے میں کلام کیا اور شرکا کو احسن انداز میں دعوتِ اسلامی کے لئے ڈونیشن کرنے کا ذہن دیا۔

اسی طرح نگرانِ شعبہ فیضان آن لائن اکیڈمی گرلز مولانا غلام الیاس عطاری مدنی اور صوبائی ذمہ دار تبریز عطاری مدنی نے مکمل ماہِ رمضان کا اعتکاف کرنے کے حوالے سے مدنی پھول بیان کئے جبکہ اختتام پر ٹیلی تھون میں نمایاں کارکردگی حاصل کرنے والے مدرسین کو تحائف دیئے گئے ۔(رپورٹ:مولانا محمد وقار یعقوب عطاری مدنی برانچ منیجر فیضان آن لائن اکیڈمی ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


ماریشس کے ڈسٹرکٹ Plaines Wilhems میں واقع علاقہ Mesnil میں ایک اسلامی بہن کے والدکے ایصالِ ثواب کےلئے دعوتِ اسلامی کے تحت محفلِ نعت کا اہتمام کیا گیا جس میں اہلِ خانہ سمیت دیگر اسلامی بہنیں شریک ہوئیں۔

اس محفلِ نعت میں عالمی مجلسِ مشاورت کی نگران اسلامی بہن نے ”دنیا کی مذمت اور آخرت کی تیاری“ کے موضوع پر بیان کیا اور وہاں موجود اسلامی بہنوں کو ماہانہ اجتماع میں شرکت کرنے اور آن لائن کورسز میں داخلہ لینے کی ترغیب دلائی۔محفلِ نعت کے اختتام پر عالمی مجلسِ مشاورت کی نگران اسلامی بہن نے دعا کروائی اور اسلامی بہنوں سے ملاقات بھی کی۔ 

8 فروری 2024ء کودعوتِ اسلامی کے دینی کاموں کے حوالے سے  ماریشس کے ڈسٹرکٹ Plaines Wilhems میں تمام ذمہ دار اسلامی بہنوں کی میٹنگ ہوئی جس میں مختلف موضوعات پر کلام کیا گیا۔

معلومات کے مطابق اس میٹنگ میں دعوتِ اسلامی کی نگرانِ عالمی مجلسِ مشاورت اسلامی بہن نے ڈسٹرکٹ میں ہونے والے اجتماعات کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ان کی تعداد بڑھانے کا ذہن دیا۔

اس کے علاوہ نگرانِ عالمی مجلسِ مشاورت نے 4 ماہ میں معلمات و مبلغات تیار کرنے پر اسلامی بہنوں کی ذہن سازی کی جس پر انہوں نے دینی کاموں میں مزید بہتری لانے کے لئے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔

میٹنگ کے آخر میں تمام ذمہ دار اسلامی بہنوں نے نگرانِ عالمی مجلسِ مشاورت سے ملاقات کی اور نمایاں کارکردگی پر تحائف وصول کئے۔

سنتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر عمل کرتے ہوئے دعوتِ اسلامی کے تحت ماریشس کے علاقے Castel میں 8 فروری 2024ء کو نگرانِ عالمی مجلسِ مشاورت نے مقامی ذمہ داران کے ہمراہ بیمار اسلامی بہنوں سے عیادت کی۔

عیادت کرتے ہوئے نگرانِ عالمی مجلسِ مشاورت اسلامی بہن نے اسلامی بہنوں کے لئے دعائے صحت کروائی اور انہیں بیماری پر صبر کرنے کی ترغیب دلائی جبکہ گھر کی اسلامی بہنوں کو دعوتِ اسلامی کے نیک بھرے اجتماعات میں شرکت کرنے کا ذہن بھی دیا جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتیں کیں۔

دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام 8 فروری 2024ء کو  ماریشس کے ڈسٹرکٹ Plaines Wilhems میں واقع علاقہ Castel میں ماہانہ سنتوں بھرا اجتماع منعقد ہوا جس میں قرب و جوار کی اسلامی بہنیں شریک ہوئیں۔

بیرونِ ملک کے دورے پر موجود نگرانِ عالمی مجلسِ مشاورت اسلامی بہن نے تلاوت و نعت کے بعد” علمِ دین سیکھنے کی فضیلت و علمِ دین کی مجلس کی برکات “سے متعلق بیان کیا اور اسلامی بہنوں کو پابندی کے ساتھ اجتماعات میں شرکت کرنے نیز دیگر اسلامی بہنوں کو بھی شرکت کروانے کی ترغیب دلائی۔

بعدازاں صوبائی نگران اسلامی بہن نے اختتامی دعا کروائی اور اسلامی بہنوں نے نگرانِ عالمی مجلسِ مشاورت سے ملاقات کی۔

6 فروری 2024ء کو ماریشس میں دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں کے سلسلے میں نگرانِ عالمی مجلسِ مشاورت نے ذمہ داران کے ہمراہ مختلف اسلامی بہنوں سے اُن کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔

ملاقات کے دوران نگرانِ عالمی مجلسِ مشاورت اسلامی بہن نے اسلامی بہنوں کو دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کرنے اور مختلف قسم کے شارٹ کورسز کرنے کی ترغیب دلائی جس پر انہوں نے دینی کاموں میں عملی طور پر حصہ لینے کی اچھی اچھی نیتیں کیں۔