
قراٰنِ کریم ہمارے لیے رشد و ہدایت کا سر چشمہ ہے جس میں ہر
ایک چیز کا بیان تفصیل کے ساتھ کر دیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک اہم بیان بارگاہِ
رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کا ادب بھی ہے۔ جو اہلِ حق کی پہچان رہی ہے ۔ یہ قراٰن کا ہی درس تھا جو صحابہ کو بارگاہِ
رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
میں آواز تک بلند نہ کرنے دیتی تھی آیئے ہم قراٰن سے کچھ آداب سیکھتے ہیں۔
(1) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا
وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ- ترجمۂ کنزالعرفان: اے ایمان والو!راعنا نہ کہو اور یوں
عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو۔(پ1،البقرۃ:104)اس آیت سے معلوم ہوا کہ بارگاہِ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم و
توقیر اور ان کی جناب میں ادب کا لحاظ فرض ہے اور جس کلمہ میں ترکِ ادب کا معمولی
سا بھی اندیشہ ہو وہ زبان پر لانا ممنوع ہے۔ (مزید معلومات کے لیے تفسیر ِنعیمی یا
صراط الجنان کا مطالعہ کریں) ۔
(2) وَ اسْمَعُوْاؕ-: اور غور سے سنو: حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کلام فرمانے کے وقت ہمہ تن گوش ہو
جاؤ تا کہ یہ عرض کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے کہ توجہ فرمائیں کیوں کہ دربارِ نبوت کا
یہی ادب ہے۔
(3) وَ الَّذِیْنَ
یُؤْذُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۶۱) ترجمۂ کنز العرفان : اور جو رسولُ اللہ کو ایذا دیتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب
ہے۔(پ10،التوبۃ:61) اپنے قول یا فعل یا کسی حرکت سے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایذا دینا کفر ہے کیونکہ دردناک
عذاب کی وعید عموماً کفار کو ہی ہوتی ہے ۔
(4) یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ
لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی
آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک
دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال بربادنہ ہوجائیں اور
تمہیں خبرنہ ہو۔(پ26،الحجرات:2) ادب یہ ہے کہ جب حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تم سے کلام فرمائیں اور تم ان کی
بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی آواز سے بلند نہ ہو
بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پست آواز سے کرو۔
(5) اور ادب یہ بھی ہے کہ حضور کو ندا کرنے میں ادب کا پورا
لحاظ رکھو اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کو عام القاب سے نہ پکارو جن سے ایک دوسرے کو پکارتے ہو بلکہ رسول
الله، شفیع المذنبین کہو۔
ان ساری آداب پر عمل تب ہی ممکن ہے جب ہم عاشقانِ رسول کی
صحبت اختیار کریں گے۔ آپ بھی عاشقان رسول کی دینی تحریک دعوت اسلامی سے وابستہ ہو جائیے۔
اس کے ذریعہ خوفِ خدا و عشقِ مصطفی کا جام بھی ملے گا اور نیکوں کا ساتھ بھی۔

ادب گاہسیت زیر آسماں از عرش
نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید
ایں جا
دنیا دی بادشاہ ! اپنے درباروں کے آداب اور ان میں حاضری
دینے کے قوانین خود بناتے ہیں اور اپنے مقررہ حاکموں کے ذریعہ رعایا سے اُن پر عمل
کراتے ہیں کہ جب ہمارے دربار میں آؤ تو اس طرح کھڑے ہو، اس طرح بات کرو، اس طرح
سلامی دو۔ پھر جو کوئی آداب بجا لاتا ہے اس کو انعام دیتے ہیں جو اس کے خلاف کرتا
ہے بادشاہ کی طرف سے سزا پاتا ہے۔ یہ سارے قاعدے صرف انسانوں پر ہی جاری ہوتے ہیں
، دوسری مخلوقات جِنّ ، فرشتے وغیرہ کو ان سے کوئی تعلق نہیں ۔ پھر یہ سارے آداب
اس وقت تک رہتے ہیں جب تک بادشاہ زندہ ہے اور اس کی حکومت قائم ہے ۔ لیکن اس آسمان
کے نیچے ایک ایسا دربار بھی ہے جس کے آداب اور جس میں حاضر ہونے کے قاعدے ، سلام و
کلام کرنے کے طریقے خود ربِّ کریم نے بنائے، اپنی خلقت کو بتائے کہ اے میرے بندو !
جب اس دربار میں آؤ تو ایسے ایسے آداب کا خیال رکھنا اور خود فرمایا کہ اگر تم نے
اس کے خلاف کیا تو تم کو سخت سزا دی جائے گی ۔ پھر لطف یہ ہے کہ اب وہ شاہی دربار ہماری
آنکھوں سے چھپ گیا ۔ اس شہنشاہ نے ہم سے پردہ بھی فرمالیا، مگر اس کے آداب اب تک
وہی باقی، پھر اس دربار کے قوانین فقط انسانوں ہی پر جاری نہیں بلکہ وسعتِ سلطنت
کا یہ حال ہے کہ ہر عرشی، فرشی اس قاہر حکومت کا بندۂ بے زر۔ مسلمانو! معلوم ہے
وہ دربار کس کا ہے ؟ وہ دونوں جہاں کے مختار، حبیبِ کردگار، کونین کے شہنشاہ ،
رحمتہ اللعالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا دربار ہے ۔
دوستو! آؤ ہم تم کو قرآن کی سیر کرائیں اور دکھائیں کہ اس
نے اس سچے شہنشاہِ کونین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ کے کیا ادب
سکھائے:۔
(1) کچھ لوگ زمانۂ رسالت میں حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم سے پہلے ہی قربانی کر لیتے اور کچھ لوگ رمضان سے پیشتر روزے رکھنا
شروع کر دیتے ۔تو رب فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ
اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ
سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1)
اس آیت نے ادب سکھایا کہ کوئی مسلمان اللہ کے حبیب صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے کلام میں ، چلنے میں، غرض کسی کام میں حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے آگے نہ ہو ۔
(2) ارشاد فرمایا : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا
اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ
كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا
تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز
سےاور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو
کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)یہ آیت حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کے بارے میں
نازل ہوئی وہ اونچا سنا کرتے تھے ان کی آواز بھی اونچی تھی اور بات کرنے میں آواز
بلند ہو جایا کرتی تھی اور بعض اوقات اس سے حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کو اذیت ہوتی تھی۔
سبحان اللہ! کیا ادب سکھایا کہ اس بارگاہ میں حاضری دینے
والوں کو زور سے بولنے کی بھی اجازت نہیں ۔
(3) قبیلۂ بنی تمیم کے کچھ لوگ دوپہر کے وقت بارگاہِ رسالت
میں پہنچے۔ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دولت خانہ میں آرام فرما رہے
تھے ان لوگوں نے حجرے شریف کے باہر سے پکارنا شروع کر دیا ۔ رب کریم کو پسند نہ
ہوا کہ کوئی اس دولہا کو پکار کر بلائے جس کے گھر میں جبرئیل بے اجازت نہیں جا
سکتے ، فوراً یہ آیت کریمہ نازل ہوئی : اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ
الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے
پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں ۔ (پ26،الحجرات: 4) اب اللہ پاک ادب سکھاتا ہے: اور اگر یہ لوگ اتنا صبر کرتے کہ آپ ان کے پاس
خود تشریف لاتے تو یہ ان کے لئے بہتر تھا ۔ اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (پ26،الحجرات: 5) ادب سکھا یا کہ اگر کوئی شخص ایسے وقت آئے کہ میرے محبوب
علیہ السّلام دولت خانہ میں ہیں تو ان کو آواز دیکر نہ بلاؤ بلکہ تشریف آوری کا
انتظار کرو ۔ جب وہ نازنین سلطان خود تشریف لائیں تب عرض و معروض کرو ۔
(4) جب سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت زینب رضی اللہُ
عنہا سے نکاح کیا اور ولیمہ کی عام دعوت فرمائی تو لوگ جماعت کی صورت میں آتے
اور کھانے سے فارغ ہو کر چلے جاتے تھے۔ آخر میں تین صاحب ایسے تھے جو کھانے سے
فارغ ہو کر بیٹھے رہ گئے اور انہوں نے گفتگو کا طویل سلسلہ شروع کر دیا اور بہت دیر
تک ٹھہرے رہے۔ مکان تنگ تھا تو اس سے گھر والوں کو تکلیف ہوئی اور حرج واقع ہوا کہ
وہ ان کی وجہ سے اپنا کام کاج کچھ نہ کر سکے۔ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم اٹھے اور ازواجِ رضی اللہُ عَنہُنَّ
کے حجروں میں تشریف لے گئے اور جب دورہ فرما کر تشریف لائے تو اس وقت تک یہ لوگ
اپنی باتوں میں لگے ہوئے تھے۔ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پھر واپس
ہو گئے تو یہ دیکھ کر وہ لوگ روانہ ہوئے، تب حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم دولت سرائے میں داخل ہوئے اور دروازے پر پردہ ڈال دیا، اس پر یہ آیت کریمہ
نازل ہوئی: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ
لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُۙ-وَ لٰكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ
فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ
لِحَدِیْثٍؕ- ترجمۂ کنز ُالایمان: اے ایمان
والو نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ مثلا کھانے کے لیے بلائے
جاؤ نہ یوں کہ خود اس کے پکنے کی راہ تکو ہاں جب بلائے جاؤ تو حاضر ہو اور جب کھا
چکو تو متفرق ہو جاؤ نہ یہ کہ بیٹھے باتوں میں دل بہلاؤ ۔( پ 22، الاحزاب:53 ) اس
سے معلوم ہوا کہ بارگاہِ نبوت میں دعوت کھانے کے آداب یہ ہیں کہ کھانا پکنے سے
پہلے وہاں نہ پہنچو اور کھانا کھا کر پھر وہاں نہ بیٹھو... کیوں؟ اس کی وجہ قراٰن
بیان فرما رہا ہے: اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ
یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-وَ اللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ
الْحَقِّؕ ترجمۂ کنز ُالایمان: بےشک اس میں نبی کو ایذا ہوتی تھی تو
وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور اللہ حق فرمانے میں نہیں شرماتا۔( پ 22، الاحزاب:53
)
(5) صحابۂ کرام علیہم الرضوان کا یہ طریقہ تھا کہ اگر محبوب
علیہ السّلام کے کسی لفظ کو نہ سمجھ سکتے تو عرض کرتے راعنا یا رسول الله، یا حبیب
اللہ دوبارہ فرما دیجئے تاکہ ہم سمجھ لیں ۔ لفظ راعنا یہود کی زبان میں گستاخی کا
لفظ تھا ۔ انہوں نے یہی لفظ دوسرے معنی کی نیت سے بولنا شروع کر دیا اور دل میں
خوش ہوئے کہ بارگاہِ رسالت میں بکواس بکنے کا موقع مل گیا ۔ وہ بھیدوں کا جاننے
والا اور نیتوں سے واقف رب ہے اس کو یہ کیسے پسند ہو سکتا تھا کہ کسی کو میرے
محبوب کی جناب میں گستاخی کا موقع ملے، آیت کریمہ آئی: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ
عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ
حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(پ1،البقرۃ:104)

ادب ایک ایسا عمل ہے جس کو پوری دنیا تسلیم کرتی ہے۔ مؤدب
شخص کو دنیا میں ہر جگہ اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ جب لوگوں کے درمیان بداخلاقی کو پسند
نہیں کیا جاتا، تو بارگاہِ نبوی تو وہ بارگاہ ہے جہاں بے ادبی کی بالکل گنجائش
نہیں۔اسی مناسبت سے بارگاہِ نبوی کے 5 آداب ذکر کئے جاتے ہیں۔
(1) بارگاہِ نبوی میں کتنی آواز اور کیسے پکارا جائے : مقدّس
قراٰن میں اللہ پاک کا فرمان ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ
بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ
اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے
ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند
آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ
کہیں تمہارے اعمال بربادنہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)
(2) حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں ادب و احترام ملحوظ رکھے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ
اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ
سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1)
(3) اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا ادب بجا لاؤ۔ اللہ پاک کا فرمانِ عالیشان ہے: لِّتُؤْمِنُوْا
بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ
بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۹) ترجَمۂ کنزُالایمان: تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول
پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو۔(پ26،الفتح:9)
(4) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا بلانا اللہ پاک کے
بلانے کی طرح ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ
لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ ترجمۂ کنزُالعِرفان:
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤ جب وہ تمہیں اس چیز
کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔(پ9،الانفال:24)
(5) ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ
وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) وَ لَوْ اَنَّهُمْ
صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ
غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے
پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں ۔اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم ان کے پاس
خود تشریف لے آتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (پ26،الحجرات:5،4)
جو حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو خیمہ کے
باہر سے بلاتے انہیں اللہ پاک نے نا سمجھ فرمایا اور ادب و احترام کی تعلیم دی ۔

اللہ پاک نے
کائنات کو وجود بخشا اور اسی کائنات میں اللہ پاک نے بہت سے نبیوں کو بھیجا تاکہ
اللہ پاک اپنے پیغام کو نبیوں کے ذریعے اپنے بندوں تک پہنچائے اور ان کے ذریعے سے
بندے صراط مستقیم پر چلے اور گناہوں سے باز رہے۔
کئی قوموں نے انبیا
کی شان میں گستاخی کی تو اللہ پاک نے اس قوم کو ہلاک و برباد کردیا جیسے کہ قومِ
لوط عذابِ الٰہی میں گرفتار ہوئے۔ تمام نبیوں کے سردار ہمارے آخری نبی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں جن پر بابِ نبوت ختم ہوا ۔صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم بھی آپ کا ادب و احترام بجا لاتے
تھے آپ کی صحبت سے فیضیاب ہونے والوں کو صحابی کہتے ہیں جنہوں نے ادب و احترام کی
ایسی عظیم الشان مثالیں پیش کیں جس سے پوری تاریخ عاجز ہے۔
تو پتا چلا کہ ہر
مسلمان پر نبیوں کی تعظیم وتوقیر بجا لانا واجب ہے کیونکہ اللہ پاک نے قراٰنِ پاک
میں جاں بجا تعظیم و توقیر کا ذکر فرمایا۔ جن میں سے پانچ درج ذیل ہیں:۔
(1) اللہ پاک
قراٰنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ
اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ
سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1)اس آیت میں اللہ پاک
نے ایمان والوں کو اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب و احترام ملحوظ
رکھنے کی تعلیم دی ہے اور آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! اللہ پاک اور اس
کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اجازت کے بغیر کسی قول اور فعل میں اصلاً
ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے کیونکہ یہ آگے بڑھنا رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے ادب و احترام کے خلاف ہے جبکہ بارگاہِ رسالت میں نیاز مندی اور
آداب کا لحاظ رکھنا لازم ہے اور تم اپنے تمام اَقوال و اَفعال میں اللہ پاک سے ڈرو
کیونکہ اگر تم اللہ پاک سے ڈرو گے تو یہ ڈرنا تمہیں آگے بڑھنے سے روکے گا اور ویسے
بھی اللہ پاک کی شان یہ ہے کہ وہ تمہارے تمام اقوال کو سنتا اور تمام افعال کو
جانتا ہے اور جس کی ایسی شان ہے اس کا حق یہ ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔
(2) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ
بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ
اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز
سےاور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو
کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)اس آیت ِمبارکہ میں بھی اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے
حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو عظیم آداب سکھائے ہیں ،پہلا ادب یہ ہے
کہ اے ایمان والو! جب نبیٔ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تم سے کلام فرمائیں
اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی
آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پَست آواز سے کرو ۔دوسرا
ادب یہ ہے کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ندا کرنے میں ادب کا
پورا لحاظ رکھو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ
پکارو بلکہ تمہیں جو عرض کرنا ہو وہ ادب و تعظیم اور توصیف وتکریم کے کلمات اور
عظمت والے اَلقاب کے ساتھ عرض کرو جیسے یوں کہو: یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم ، یا نَبِیَّ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، کیونکہ ترکِ ادب
سے نیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہو گی ۔( قرطبی
، الحجرات ، تحت الآیۃ: 2 ، 8 / 220 ، الجزء السادس عشر)
(3) اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ
رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ
لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۳) ترجمۂ کنز الایمان :بےشک وہ
جو اپنی آوازیں پست کرتے ہیں رسول اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری
کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔(پ26،الحجرات:3)
اس آیت سے 5 باتیں معلوم
ہوئیں: (1)… تمام عبادات بدن کا تقویٰ ہیں اور حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا ادب دل کا تقویٰ ہے۔ (2)…اللہ پاک نے صحابہ ٔکرام رضی
اللہُ عنہم کے دل تقویٰ کے لئے پَرَکھ لئے ہیں تو جو انہیں مَعَاذَاللہ
فاسق مانے وہ اس آیت کا مُنکر ہے۔(3)…صحابہ ٔکرام رضی اللہُ عنہم انتہائی پرہیز
گار اور اللہ پاک سے بہت زیادہ ڈرنے والے تھے کیونکہ جس نے نبی کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اللہ پاک کا رسول مان لیا اور آپ کی اس قدر تعظیم کی کہ
آپ کے سامنے اس ڈر سے اپنی آواز تک بلند نہ کی کہ کہیں بلند آواز سے بولنے کی
بنا پر اس کے اعمال ضائع نہ ہو جائیں تو ا س کے دل میں اللہ پاک کی تعظیم اور اس
کا خوف کتنا زیادہ ہو گا۔(4)… حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہُ
عنہما کی بخشش یقینی ہے کیونکہ اللہ پاک نے ان کی بخشش کا اعلان فرما دیا ہے۔(5)…
ان دونوں بزرگوں کا اجر و ثواب ہمارے وہم و خیال سے بالا ہے کیونکہ اللہ پاک نے
اسے عظیم فرمایا ہے۔
(4) اِنَّ
الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا
یَعْقِلُوْنَ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان:
بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں ۔ (پ26،الحجرات: 4) شانِ نزول: بنو
تمیم کے چند لوگ دوپہر کے وقت رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں
پہنچے ،اس وقت حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آرام فرما رہے تھے، ان
لوگوں نے حُجروں کے باہر سے حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پکارنا
شروع کر دیا اور حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم باہر تشریف لے آئے،
ان لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی جلالت ِشان کو بیان فرمایا گیا کہ سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہِ اقدس میں اس طرح پکارنا جہالت اور بے عقلی ہے۔( مدارک ، الحجرات
، تحت الآیۃ: 4 ، ص1151 ، ملخصاً)
(5) وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى
تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور
اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم آپ اُن کے پاس تشریف لاتےتو یہ اُن کے لیے بہتر تھا
اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(پ26،الحجرات:5)اس آیت میں ان لوگوں کو ادب کی تلقین کی گئی کہ انہیں رسولِ کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پکارنے کی بجائے صبر اور انتظار کرنا چاہئے تھا یہاں تک کہ حضورِ
اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خود ہی مُقَدّس حجرے سے باہر نکل کر ان کے پاس
تشریف لے آتے اور اس کے بعد یہ لوگ اپنی عرض پیش کرتے۔ اگر وہ اپنے اوپر لازم اس
ادب کو بجا لاتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھا اور جن سے یہ بے ادبی سرزَد ہوئی ہے اگر
وہ توبہ کریں تو اللہ پاک اُنہیں بخشنے والا اور ان پر مہربانی فرمانے والا ہے۔(
خازن ، الحجرات ، تحت الآیۃ: 5 ، 4/ 166 ، روح البیان ، الحجرات ، تحت الآیۃ: 5
، 9 / 68 ، ملخصاً)
محمد کبیر احمد (درجہ سادسہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ
کنز الایمان ممبئی ہند)

اللہ پاک نے تمام مخلوق میں اپنے پیارے حبیب محمد عربی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اعلی و عرفہ مقام عطا فرمایا۔ ساتھ ساتھ ہمیں حضورِ
پاک کی آداب و اکرام کا بھی حکم فرمایا ۔قراٰنِ مجید میں پارہ 26 سورہ حجرات کی
آیت نمبر 2 میں ارشاد فرمایا : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ
بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ
اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز
سےاور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو
کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)
اور ایک مقام میں ارشاد فرمایا : وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ
جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا
اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴) ترجمۂ کنز العرفان: اور اگر جب وہ
اپنی جانوں پر ظلم کربیٹھے تھے تو اے حبیب! تمہاری بارگاہ میں حاضر ہو جاتے پھر
اللہ سے معافی مانگتے اور رسول (بھی) ان کی مغفرت کی دعا فرماتے تو ضرور اللہ کو
بہت توبہ قبول کرنے والا، مہربان پاتے۔(پ5،النسآء:64)
اللہ پاک نے اور ایک مقام میں ارشاد فرمایا: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ
شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸)
لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ
تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۹) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور
خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی
تعظیم و توقیرکرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو۔(پ26،الفتح:9،8)
اللہ پاک اور ایک مقام پر ارشاد فرمایا : یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَنَاجَیْتُمْ فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْاِثْمِ وَ
الْعُدْوَانِ وَ مَعْصِیَتِ الرَّسُوْلِ وَ تَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَ
التَّقْوٰىؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْۤ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ(۹) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو تم
جب آپس میں مشورت کرو تو گناہ اور حد سے بڑھنے اور رسول کی نافرمانی کی مشورت نہ
کرو اور نیکی اورپرہیزگاری کی مشورت کرو اور اللہ سے ڈرو جس کی طرف اٹھائے جاؤ گے۔(پ28،المجادلۃ:9)
سالانہ رہائشی سنتوں بھرے
اجتماع میں ملک بھر سے ناظمات اسلامی بہنوں کی شرکت

دنیا بھر کے اسلامی بہنوں کو قراٰن و حدیث کی تعلیمات سے
آگاہ کرنے اور اُن کی دینی و اخلاقی تربیت کرنےوالے دعوتِ اسلامی کے شعبہ فیضان آن
لائن اکیڈمی گرلز کے زیرِا ہتمام دارالسنہ کراچی سندھ میں 2 دن پر مشتمل سالانہ
رہائشی سنتوں بھرے اجتماع کا انعقاد کیا گیا جس میں شعبے کی ملک بھر سے ناظمات اسلامی بہنوں نے شرکت کی، جن کی تعداد
کم و بیش 80 تھی۔
تفصیلات کے مطابق اس
اجتماعِ پاک میں رکنِ عالمی مجلسِ مشاورت نگرانِ پاکستان مشاورت سمیت دیگر ذمہ دار
اسلامی بہنوں نے مختلف اوقات میں حاضرین کے درمیان اصلاحی موضوعات پر سنتوں بھرے
بیانات کئے۔
اس کے علاوہ ذمہ دار اسلامی بہنوں نے شرکائے
اجتماع کو دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں میں
بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا ذہن دیا جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔
ڈویژن تعلیمی امور ذمہ
دار اسلامی بہنوں کے لئے رہائشی سنتوں بھرے اجتماع کا
انعقاد

شعبہ فیضان آن لائن
اکیڈمی گرلز دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام دارالسنہ کراچی میں شعبے کی ڈویژن تعلیمی
امور ذمہ دار اسلامی بہنوں کے لئے 2 دن پر مشتمل رہائشی سنتوں بھرے اجتماع کا
انعقاد کیا گیا جس میں ڈسٹرکٹ و صوبائی اور مجلس ذمہ دار اسلامی بہن سمیت پاکستان
سطح کی دیگر اسلامی بہنیں شریک ہوئیں۔
دورانِ اجتماع رکنِ عالمی
مجلسِ مشاورت اسلامی بہن نے اصلاحی موضوع پر سنتوں بھرا بیان کیا نیز شرکا کی
تربیت کرتے ہوئے انہیں شعبے کے دینی کاموں میں مزید بہتری لانے کا ذہن دیا جس پر انہوں
نے اچھی اچھی نیتیں کیں۔
کراچی سندھ میں واقع
دارالسنہ میں 2 دن پر مشتمل سالانہ رہائشی سنتوں بھرے اجتماع کا انعقاد

عالمی سطح پر اسلامی
بہنوں کو قراٰن و حدیث کی تعلیمات سے آگاہ کرنے والے دعوتِ اسلامی کے شعبہ فیضان
آن لائن اکیڈمی گرلز کے زیرِا ہتمام کراچی سندھ میں واقع دارالسنہ میں 2 دن پر
مشتمل سالانہ رہائشی سنتوں بھرے اجتماع کا انعقاد کیا گیا جس میں شعبے کی ناظمات
اسلامی بہنیں شریک ہوئیں۔
دارالسنہ کراچی صدیق آباد
میں ہونے والے کورس ”اسلامی زندگی“ میں شریک اسلامی بہنوں کی تربیت

اسلامی بہنوں کو دینِ
اسلام کی تعلیمات سے آگاہ کرنے کے لئے کراچی صدیق آباد
میں واقع دارالسنہ میں دعوتِ اسلامی کے تحت رہائشی کورس بنام ”اسلامی
زندگی“ کا انعقاد کیا گیا جس میں کراچی سمیت بیرونِ ملک سے اسلامی بہنیں
بذریعہ آن لائن شریک ہوئیں۔
معلومات کے مطابق دورانِ
کورس دعوتِ اسلامی کی نگرانِ عالمی مجلسِ مشاورت اسلامی بہن نے شرکا کی تربیت و
رہنمائی کرتے ہوئے انہیں شریعت کے عین مطابق اپنی زندگی گزارنے کا ذہن دیا۔

ادب ایک ایسا عمل ہے جس کی وجہ سے انسان کو بلندی ،اور عزت حاصل
ہوتی ہے۔ جس کے اندر ادب نہیں ہوتا وہ بہت سی جگہ پر تنزلی اور بےعزتی کا شکار
ہوتا ہے۔
با ادب با نصیب بے ادب کم
نصیب
جو شخص جتنا عظیم ہوتا ہے اس کا ادب بھی اتنا ہی عظیم ہوتا
ہے ۔میرے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا رتبہ بہت بلند ہے اسی لئے ان کا
ادب بھی خود اللہ پاک نے لوگوں سے ارشاد فرما یا ہے۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا
ہے۔
(1) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ
اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ
سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1) تفسیر: اے ایمان والو! اللہ
پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اجازت کے بغیر کسی قول اور
فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے کیونکہ یہ آگے بڑھنارسولِ کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ادب و احترام کے خلاف ہے۔(صراط الجنان ،تحت
الآیۃ 1)
(2) یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اے ایمان
والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو ۔(پ26، الحجرات:2) تفسیر: اے ایمان والو! جب نبیٔ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم تم سے کلام فرمائیں اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے
کہ تمہاری آواز ان کی آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پَست
آواز سے کرو۔( قرطبی ، الحجرات ، تحت الآیۃ: 2 ، 8 / 220 ، الجزء السادس عشر)
(3) لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ
بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ ترجَمۂ کنزُالایمان: ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو ۔(پ26،الحجرات:2) تفسیر: حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ندا کرنے میں
ادب کا پورا لحاظ رکھو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو اس طرح
نہ پکارو بلکہ تمہیں جو عرض کرنا ہو وہ ادب و تعظیم اور توصیف و تکریم کے کلمات
اور عظمت والے اَلقاب کے ساتھ عرض کرو جیسے یوں کہو: یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم، یا نَبِیَّ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کیونکہ ترکِ ادب
سے نیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہو گی۔(ایضاً)
(4) یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ
اسْمَعُوْاؕ- ترجمۂ کنزالعرفان: اے ایمان والو!راعنا نہ کہو اور یوں
عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو۔(پ1،البقرۃ:104) تفسیر: حضور پُرنور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کلام فرمانے کے وقت ہمہ تن گوش ہو جاؤ تاکہ یہ عرض
کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم توجہ فرمائیں
کیونکہ دربارِ نبوت کا یہی ادب ہے۔(صراط الجنان تحت الآیۃ: 104)
(5) لَا
تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ترجمۂ
کنزُالعِرفان: (اے لوگو!) رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی
دوسرے کو پکارتا ہے۔(پ18،النور:63) تفسیر: اے لوگو! میرے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے
پکارنے کو آپس میں ایسا معمولی نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے
کیونکہ جسے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پکاریں اس پر جواب دینا اور
عمل کرنا واجب اور ادب سے حاضر ہونا لازم ہوجاتا ہے اور قریب حاضر ہونے کے لئے
اجازت طلب کر ے اور اجازت سے ہی واپس ہو۔(بیضاوی، النور، تحت الآیۃ: 63)
اے عزیز! دیکھا آپ نے کے ہمارے نبیٔ پاک صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے آداب کتنے عظیم ہیں کہ اللہ پاک خود آداب بیان فرما رہا ہے ۔
ہم خود بھی نبیٔ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب
و احترام کریں اور اپنے بچوں کو بھی اس کی تعلیم دے تاکہ ہماری نسلیں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب کرنے
والی ہوں۔
اللہ پاک ہم کو اللہ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا با ادب بنائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اللہ پاک کا کروڑہا کروڑ احسان ہے کہ ہمیں اس نے مسلمان
بنایا اور اس پر کرم بالائے کرم کہ اپنے حبیب شہنشاہِ کونین سید الثقلین مصطفی جانِ
رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امت میں ہمیں پیدا فرمایا جو سب امتوں سے
افضل ہے ۔ اس دنیا میں بہت سے بادشاہ گزرے ہیں جنہوں نے اپنے مقام و مرتبے اور
اپنی شان و شوکت کے اعتبار سے اپنی اپنی بارگاہوں کے کچھ نہ کچھ آداب بتائیں ۔
ہمارے پیارے آقا احمدِ مجتبیٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
اس دنیا میں آنے والے تمام بادشاہوں کے بادشاہ اور تمام شہنشاہوں کے شہنشاہ ہے۔اللہ
کی تمام مخلوق کے سردار اور سب مخلوقِ خدا سے افضل ہے۔ آپ کی شان ہی ہے کہ دیگر
انبیاء کرام علیہم السلام کو اپنی اپنی قوم کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا لیکن حضور
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خود ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھے تمام مخلوق کی طرف
نبی بنا کر بھیجا گیا۔
ایسی عظیم شان و شوکت والے نبی جن کو تمام جہان کی بادشاہی
عطا کی گئی ہیں۔ ان کی بارگاہ کے آداب کے تو کیا کہنے۔ جن کی بارگاہ کے آداب خود
رب العالمین بیان فرماتا ہے۔ جیسا کہ قراٰنِ کریم پارہ 26 سورہ حجرات کی آیت نمبر
2 میں ارشادِ خداوندی ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا
تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ
اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز
سےاور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک
دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں
خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2) اس آیتِ پاک میں اللہ پاک نے نبی کی مبارک آواز سے اوروں کو
آواز بلند کرنے سے منع فرمایا ہے اور فرمایا کہ حضور کی بارگاہ میں بھی آواز بلند
نہ کرو۔
اور پھر جو حضور کی
بارگاہ میں آواز پست کرتے ہے ان کے لئے خوش خبری ہے ۔
جیسا کہ سورہ حجرات
آیت 3 میں ہے : اِنَّ الَّذِیْنَ
یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ
امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ
عَظِیْمٌ(۳) ترجمۂ کنز الایمان :بےشک وہ جو اپنی آوازیں پست کرتے ہیں
رسول اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے
بخشش اور بڑا ثواب ہے۔(پ26،الحجرات:3)
ایک اور جگہ سورہ
حجرات آیت 4 میں فرمایا: اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ
الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے
پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں ۔ (پ26،الحجرات: 4) اس آیت میں رب العزت نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حجرۂ مبارکہ کے
باہر سے لوگوں منع فرمایا ہے کہ وہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پکارے
بلکہ فرمایا بہتر یہ ہے کہ آنے والا شخص حضور کے باہر تشریف لانے کا انتظار کرے۔
جیسا کہ سورہ حجرات
آیت 5 میں ارشاد ہوا کہ: وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ
خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور
اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم آپ اُن کے پاس تشریف لاتےتو یہ اُن کے لیے بہتر تھا
اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(پ26،الحجرات:5)
اللہ پاک نے کیسا
ادب بیان فرمایا ہے اپنے حبیب کی بارگاہ کا۔ ایک اور مقام پر ایسے الفاظ استعمال
کرنے سے منع فرمایا ہے جن کے عموماً دو پہلو نکلتے ہو ۔
سورہ بقرہ آیت 104
میں ارشاد فرمایا گیا : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا
وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ
حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(پ1،البقرۃ:104)
اس آیت پاک کا شانِ
نزول تفسیرِ صراطُ الجنان میں کچھ یوں ہے کہ : جب حضورِ اقدس صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صحابۂ کرام رضی
اللہُ عنہم کو کچھ تعلیم و تلقین
فرماتے تو وہ کبھی کبھی درمیان میں عرض کیا کرتے۔ ’’رَاعِنَا یارسول اللہ‘‘ اس کے یہ معنی تھے کہ یا رسول اللہ ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، ہمارے حال کی رعایت
فرمائیے یعنی کلامِ اقدس کو اچھی طرح سمجھ لینے کا موقع دیجئے۔ یہودیوں کی لغت میں
یہ کلمہ بے ادبی کا معنی رکھتا تھا اور انہوں نے اسی بری نیت سے کہنا شروع کردیا۔
حضرت سعد بن معاذ رضی اللہُ عنہ یہودیوں
کی اصطلاح سے واقف تھے۔ آپ نے ایک روز یہ کلمہ ان کی زبان سے سن کر فرمایا: اے
دشمنانِ خدا !تم پر اللہ کی لعنت، اگر میں نے اب کسی کی زبان سے یہ کلمہ سنا تو اس
کی گردن اڑا دوں گا۔ یہودیوں نے کہا: ہم پر تو آپ برہم ہوتے ہیں جبکہ مسلمان بھی
تو یہی کہتے ہیں ، اس پر آپ رنجیدہ ہو کر سرکار ِ دوعالم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئے ہی تھے کہ یہ آیت
نازل ہوئی جس میں ’’رَاعِنَا‘‘ کہنے کی ممانعت فرمادی
گئی اور اس معنی کا دوسرا لفظ ’’اُنْظُرْنَا‘‘ کہنے کا حکم ہوا ۔ (قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: 104، 1/ 44-45، الجزء الثانی، تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: 104، ۱ / 634، تفسیر عزیزی(مترجم)2 / 669، ملتقطاً) اور اسی آیت میں ایک اور ادب یہ فرمایا کہ جب حضور کوئی
بات فرمائے تو اس طرح ہمہ تن گوش ہو کر سنو کہ دوبارہ فرمانے کی حاجت ہی نہ پڑے۔
اس آیتِ مقدسہ سے
ہمیں معلوم ہوا کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی تعظیم و توقیر اور ان کی بارگاہ کا
ادب بجا لانا فرض ہےاور ایسا جملہ جس میں بارگاہِ رسالت کے آداب ترک ہونے کی تھوڑی
سی بھی بو آئے اسے زبان پر نہ لایا جائے۔ اور جو حضورِ اکرم کی بارگاہ کے معمولی
سے بھی بے ادب ہوئے ان کے لئے درد ناک عذاب کا وعدہ ہے نیز اس آیتِ مبارکہ سے یہ
بھی معلوم ہوا کہ خود رب العالمین حضور کی بارگاہ کی تعظیم و توقیر کے متعلق
احکامات کو جاری فرماتا ہے۔
اللہ کریم سے دعا
ہے کہ ہمیں اپنے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ کا ایسا ادب
کرنے والا بنائے جیسا اللہ و رسول چاہتے ہے۔

تمام
تعریفیں اللہ ہی کے لیے جس نے اپنے سب سے خاص اور محبوب نبی مکی مدنی مصطفے صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو مبعوث فرمایا اور ہم پر یہ احسانِ عظیم کیا کہ ہمیں ان
کا امتی بنایا اور اللہ پاک نے ایسا محبوب بنایا کی ان کی شان کو آپ نے پاک کلام
کلامِ ربانی قراٰنِ مجید میں تعریف یوں بیان کی کہ کہی شان کو بیان کیا ، کہی ان
کی عظمت کو تو کہی بارگاہِ نبوی کے آداب کو بیان کیا اور بارگاہِ نبوی کا ادب تمام
مسلمانوں پر فرض عین ہیں اور اگر کوئی بارگاہِ نبوی میں گستاخی یا بے ادبی کریں تو
اس کا انجام کفر ہیں۔
آئیں قراٰنِ کریم میں بارگاہِ نبوی کے چند آداب کو ملاحظہ
کرتے ہیں :۔
(1) بارگاہِ
نبوی میں اپنی آواز کو بلند کرنے کی نفی: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ
لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ
اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز
سےاور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو
کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)
(2) بارگاہِ
اقدس میں حجروں کے باہر سے پکارنے کی ممانعت :اِنَّ
الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا
یَعْقِلُوْنَ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے
پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں ۔ (پ26،الحجرات: 4) بنو تمیم کے چند لوگ دوپہر کے وقت رسولِ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں پہنچے ،اس وقت آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم آرام فرما رہے تھے، ان لوگوں نے حُجروں کے باہر سے پکارنا شروع کر دیا،
ان لوگوں کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔
(3) بارگاہِ رسالت میں ترکِ ادب والے الفاظ کو استعمال کرنے سے
بچنا: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ
اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ
حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(پ1،البقرۃ:104) اس آیت سے
معلوم ہوا کہ انبیاء کرام علیہم السّلام کی تعظیم و توقیر اور ان کی
جناب میں ادب کا لحاظ کرنا فرض ہے اور جس کلمہ میں ترکِ ادب کا اندیشہ ہو، وہ زبان
پر لانا ممنوع ہے۔ ایسے الفاظ کے بارے میں حکمِ شرعی یہ ہے کہ جس لفظ کے دو معنی
ہوں اچھے اور برے اور بولنے میں اس برے معنیٰ کی طرف بھی ذہن جاتا ہو تو وہ
بھی اللہ پاک اور حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے استعمال
نہ کئے جائیں۔
(4) بارگاہِ نبوی میں قول یا
فعل کے ذریعہ سے آگے بڑھنے کی ممانعت : یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ
اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ
سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1) اس آیت سے معلوم
ہوا کہ اے ایمان والو! اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی اجازت کے بغیر کسی قول اور فعل میں بالکل بھی ان سے آگے نہ بڑھنا
تم پر لازم ہے کیونکہ کہ آگے بڑھنا رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے ادب و احترام کے خلاف ہے جبکہ بارگاہِ رسالت میں آداب کا لحاظ
رکھنا لازم ہیں ۔
(5) اِنَّ الَّذِیْنَ
یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ
امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ
عَظِیْمٌ(۳) ترجمۂ کنز
الایمان :بےشک وہ جو اپنی آوازیں پست کرتے ہیں رسول اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل
اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔(پ26،الحجرات:3) اس آیت نازل ہونے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ،حضرت عمر
فاروق اور کچھ دیگر صحابہ کرام رضی الله عنہم نے بہت احتیاط لازم کر لی اور سرکار
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمتِ اقدس میں بہت ہی پَست آواز سے عرض
کرتے۔
پیارے اسلامی بھائیوں یہ بھی معلوم ہوا کہ حضورِ پُر نور
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ کا ادب ربِّ کریم خود سکھاتا ہے اور
تعظیم کے متعلق احکام کو خود جاری فرماتا ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی با
ادب بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم