اللہ پاک نے کائنات کو وجود بخشا اور اسی کائنات میں اللہ پاک نے بہت سے نبیوں کو بھیجا تاکہ اللہ پاک اپنے پیغام کو نبیوں کے ذریعے اپنے بندوں تک پہنچائے اور ان کے ذریعے سے بندے صراط مستقیم پر چلے اور گناہوں سے باز رہے۔

کئی قوموں نے انبیا کی شان میں گستاخی کی تو اللہ پاک نے اس قوم کو ہلاک و برباد کردیا جیسے کہ قومِ لوط عذابِ الٰہی میں گرفتار ہوئے۔ تمام نبیوں کے سردار ہمارے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں جن پر بابِ نبوت ختم ہوا ۔صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم بھی آپ کا ادب و احترام بجا لاتے تھے آپ کی صحبت سے فیضیاب ہونے والوں کو صحابی کہتے ہیں جنہوں نے ادب و احترام کی ایسی عظیم الشان مثالیں پیش کیں جس سے پوری تاریخ عاجز ہے۔

تو پتا چلا کہ ہر مسلمان پر نبیوں کی تعظیم وتوقیر بجا لانا واجب ہے کیونکہ اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں جاں بجا تعظیم و توقیر کا ذکر فرمایا۔ جن میں سے پانچ درج ذیل ہیں:۔

(1) اللہ پاک قراٰنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1)اس آیت میں اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب و احترام ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی ہے اور آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اجازت کے بغیر کسی قول اور فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے کیونکہ یہ آگے بڑھنا رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ادب و احترام کے خلاف ہے جبکہ بارگاہِ رسالت میں نیاز مندی اور آداب کا لحاظ رکھنا لازم ہے اور تم اپنے تمام اَقوال و اَفعال میں اللہ پاک سے ڈرو کیونکہ اگر تم اللہ پاک سے ڈرو گے تو یہ ڈرنا تمہیں آگے بڑھنے سے روکے گا اور ویسے بھی اللہ پاک کی شان یہ ہے کہ وہ تمہارے تمام اقوال کو سنتا اور تمام افعال کو جانتا ہے اور جس کی ایسی شان ہے اس کا حق یہ ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔

(2) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سےاور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)اس آیت ِمبارکہ میں بھی اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو عظیم آداب سکھائے ہیں ،پہلا ادب یہ ہے کہ اے ایمان والو! جب نبیٔ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تم سے کلام فرمائیں اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پَست آواز سے کرو ۔دوسرا ادب یہ ہے کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ندا کرنے میں ادب کا پورا لحاظ رکھو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ پکارو بلکہ تمہیں جو عرض کرنا ہو وہ ادب و تعظیم اور توصیف وتکریم کے کلمات اور عظمت والے اَلقاب کے ساتھ عرض کرو جیسے یوں کہو: یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، یا نَبِیَّ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، کیونکہ ترکِ ادب سے نیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہو گی ۔( قرطبی ، الحجرات ، تحت الآیۃ: 2 ، 8 / 220 ، الجزء السادس عشر)

(3) اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۳) ترجمۂ کنز الایمان :بےشک وہ جو اپنی آوازیں پست کرتے ہیں رسول اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔(پ26،الحجرات:3)

اس آیت سے 5 باتیں معلوم ہوئیں: (1)… تمام عبادات بدن کا تقویٰ ہیں اور حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب دل کا تقویٰ ہے۔ (2)…اللہ پاک نے صحابہ ٔکرام رضی اللہُ عنہم کے دل تقویٰ کے لئے پَرَکھ لئے ہیں تو جو انہیں مَعَاذَاللہ فاسق مانے وہ اس آیت کا مُنکر ہے۔(3)…صحابہ ٔکرام رضی اللہُ عنہم انتہائی پرہیز گار اور اللہ پاک سے بہت زیادہ ڈرنے والے تھے کیونکہ جس نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اللہ پاک کا رسول مان لیا اور آپ کی اس قدر تعظیم کی کہ آپ کے سامنے اس ڈر سے اپنی آواز تک بلند نہ کی کہ کہیں بلند آواز سے بولنے کی بنا پر اس کے اعمال ضائع نہ ہو جائیں تو ا س کے دل میں اللہ پاک کی تعظیم اور اس کا خوف کتنا زیادہ ہو گا۔(4)… حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہما کی بخشش یقینی ہے کیونکہ اللہ پاک نے ان کی بخشش کا اعلان فرما دیا ہے۔(5)… ان دونوں بزرگوں کا اجر و ثواب ہمارے وہم و خیال سے بالا ہے کیونکہ اللہ پاک نے اسے عظیم فرمایا ہے۔

(4) اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں ۔ (پ26،الحجرات: 4) شانِ نزول: بنو تمیم کے چند لوگ دوپہر کے وقت رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں پہنچے ،اس وقت حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آرام فرما رہے تھے، ان لوگوں نے حُجروں کے باہر سے حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پکارنا شروع کر دیا اور حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم باہر تشریف لے آئے، ان لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جلالت ِشان کو بیان فرمایا گیا کہ سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہِ اقدس میں اس طرح پکارنا جہالت اور بے عقلی ہے۔( مدارک ، الحجرات ، تحت الآیۃ: 4 ، ص1151 ، ملخصاً)

(5) وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم آپ اُن کے پاس تشریف لاتےتو یہ اُن کے لیے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(پ26،الحجرات:5)اس آیت میں ان لوگوں کو ادب کی تلقین کی گئی کہ انہیں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پکارنے کی بجائے صبر اور انتظار کرنا چاہئے تھا یہاں تک کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خود ہی مُقَدّس حجرے سے باہر نکل کر ان کے پاس تشریف لے آتے اور اس کے بعد یہ لوگ اپنی عرض پیش کرتے۔ اگر وہ اپنے اوپر لازم اس ادب کو بجا لاتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھا اور جن سے یہ بے ادبی سرزَد ہوئی ہے اگر وہ توبہ کریں تو اللہ پاک اُنہیں بخشنے والا اور ان پر مہربانی فرمانے والا ہے۔( خازن ، الحجرات ، تحت الآیۃ: 5 ، 4/ 166 ، روح البیان ، الحجرات ، تحت الآیۃ: 5 ، 9 / 68 ، ملخصاً)