تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے جس نے اپنے سب سے خاص اور محبوب نبی مکی مدنی مصطفے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو مبعوث فرمایا اور ہم پر یہ احسانِ عظیم کیا کہ ہمیں ان کا امتی بنایا اور اللہ پاک نے ایسا محبوب بنایا کی ان کی شان کو آپ نے پاک کلام کلامِ ربانی قراٰنِ مجید میں تعریف یوں بیان کی کہ کہی شان کو بیان کیا ، کہی ان کی عظمت کو تو کہی بارگاہِ نبوی کے آداب کو بیان کیا اور بارگاہِ نبوی کا ادب تمام مسلمانوں پر فرض عین ہیں اور اگر کوئی بارگاہِ نبوی میں گستاخی یا بے ادبی کریں تو اس کا انجام کفر ہیں۔

آئیں قراٰنِ کریم میں بارگاہِ نبوی کے چند آداب کو ملاحظہ کرتے ہیں :۔

(1) بارگاہِ نبوی میں اپنی آواز کو بلند کرنے کی نفی: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سےاور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)

(2) بارگاہِ اقدس میں حجروں کے باہر سے پکارنے کی ممانعت :اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں ۔ (پ26،الحجرات: 4) بنو تمیم کے چند لوگ دوپہر کے وقت رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں پہنچے ،اس وقت آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آرام فرما رہے تھے، ان لوگوں نے حُجروں کے باہر سے پکارنا شروع کر دیا، ان لوگوں کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔

(3) بارگاہِ رسالت میں ترکِ ادب والے الفاظ کو استعمال کرنے سے بچنا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(پ1،البقرۃ:104) اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام علیہم السّلام کی تعظیم و توقیر اور ان کی جناب میں ادب کا لحاظ کرنا فرض ہے اور جس کلمہ میں ترکِ ادب کا اندیشہ ہو، وہ زبان پر لانا ممنوع ہے۔ ایسے الفاظ کے بارے میں حکمِ شرعی یہ ہے کہ جس لفظ کے دو معنی ہوں اچھے اور برے اور بولنے میں اس برے معنیٰ کی طرف بھی ذہن جاتا ہو تو وہ بھی اللہ پاک اور حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے استعمال نہ کئے جائیں۔

(4) بارگاہِ نبوی میں قول یا فعل کے ذریعہ سے آگے بڑھنے کی ممانعت : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1) اس آیت سے معلوم ہوا کہ اے ایمان والو! اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اجازت کے بغیر کسی قول اور فعل میں بالکل بھی ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے کیونکہ کہ آگے بڑھنا رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ادب و احترام کے خلاف ہے جبکہ بارگاہِ رسالت میں آداب کا لحاظ رکھنا لازم ہیں ۔

(5) اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۳) ترجمۂ کنز الایمان :بےشک وہ جو اپنی آوازیں پست کرتے ہیں رسول اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔(پ26،الحجرات:3) اس آیت نازل ہونے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ،حضرت عمر فاروق اور کچھ دیگر صحابہ کرام رضی الله عنہم نے بہت احتیاط لازم کر لی اور سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمتِ اقدس میں بہت ہی پَست آواز سے عرض کرتے۔

پیارے اسلامی بھائیوں یہ بھی معلوم ہوا کہ حضورِ پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ کا ادب ربِّ کریم خود سکھاتا ہے اور تعظیم کے متعلق احکام کو خود جاری فرماتا ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی با ادب بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم