تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے جس نے ہمیں مسلمان پیدا کیا بے شمار نعمتوں سے نوازا، کروڑوں درود و سلام نازل ہو اس کے پیارے حبیب، بیماروں کے طبیب، نبیٔ محتشم، رسولِ اعظم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر جن کے صدقے و طفیل ہمیں زندگی ملی اور جن کی شفاعت پر ہماری بخشش موقوف ہے، جن کی بارگاہ کا ادب ہر ایک پر فرضِ عین بلکہ تمام فرائض سے بڑھ کر فرض ہے۔ تعظیمِ رسول اطاعتِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مدارِ ایمان ہے اس بارگاہ میں ادنی سی بھی بے ادبی دین وایمان کی ہلاکت وبربادی کا سبب ہے ۔ اللہ رب العزت نے قراٰن مجید میں جگہ جگہ اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ کے ادب سکھائے۔

بقول ڈاکٹر اقبال :ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔سرکارِ کائنات کی محبت کے بغیر کوئی مؤمن نہیں ہو سکتا ۔ آقا علیہ السّلام سے مخاطبت کے ادب سکھاتے ہوئے دیکھئے قراٰن کیا کہتا ہے:۔

(1)یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(پ1،البقرۃ:104) تفسیر: جب حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم کو کچھ تعلیم و تلقین فرماتے تو وہ کبھی کبھی درمیان میں عرض کیا کرتے۔ ’’رَاعِنَا یَارَسُوْلَ اللہْ‘‘ اس کے یہ معنی تھے کہ یا رسول اللہ !صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، ہمارے حال کی رعایت فرمائیے یعنی کلامِ اقدس کو اچھی طرح سمجھ لینے کا موقع دیجئے۔ یہودیوں کی لغت میں یہ کلمہ بے ادبی کامعنی رکھتا تھا اور انہوں نے اسی بری نیت سے کہنا شروع کردیا۔ مگر اللہ پاک کو اپنے محبوب کی توہین کب گوارہ تھی اس لئے اس نے اپنے محبوب کی عزت کی حفاظت کیلئے آیت کا نزول فرمایا اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ راعنا کے بجائے انظرنا کہا کریں اور ساتھ ہی تاکید فرمائی کہ میرے محبوب کے کلام کو بغور سنو تاکہ دورانِ بیان کچھ دریافت کرنے کی نوبت ہی نہ آئے ۔

یہ دیکھیں بارگاہِ رسالت کا ادب واحترام قراٰنِ پاک کس پیارے انداز سے سکھا رہا ہے۔

(2)لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ-قَدْ یَعْلَمُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ یَتَسَلَّلُوْنَ مِنْكُمْ لِوَاذًاۚ-فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖۤ اَنْ تُصِیْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ یُصِیْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۶۳) ترجمۂ کنزُالعِرفان: (اے لوگو!) رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے، بیشک اللہ ان لوگوں کو جانتا ہے جو تم میں سے کسی چیز کی آڑ لے کر چپکے سے نکل جاتے ہیں تو رسول کے حکم کی مخالفت کرنے والے اس بات سے ڈریں کہ انہیں کوئی مصیبت پہنچے یا انہیں دردناک عذاب پہنچے۔( پ18، النور:63)شرح: سبحان اللہ! بارگاہِ نبوت کا اداب واحترام رکھنے کا حکم دیا جا رہا ہے اور اس طرح پکارنے سے منع کیا جا رہا ہے جس طرح عام لوگ ایک دوسرے کو پکارتے ہیں لیکن اگر پکارنا ہو تو نہایت عاجزی و انکساری کے ساتھ یا رسول اللہ، یا نبی اللہ کہہ کر پکارو تاکہ ایمان کی دولت باقی رہے۔

(3) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1) اس آیت میں اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب و احترام ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی ہے اور آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اجازت کے بغیر کسی قول اور فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے کیونکہ یہ آگے بڑھنا رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ادب و احترام کے خلاف ہے جبکہ بارگاہِ رسالت میں نیاز مندی اور آداب کا لحاظ رکھنا لازم ہے اور تم اپنے تمام اَقوال و اَفعال میں اللہ پاک سے ڈرو کیونکہ اگر تم اللہ پاک سے ڈرو گے تو یہ ڈرنا تمہیں آگے بڑھنے سے روکے گا اور ویسے بھی اللہ پاک کی شان یہ ہے کہ وہ تمہارے تمام اقوال کو سنتا اور تمام افعال کو جانتا ہے اور جس کی ایسی شان ہے اس کا حق یہ ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔ (تفسیر صراط الجنان)

(4،5 ) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سےاور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2) اس آیت ِمبارکہ میں بھی اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو عظیم آداب سکھائے ہیں ،پہلا ادب یہ ہے کہ اے ایمان والو! جب نبیٔ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تم سے کلام فرمائیں اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پَست آواز سے کرو ۔دوسرا ادب یہ ہے کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ندا کرنے میں ادب کا پورا لحاظ رکھو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ پکارو بلکہ تمہیں جو عرض کرنا ہو وہ ادب و تعظیم اور توصیف وتکریم کے کلمات اور عظمت والے اَلقاب کے ساتھ عرض کرو جیسے یوں کہو: یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، یا نَبِیَّ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، کیونکہ ترکِ ادب سے نیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہو گی ۔( قرطبی ، الحجرات ، تحت الآیۃ: 2 ، 8 / 220 ، الجزء السادس عشر)

بارگاہِ رسالت کا ادب بجا لانے کا درس : بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا جو ادب و احترام ان آیات میں بیان ہوا، یہ آپ کی ظاہری حیاتِ مبارکہ کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے بلکہ آپ کی وفات ِظاہری سے لے کر تا قیامت بھی یہی ادب و احترام باقی ہے۔ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :اب بھی حاجیوں کو حکم ہے کہ جب روضۂ پاک پر حاضری نصیب ہو تو سلام بہت آہستہ کریں اور کچھ دور کھڑے ہوں بلکہ بعض فُقہا نے تو حکم دیا ہے کہ جب حدیث ِپاک کا درس ہو رہا ہو تو وہاں دوسرے لوگ بلند آواز سے نہ بولیں کہ اگرچہ بولنے والا (یعنی حدیث ِپاک کا درس دینے والا) اور ہے مگر کلام تو رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ہے ۔(شان حبیب الرحمٰن،ص225)


ربِ رحیم نے اپنے محبوبِ کریم کی کیا شان بلند فرمائی ہے جس کی بارگاہ میں حاضری کو رب العالمین نے اپنی بارگاہ میں حاضری کا ذریعہ بتادیا تبھی تو قراٰنِ کریم میں ارشاد ہوتا ہے: وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴) ترجمۂ کنز العرفان: اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کربیٹھے تھے تو اے حبیب! تمہاری بارگاہ میں حاضر ہو جاتے پھر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول (بھی) ان کی مغفرت کی دعا فرماتے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا، مہربان پاتے۔(پ5،النسآء:64)

اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: بندوں کو حکم ہے کہ ان (یعنی نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی بارگاہ میں حاضر ہو کر توبہ و استغفار کریں۔ اللہ تو ہر جگہ سنتا ہے، اس کا علم ،اس کا سَمع (یعنی سننا)، اس کا شُہود (یعنی دیکھنا) سب جگہ ایک سا ہے، مگر حکم یہی فرمایا کہ میری طرف توبہ چاہو تو میرے محبوب کے حضور حاضر ہو۔ (فتاویٰ رضویہ،15/ 654)

اسی لئے تو امام عشق و محبت امام احمد رضا رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:

بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مَفَر مَقَر

جو وہاں سے ہو یہیں آ کے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں

لہذا تھوڑا سا بھی عقل و شعور رکھنے والا سمجھ سکتا ہے کہ بارگاہِ نبوی میں کس قدر ادب کو ملحوظ رکھا جائے گا، کہ یہی درِ خدا ہے۔ چنانچہ اسی ضمن میں بارگاہِ نبوی کے 5 آداب قراٰنِ کریم سے بیان کئے دیتے ہیں جو اللہ پاک نے بندوں کو سکھائے ہیں۔

(1) قراٰنِ کریم میں ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(پ1،البقرۃ:104)

جب حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم کو کچھ تعلیم و تلقین فرماتے تو وہ کبھی کبھی درمیان میں عرض کیا کرتے۔ "رَاعِنَا یَارَسُوْلَ اللہْ" اس کے یہ معنی تھے کہ یا رسول اللہ ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، ہمارے حال کی رعایت فرمائیے یعنی کلامِ اقدس کو اچھی طرح سمجھ لینے کا موقع دیجئے۔ یہودیوں کی لغت میں یہ کلمہ بے ادبی کا معنی رکھتا تھا اور انہوں نے اسی بری نیت سے کہنا شروع کردیا۔ تو یہ آیت نازل ہوئی جس میں "رَاعِنَا" کہنے کی ممانعت فرما دی گئی اور اس معنی کا دوسرا لفظ "اُنْظُرْنَا" کہنے کا حکم ہوا۔ لہذا اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام علیہمُ السّلام کی تعظیم و توقیر اور ان کی جناب میں ادب کا لحاظ کرنا فرض ہے اور جس کلمہ میں ترکِ ادب کا معمولی سا بھی اندیشہ ہو وہ زبان پر لانا ممنوع ہے۔ (صراط الجنان)

(2) مذکورہ آیت کے اس جز "وَ اسْمَعُوْا": اور غور سے سنو۔" میں بھی ایک ادب بیان ہوا کہ حضورِ پُرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کلام فرمانے کے وقت ہمہ تن گوش ہو جاؤ تاکہ یہ عرض کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم توجہ فرمائیں کیونکہ دربارِ نبوت کا یہی ادب ہے۔ (صراط الجنان)

(3،4) اللہ پاک فرماتا ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سےاور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2) اس آیت ِمبارکہ میں بھی اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو عظیم آداب سکھائے ہیں، پہلا (1) ادب یہ ہے کہ اے ایمان والو! جب نبیٔ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تم سے کلام فرمائیں اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پَست آواز سے کرو۔ دوسرا (2) ادب یہ ہے کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ندا کرنے میں ادب کا پورا لحاظ رکھو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ پکارو بلکہ تمہیں جو عرض کرنا ہو وہ ادب و تعظیم اور توصیف وتکریم کے کلمات اور عظمت والے اَلقاب کے ساتھ عرض کرو جیسے یوں کہو: یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، یا نَبِیَّ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، کیونکہ ترکِ ادب سے نیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہو گی۔

(5) بارگاہِ نبوی کا پانچواں ادب میرا رب سکھاتے ہوئے فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1) اس آیت میں اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب و احترام ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی ہے اور آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اجازت کے بغیر کسی قول اور فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے کیونکہ یہ آگے بڑھنا رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ادب و احترام کے خلاف ہے۔(صراط الجنان)

بارگاہِ نبوی کے جو آداب قراٰنِ کریم میں وارد ہیں اللہ پاک ہمیں ان کا لحاظ کرنے والا بنائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


پیارے پیارے اسلامی بھائیوں! اللہ پاک نے انسانوں کی رشد و ہدایت اور فلاح و کامرانی کے لئے انبیاء کرام کو مبعوث فرمایا اور ان انبیاء کرام میں اللہ پاک نے سب سے آخر میں ہمارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو مبعوث فرما کر بابِ نبوت بند کر دیا۔ اور اللہ نے ان انبیاء کرام کی بارگاہ میں ادب و تعظیم کے ساتھ پیش آنے کا حکم ارشاد فرمایا اور ان کی بارگاہ میں بے ادبی اور گستاخی سے پیش آنے والوں کے بارے میں بہت سخت وعیدیں فرمائیں۔ آئیے ہم کچھ بارگاہِ نبوی کے آداب رقم طراز کرتے ہیں تاکہ ہم مسلمان ان آداب پر عمل کر کے فلاحِ دارین سے مالامال ہو۔

(1) آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو نام لیکر پکارنا نہیں چاہیے: چنانچہ ارشاد باری ہیں: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ترجمۂ کنزُالعِرفان: (اے لوگو!) رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔(پ18،النور:63) مفتی قاسم صاحب تحتِ آیت رقم طراز ہے کہ : ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! میرے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔

مفتی صاحب نے اس آیت کے چند معانی بیان کیے جن میں سے ایک یہ ہے کہ اے لوگو! میرے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نام لے کر نہ پکارو بلکہ تعظیم،تکریم، توقیر، نرم آواز کے ساتھ اور عاجزی و انکساری سے انہیں ا س طرح کے الفاظ کے ساتھ پکارو: یَارَسُوْلَ اللہ، یَانَبِیَّ اللہ، یَاحَبِیْبَ اللہ، یَااِمَامَ الْمُرْسَلِیْنَ، یَارَسُوْلَ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، یَاخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ۔(تفسیر صراط الجنان ،ج6)

(2) کسی قول و فعل میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1) اس آیت میں اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب و احترام ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی ہے اور آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اجازت کے بغیرکسی قول و فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے کیونکہ یہ آگے بڑھنا رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ادب و احترام کے خلاف ہے جبکہ بارگاہِ رسالت میں نیاز مندی اور آداب کا لحاظ رکھنا لازم ہے۔ (تفسیر صراط الجنان جلد 9)

چنانچہ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :(اس آیت کا)شانِ نزول کچھ بھی ہو مگر یہ حکم سب کو عام ہے یعنی کسی بات میں ،کسی کام میں حضور علیہ الصّلوۃُ و السّلام سے آگے ہونا منع ہے ،اگر حضور علیہ السّلام کے ہمراہ راستہ میں جا رہے ہوں تو آگے آگے چلنا منع ہے مگر خادم کی حیثیت سے یا کسی ضرورت سے اجازت لے کر(چلنا منع نہیں )، اگر ساتھ کھانا ہو تو پہلے شروع کر دینا ناجائز، اسی طرح اپنی عقل اور اپنی رائے کو حضور علیہ السّلام کی رائے سے مقدم کرنا حرام ہے۔( شان حبیب الرحمٰن، ص224)

(3) اپنی آوازوں کو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آوازیں مبارک سے اونچی نہ کرنا۔

(4) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ بے کس پناہ میں چلا کر بات نہ کرنا۔ چنانچہ ارشاد باری ہیں : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سےاور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو ۔ (پ26،الحجرات:2)

اس آیت ِمبارکہ میں بھی اللہ پاک نے ایمان والوں کواپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو عظیم آداب سکھائے ہیں، پہلا ادب یہ ہے کہ اے ایمان والو! جب نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تم سے کلام فرمائیں اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پَست آواز سے کرو۔ (تفسیر صراط الجنان، 9/397)

(5) بارگاہِ نبوی میں انہی الفاظ کو استعمال کرے جس میں بے ادبی کا کچھ بھی شائبہ نہ ہو ،جیسا کہ لفظِ ’’ رَاعِنَا ‘‘ کو تبدیل کرنے کا حکم دینے سے یہ بات واضح ہے ،چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ- ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو ۔(پ1،البقرۃ:104)

پیارے اسلامی بھائیوں! ان آیات اور اس کے علاوہ بہت ساری آیتیں ہیں جس سے یہی ظاہر ہے کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں اس کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب و تعظیم انتہائی مطلوب ہے اور ان کا ادب و تعظیم نہ کرنا اللہ پاک کی بارگاہ میں انتہائی سخت ناپسندیدہ ہے حتّٰی کہ اس پر سخت وعیدیں بھی ارشاد فرمائی ہیں ،اسی سے معلوم ہوا کہ سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب وتعظیم کرنا شرک ہر گز نہیں ہے بلکہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم عین ثواب ہے ،جو لوگ اسے شرک کہتے ہیں ان کا یہ کہنا مردود ہے۔ اخير میں اللہ پاک سے دعا گوں ہوں کہ اللہ ہم سب کو حضور کا ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


پیارے پیارے اسلامی بھائیوں ! اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ اپنے خطبے میں فرماتے الا لا ایمان لمن لا محبته له کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت کے بغیر ایمان نہیں اور ایک عاشق ہمیشہ کوشش کرتا ہے کہ اس کا عشق بڑھتا رہے یوں تو عشق بڑھانے کے بہت طریقے ہیں جیسے صلوۃ و سلام و نعت مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑھنا سننا لیکن یہ تمام چیزیں اسی وقت نفع بخش ہو سکتی جب کہ یہ تمام کام باآدب ہو کر کیے جائیں کیونکہ بے ادب کبھی بھی ان تمام چیزوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا بلکہ بے ادبی کی وجہ سے ہو سکتا ہے معاذ اللہ دل میں جو تھوڑا عشق ہے وہ بھی ختم ہو جائے ان باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے بارگاہِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آداب سنیے اور اے عاشق رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس پر عمل کر کے اپنے عشق میں اضافہ کیجئے۔

(1) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس آواز بلند کرنا : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سےاور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں ۔ (پ26،الحجرات:2) امام رازی رحمۃُ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ مؤمن آپ کے پاس اس طرح گفتگو نہ کرے جس طرح غلام اپنے آقا کے سامنے گفتگو کرتا ہے اور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آواز پر آواز بلند کرنا یہ اعمال ضائع کرنا ہے تو وہ لوگ غور کریں جو اپنی فکر کو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قول پر ترجیح دیتے ہیں اور ان کی بتائے گئے احکامات اور سنتوں پر عقل چلاتے ہیں ۔( مواہب اللدنیہ ،2/621)

(2) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے آگے نہ بڑھنا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1) آدابِ نبی میں سے ہے کہ کسی امرو نہی اور اجازت اور تصرف میں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے آگے نہ بڑھنا اور فرماتے ہیں کہ آپ کے وصال کے بعد بھی آپ کی سنت سے آگے بڑھنا اسی طرح جیسے آپ کی زندگی میں آپ سے آگے بڑھنا۔(مواہب اللدنیہ، 2/ 622)

(3) آپ کو پکارنے کا خاص طریقہ: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ترجمۂ کنزُالعِرفان: (اے لوگو!) رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔(پ18،النور:63) رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ آپ کو اس طرح نہ پکارا جائے جس طرح ہم ایک دوسرے کو پکارتے ہیں مفسرین فرماتے ہیں کہ آپ کو آپ کے اسمِ گرامی کے ساتھ نہ پکارو جس طرح ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو بلکہ یا رسول اللہ اور یا نبی اللہ کہے اس میں نہایت تواضع پائی جاتی ہے، تو چاہیے کہ امتی جب اپنے نبی سے استغاثہ کرے تو خوبصورت اوصاف سے ذکر کرے۔(مواہب اللدنیہ، 2/ 223)

(4) آپ کے قول پراعتراض نہ کیا جائے: وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو ۔(پ28، الحشر :7 ) نبیٔ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آداب میں سے یہ بات بھی ہے کہ آپ کے کسی فرمان پر اعتراض نہ کیا جائے بلکہ آپ کے ارشاد گرامی کے ذریعے لوگوں کے آراء پر اعتراض کیا جائے اس معاملہ میں کسی کی بات نہ مانے کسی کی بات مان لینا یہ ادب میں کمی کی وجہ سے ہوتی ہے۔(مواہب اللدنیہ، 2/ 224)

(5) آپ کے سامنے سرِتسلیم کردینا: وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور حکم مانو رسول کا۔(پ5، النسآء :59 ) رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ آداب کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آپ کے حکم کو کامل طور پر تسلیم کیا جائے اور اس کے سامنے سر ِتسلیم خم کیا جائے اور آپ کی خبر کو قبول کیا جائے اور شک و شبہ کو جگہ نہ دی جائے آپ کے حکم پر لوگوں کی ذہنی اختراعات کو مقدم نہ کیا جائے بلکہ صرف آپ کے حکم کی تعمیل کی جائے اور اس کے سامنے سر جھکایا جائے۔(مواہب اللدنیہ ،2/ 225)

پیارےپیارےاسلامی بھائیوں! آپ نے سنا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنت پر عمل کرنا ،ان کے فرامین کے سامنے سرِخم کر لینا اور ان کو بہترین اوصاف سے پکارنا بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آداب سے ہیں۔ جن پر عمل کرکے محبت میں اضافہ ہو سکتا ہے لیکن آپ نے یہ بھی سنا کہ آپ کی سنتوں پر انگلی اٹھانا، آپ کے فرامین پر اعتراض کرنا عمل کو ضائع کر دیتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آداب کا خیال رکھتے ہوئے زندگی گزارنے کی کوشش کریں۔ اللہ ہم سب کو سنتوں پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

جان ہے عشق مصطفےٰ روز فزوں کرے خدا

جس کو ہو درد کا مزہ ناز دوا اٹھائے کیوں


الحمد لله ہم مسلمان ہیں اور ﷲ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے امتی ہیں ہم اللہ پاک کا جتنا شکر ادا کریں اتنا کم ہے کہ اس نے ہمیں اپنے پیارے محبوب اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امت میں پیدا کیا ۔ ہمیں اللہ پاک کے شکر کے ساتھ ساتھ اس کے حبیب، حبیبِ لبیب، ہم جیسے گناہوں کے مریضوں کے طبیب جنابِ احمدِ مجتبیٰ محمدِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب و احترام بھی ہم پر فرض ہے۔ جس طرح ہر چھوٹے کو حکم ہے کہ بڑے کی تعظیم کرے ہر بیٹے پر ضروری ہے کہ اپنے باپ کی تعظیم کرے، اسی طرح ہر امتی پر لازم ہے کہ اپنے نبی کی تعظیم کریں، ان کا ادب بجا لائے۔ پہلے کی کئی امتیں اپنے نبی کی معاذ اللہ توہین کی وجہ سے ہلاک ہو گئی۔ کہی ایسا نہ ہو کہ ہم سے نبیٔ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شان کی ادنی گستاخی ہو جائے اور ہمارے اعمال اکارت ہو جائے۔ آئے بارگاہِ مصطفی، دونوں عالم کے داتا، ہم بے کسوں کے مددگار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے چند آداب قراٰنِ پاک کی روشنی میں نے پڑھتے ہیں اور نبیٔ پاک کی محبت و تعظیم کا اپنے دل و ایمان میں اضافہ کرتے ہیں چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :۔

(1 ) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سےاور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)صراط الجنان : اس آیت ِمبارکہ میں بھی اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو عظیم آداب سکھائے ہیں ،پہلا ادب یہ ہے کہ اے ایمان والو! جب نبیٔ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تم سے کلام فرمائیں اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پَست آواز سے کرو ۔دوسرا ادب یہ ہے کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ندا کرنے میں ادب کا پورا لحاظ رکھو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ پکارو بلکہ تمہیں جو عرض کرنا ہو وہ ادب و تعظیم اور توصیف وتکریم کے کلمات اور عظمت والے اَلقاب کے ساتھ عرض کرو جیسے یوں کہو: یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، یا نَبِیَّ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، کیونکہ ترکِ ادب سے نیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہو گی ۔( قرطبی ، الحجرات ، تحت الآیۃ: 2 ، 8 / 220 ، الجزء السادس عشر)

(2 ) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1) صراط الجنان : اس آیت میں اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب و احترام ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی ہے اور آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اجازت کے بغیر کسی قول اور فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے کیونکہ یہ آگے بڑھنا رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ادب و احترام کے خلاف ہے جبکہ بارگاہِ رسالت میں نیاز مندی اور آداب کا لحاظ رکھنا لازم ہے اور تم اپنے تمام اَقوال و اَفعال میں اللہ پاک سے ڈرو کیونکہ اگر تم اللہ پاک سے ڈرو گے تو یہ ڈرنا تمہیں آگے بڑھنے سے روکے گا اور ویسے بھی اللہ پاک کی شان یہ ہے کہ وہ تمہارے تمام اقوال کو سنتا اور تمام افعال کو جانتا ہے اور جس کی ایسی شان ہے اس کا حق یہ ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔

اس آیت کے شانِ نزول سے متعلق مختلف روایات ہیں ،ان میں سے دو رِوایات درجِ ذیل ہیں:(1)…چند لوگوں نے عیدُالاضحی کے دِن سر کارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پہلے قربانی کرلی تو ان کو حکم دیا گیا کہ دوبارہ قربانی کریں ۔ (2)… حضرت عائشہ رضی اللہُ عنہا سے مروی ہے کہ بعض لوگ رمضان سے ایک دن پہلے ہی روزہ رکھنا شروع کردیتے تھے، ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور حکم دیا گیا کہ روزہ رکھنے میں اپنے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے آگے نہ بڑھو۔ (خازن، الحجرات، تحت الآیۃ: 1، 4 )

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:(اس آیت کا)شانِ نزول کچھ بھی ہو مگر یہ حکم سب کو عام ہے یعنی کسی بات میں ،کسی کام میں حضور علیہ الصّلوۃُ والسّلام سے آگے ہونا منع ہے ،اگر حضور علیہ السّلام کے ہمراہ راستہ میں جا رہے ہوں تو آگے آگے چلنا منع ہے مگر خادم کی حیثیت سے یا کسی ضرورت سے اجازت لے کر(چلنا منع نہیں )، اگر ساتھ کھانا ہو تو پہلے شروع کر دینا ناجائز، اسی طرح اپنی عقل اور اپنی رائے کو حضور علیہ السّلام کی رائے سے مقدم کرنا حرام ہے۔( شان حبیب الرحمٰن، ص224 )

(3) اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم آپ اُن کے پاس تشریف لاتےتو یہ اُن کے لیے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(پ26،الحجرات:5،4)صراط الجنان : پہلی آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ بنو تمیم کے چند لوگ دوپہر کے وقت رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں پہنچے ،اس وقت حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آرام فرما رہے تھے، ان لوگوں نے حُجروں کے باہر سے حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پکارنا شروع کر دیا اور حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم باہر تشریف لے آئے، ان لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جلالت ِشان کو بیان فرمایا گیا کہ سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہِ اقدس میں اس طرح پکارنا جہالت اور بے عقلی ہے۔( مدارک ، الحجرات ، تحت الآیۃ: 4 ، ص1151 ، ملخصاً)

دوسری آیت میں ان لوگوں کو ادب کی تلقین کی گئی کہ انہیں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کوپکارنے کی بجائے صبر اور انتظارکرنا چاہئے تھا یہاں تک کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خود ہی مُقَدّس حجرے سے باہر نکل کر ان کے پاس تشریف لے آتے اوراس کے بعدیہ لوگ اپنی عرض پیش کرتے۔ اگر وہ اپنے اوپر لازم اس ادب کو بجالاتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھا اور جن سے یہ بے ادبی سرزَد ہوئی ہے اگر وہ توبہ کریں تو اللہ پاک اُنہیں بخشنے والا اور ان پر مہربانی فرمانے والا ہے۔( خازن، الحجرات، تحت الآیۃ: 5، 4 )

(4) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں ۔(پ1،البقرۃ:104) صراط الجنان : جب حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم کو کچھ تعلیم و تلقین فرماتے تو وہ کبھی کبھی درمیان میں عرض کیا کرتے۔ ’’رَاعِنَا یارسول اللہ‘‘ اس کے یہ معنی تھے کہ یا رسول اللہ ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، ہمارے حال کی رعایت فرمائیے یعنی کلامِ اقدس کو اچھی طرح سمجھ لینے کا موقع دیجئے۔ یہودیوں کی لغت میں یہ کلمہ بے ادبی کا معنی رکھتا تھا اور انہوں نے اسی بری نیت سے کہنا شروع کردیا۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہُ عنہ یہودیوں کی اصطلاح سے واقف تھے۔ آپ نے ایک روز یہ کلمہ ان کی زبان سے سن کر فرمایا: اے دشمنانِ خدا !تم پر اللہ کی لعنت، اگر میں نے اب کسی کی زبان سے یہ کلمہ سنا تو اس کی گردن اڑا دوں گا۔ یہودیوں نے کہا: ہم پر تو آپ برہم ہوتے ہیں جبکہ مسلمان بھی تو یہی کہتے ہیں ، اس پر آپ رنجیدہ ہو کر سرکار ِ دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئے ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی جس میں ’’رَاعِنَا‘‘ کہنے کی ممانعت فرمادی گئی اور اس معنی کا دوسرا لفظ ’’اُنْظُرْنَا‘‘ کہنے کا حکم ہوا ۔ (قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: 104، 1/ 44-45، الجزء الثانی)

آیت’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا ‘‘ سے معلوم ہونے والے احکام : اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام علیہم السّلام کی تعظیم و توقیر اور ان کی جناب میں ادب کا لحاظ کرنا فرض ہے اور جس کلمہ میں ترکِ ادب کا معمولی سا بھی اندیشہ ہو وہ زبان پر لانا ممنوع ہے۔ ایسے الفاظ کے بارے میں حکمِ شرعی یہ ہے کہ جس لفظ کے دو معنی ہوں اچھے اور برے اور لفظ بولنے میں اس برے معنیٰ کی طرف بھی ذہن جاتا ہو تو وہ بھی اللہ پاک اور حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے استعمال نہ کئے جائیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ کا ادب ربُّ العالَمین خود سکھاتا ہے اور تعظیم کے متعلق احکام کو خود جاری فرماتا ہے۔

(5) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُۙ-وَ لٰكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍؕ-اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-وَ اللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّؕ ترجمۂ کنز ُالایمان: اے ایمان والو نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ مثلا کھانے کے لیے بلائے جاؤ نہ یوں کہ خود اس کے پکنے کی راہ تکو ہاں جب بلائے جاؤ تو حاضر ہو اور جب کھا چکو تو متفرق ہو جاؤ نہ یہ کہ بیٹھے باتوں میں دل بہلاؤ بےشک اس میں نبی کو ایذا ہوتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور اللہ حق فرمانے میں نہیں شرماتا۔( پ 22، الاحزاب:53 ) صراط الجنان: اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! میرے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے گھروں میں یونہی حاضر نہ ہو جاؤ بلکہ جب اجازت ملے جیسے کھانے کیلئے بلایا جائے تو حاضر ہوا کرو اور یوں بھی نہ ہو کہ خود ہی میرے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے گھر میں بیٹھ کر کھانا پکنے کا انتظار کرتے رہو، ہاں جب تمہیں بلایا جائے تو اس وقت ان کی بارگاہ میں حاضری کے احکام اور آداب کی مکمل رعایت کرتے ہوئے ان کے مقدس گھر میں داخل ہو جاؤ، پھر جب کھانا کھا کر فارغ ہو جاؤ تو وہاں سے چلے جاؤ اور یہ نہ ہو کہ وہاں بیٹھ کر باتوں سے دل بہلاتے رہو کیونکہ تمہارا یہ عمل اہلِ خانہ کی تکلیف اور ان کے حرج کا باعث ہے ۔ بیشک تمہارا یہ عمل گھر کی تنگی وغیرہ کی وجہ سے میرے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایذا دیتا تھا لیکن وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور تم سے چلے جانے کے لئے نہیں فرماتے تھے لیکن اللہ پاک حق بیان فرمانے کو ترک نہیں فرماتا ۔ ( روح البیان، الاحزاب، تحت الاٰيۃ: 53 ، 7/ 213-214)

پیارے پیارے اسلامی بھائیوں ! دیکھا آپ نے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا کتنا ادب ہے آپ اس بات کا اندازہ اس طرح بھی لگا سکتے ہیں کہ خود ﷲ پاک نے بارگاہِ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آداب بیان فرمائے۔ ہمیں کس قدر نبیٔ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرامین پر عمل کرنا چاہیے، ان کے حکم کی فرمانبرداری کرنی چاہیے اور ان کے ادب و احترام کا خصوصی طور پر خیال رکھنا چاہیے ۔ اللہ ہمیں بے ادبوں کے سایہ سے بھی دور رکھے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

؎ محفوظ سدا رکھنا شہا بے ادبوں سے

اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے ادبی ہو


نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شان و عظمت بہت ہی بلند و بالا ہے۔ اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں 26 انبیائے کرام کا ذکر ان کے ناموں کے ساتھ فرمایا اور جہاں پر بھی انبیاء سے خطاب ہوا ان کے ناموں کے ساتھ خطاب فرمایا جیسے (یٰمُوْسٰى، یٰۤاِبْرٰهِیْمُ) لیکن جب اپنے محبوب کو خطاب فرمایا تو نام کی بجائے پیارے القابات(یٰۤاَیُّهَاالْمُزَّمِّلُ،یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُ) سے یاد فرمایا اور رہتی دنیا تک لوگوں کی تربیت کے لئے دربارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آداب بیان فرمائے اور ان کو حکم دیا کہ جب وہ دربارِ رسالت میں حاضر ہوں تو ان آداب کو ملحوظ خاطر رکھیں۔معزز قارئینِ کرام بارگاہِ رسالت کے ان آداب میں سے چند ملاحظہ کیجئے:

(1)آواز پست رکھنا:﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے۔ (پ26، الحجرات:2)اس آیت ِمبارکہ میں اللہ پاک نے مسلمانوں کو دربارِ رسالت کا ادب سکھایا ہے کہ جب تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پَست آواز سے کرو۔(صراط الجنان، 9/ 397)

(2) ادب سے پکارنا:﴿ لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ-﴾ترجمۂ کنزالایمان: رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔ (پ18،النور:63) اس آیت مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایسے نہ پُکارو جیسے تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو بلکہ تم تعظیم،تکریم، توقیر،نرم آواز اور عاجزی و انکساری کے ساتھ ان کو پکارو۔ (صراط الجنان،6/675ماخوذاً)

(3) راعنا نہ کہو:﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا﴾ترجمۂ کنزالایمان:اے ایمان والو راعنانہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں۔ (پ1،البقرۃ: 104) نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وعظ کے دوران صحابۂ کرام عرض کرتے تھے ” رَاعِنَا “ تو یہودی گستاخانہ لحاظ سے یہ لفظ کہتے تھے۔ تو اللہ پاک نے حکم فرمایا کہ ”رَاعِنَا“ کے بجائے ” اُنْظُرْنَا “کہو تاکہ کسی قسم کی گستاخی کا شبہ نہ رہے۔(تفسیر کبیر،البقرۃ،تحت الآیۃ:104، 1/634)

(4) مغفرت کے لئے دربارِرسالت میں حاضری:﴿ وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں ا ور رسول ان کی شِفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔(پ5،النسآء:64)

اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: بندوں کو حکم ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر توبہ و استغفار کریں اگرچہ اللہ پاک ہر جگہ سنتا اور دیکھتا ہے مگر پھر بھی اس نے یہی حکم فرمایا کہ اگر میری طرف توبہ چاہو تو میرے محبوب کے حضور حاضر ہو جاؤ۔ ( فتاویٰ رضویہ،15/654ماخوذاً)

(5) رسولُ اللہ سے آگے نہ بڑھو:﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو۔ (پ 26،الحجرات:1)مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: یہ حکم سب کو عام ہے،یعنی کسی بات میں، کسی کام میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے آگے ہونا منع ہے۔ اگر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہمراہ راستہ میں جا رہے ہوں تو آگے آگے چلنا منع ہے، اگر ساتھ کھانا ہو تو پہلے شروع کر دینا نا جائز، اسی طرح اپنی عقل اور اپنی رائےکو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رائے سے مقدم کرنا حرام ہے۔ ( شانِ حبیب الرحمٰن،ص224)

اس کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات میں بارگاہِ رسالت کے آداب کا ذکر ہے۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دربارِ مصطفےٰ کی بار بار با ادب حاضری نصیب فرمائے۔ آمین 


انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ ہر شخص زندگی میں کامیاب ہونا چاہتا ہے اور کامیابی کے چند لوازمات (Importants) ہوتے ہیں ان لوازمات میں سے ایک نہایت ہی اہم ”ادب“ ہے۔ ادب ہی سے انسان کامیابی کے منازل طے کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے:

با ادب با نصیب بے ادب بد نصیب

ادب ہر کسی کا یکساں (Equal) نہیں ہوتا بلکہ ہر کسی کے مقام و مرتبہ کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ اگر اس کائنات میں نظر دوڑائی جائے تو جس کو جو مقام ملا وہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وسیلہ سے ملا اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مقام و مرتبہ خود خالقِ کائنات نے بلند فرمایا۔ لہذا جب مقام و مرتبہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اعلیٰ و اولیٰ ہوا تومخلوق میں سب سے زیادہ ادب کے حقدار بھی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذات مبارک ہوئی اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ کےآداب خود اللہ پاک نے بیان فرمائے۔ چند آیات ملاحظہ فرمائیں :

(1) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو۔ (پ26، الحجرات:1)

(2) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے۔ (پ26،الحجرات:2)

(3) لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ترجَمۂ کنزُالایمان: رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔ (پ 18 ، النور:63 )

(4) وَ اِذَا كَانُوْا مَعَهٗ عَلٰۤى اَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ یَذْهَبُوْا حَتّٰى یَسْتَاْذِنُوْهُط ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جب رسول کے پاس کسی ایسے کام میں حاضر ہوئے ہوں جس کے لیے جمع کیے گئے ہوں تو نہ جائیں جب تک اُن سے اجازت نہ لے لیں۔(پ18،النور:62 )

(5) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو ۔(پ1،البقرۃ:104)

آیات میں بیان کیے گئے آداب: (1) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اجازت کے بغیر کسی قول اور فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے۔ (صراط الجنان، 9/317) (2) جب تم آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں عرض کرو تو آہستہ آواز میں کرو۔ (صراط الجنان، 9/319) (3) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پکارنے کو آپس میں ایسا معمولی نہ بنا لو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔ (صراط الجنان، 9/675) (4) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نام لے کر نہ پکارو بلکہ تعظیم، تکریم، توقیر ،نرم آواز کے ساتھ اور عاجزی و انکساری سے انہیں اس طرح کے الفاظ کے ساتھ پکارو: یا رسولَ الله، یا نبیَ اللہ یا حبیبَ الله، یا خاتمَ النبیین۔ (صراط الجنان، 6/675) (5) حضور علیہ الصلاۃ و السّلام کی بارگاہ میں” راعنا“ کے لفظ کی جگہ ”انظرنا “ کا لفظ استعمال کرو ۔ (صراط الجنان، 1/181)

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں بھی اور وصالِ ظاہری کے بعد بھی آپ کی بارگاہ کا بے حد ادب و احترام کیا اور اللہ پاک نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ کے جو آداب انہیں تعلیم فرمائے انہیں دل و جان سے بجا لائے۔ اسی طرح ان کے بعد تشریف لانے والے دیگر بزرگانِ دین رحمۃُ اللہ علیہم اجمعین نے بھی دربارِ رسالت کے آداب کا خوب خیال رکھا اور دوسروں کو بھی وہ آداب بجا لانے کی تلقین کی۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی بارگاہِ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی با ادب حاضری نصیب فرمائے ۔


دعوتِ اسلامی  کے زیرِ اہتمام6 دسمبر 2022ء بروز جمعرات عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی کے اطراف میں واقع کشمیری بلڈنگ میں ایچ آر ڈیپارٹمنٹ دعوتِ اسلامی کے ذیلی شعبے ٹیسٹ مجلس کا ماہانہ مدنی مشورہ ہوا جس میں پاکستان سطح کے ذمہ داران( سید دانش عطاری، احمد رضا عطاری مدنی اور قاری امام بخش عطاری) شریک ہوئے۔

اس موقع پر ٹیسٹ مجلس ذمہ دارقاری عمران حسن عطاری نے دعوتِ اسلامی کے12 دینی کام کرنے کےحوالے سے ذہن سازی کی۔اس کے علاوہ میٹنگ میں شریک اسلامی بھائیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہیں شعبے کے دینی کام کو مزید بہتر بنانے کے حوالے سے مدنی پھول دیئے ۔ ( رپورٹ : سید محمد رضوان عطاری مدنی ، کانٹینٹ: رمضان رضا عطاری)


08دسمبر 2022ء بروز بدھ عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی کے اطراف میں واقع رضوی  بلڈنگ میں ایچ آر ڈیپارٹمنٹ دعوتِ اسلامی کے ذیلی شعبہ ٹیسٹ مجلس کی ماہانہ میٹنگ ہوئی ۔

اس میٹنگ میں رکنِ ایچ آر ڈیپارٹمنٹ قاری محمد صابر عطاری نے رسالہ’’ حوصلہ افزائی‘‘ سے مدنی پھول بیان کرتے ہوئے ٹیسٹ مجلس کے سابقہ ماہ کی ٹیسٹ کارکردگی کا جائزہ لیا۔ مزید Ess آپشن کے حوالے سے اپڈیٹ معلومات فراہم کیں اور میٹنگ میں شریک اسلامی بھائیوں سے گفتگو کرتے ہوئے نظام کو مزید بہتر بنانے کے حوالے سےاُن کی ذہن سازی کی۔

شرکا میں ٹیسٹ مجلس ذمہ دارقاری عمران، حسن عطاری، سید دانش عطاری،قاری امام بخش عطاری اور احمد رضا عطاری مدنی تھے۔( رپورٹ : سید محمد رضوان عطاری مدنی ، کانٹینٹ: رمضان رضا عطاری)


دعوتِ  اسلامی کے شعبہ رابطہ برائے ہومیوپیتھک کے زیر اہتمام 8 دسمبر 2022ء کو مدنی مرکز فیضان ِمدینہ حیدرآباد میں فری میڈیکل کیمپ اور سیکھنے سکھانے کے حلقے کا سلسلہ ہوا جس میں ہومیو پیتھک ڈاکٹروں نے اساتذۂ کرام اور بچوں کا فری چیک اپ کیا اور انہیں ادویات بھی دیں ۔

سیکھنے سکھانے کےمدنی حلقے میں صوبائی ذمہ دار مولانا محسن عطاری مدنی نے ’’فکرِ آخرت‘‘ کے موضوع پر سنتوں بھرا بیان کیا اور ہومیو پیتھک ڈاکٹرز کو عالمی سطح پر ہونے والی دعوتِ اسلامی کی دینی و سماجی خدمات کے بارے میں بتایا نیز انہیں 12 دینی کاموں میں حصہ لینے کی ترغیب بھی دلائی۔ ( رپورٹ : محسن مدنی صوبائی ذمہ دار، کانٹینٹ: رمضان رضا عطاری)


عاشقانِ رسول  کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے شعبہ اصلاحِ اعمال کے زیرِ اہتمام 8 دسمبر 2022ء کو ضلع مظفرگڑھ علی پور کے مدرسۃُالمدینہ میں اصلاحِ اعمال اجتماع منعقد ہوا جس میں مدرسۃُالمدینہ کے طلبہ و اساتذہ نے شرکت کی ۔

ڈویژن ذمہ دار غلام عباس عطاری نے’’ درودِ پاک و ذکرُاللہ‘‘ کے موضوعات پر سنتوں بھرا بیان کیااور شرکا کو درودِ پاک پڑھنے کا ذہن دیتے ہوئے رسالہ نیک اعمال سے جائزہ کرنے نیز ہفتہ وار رسالہ پڑھنے کی ترغیب دلائی ۔ (کانٹینٹ: رمضان رضا عطاری)


دعوتِ اسلامی کے تحت 8 دسمبر 2022ء  کو گودھرا کالونی نیو کراچی میں یومِ مدارسُ المدینہ کے موقع پر سنتوں بھرا اجتماع ہوا جس میں مدرسۃُ المدینہ کے طلبہ ، قاری صاحبان، ناظمین اورسرپرستوں نے شرکت کی۔

اس موقع پر تمام اسلامی بھائیوں نے شکرانے کے طور پر نوافل ادا کئے۔بعدازاں ڈسٹرکٹ ویسٹ ذمہ دار محمد بغداد رضا عطاری نے ’’فضائلِ قرآن‘‘ کے موضوع پر سنتوں بھرا بیان کیا اور شرکائے اجتماع کو دعوتِ اسلامی کے تحت ہونے والے ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کرنے نیز مدنی قافلوں میں سفر کرنے کاذہن دیا جس پر اسلامی بھائیوں نےاچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔( رپورٹ : عبدالرؤف عطاری ناظم مدرسۃ ُ المدینہ، کانٹینٹ: رمضان رضا عطاری)