محمد امان اویسی (درجہ خامسہ جامعۃُ المدینہ فیضان
امام احمد رضا حیدر آباد تلنگانہ ہند)
الحمد لله ہم مسلمان ہیں اور ﷲ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے امتی ہیں ہم اللہ پاک کا جتنا شکر ادا کریں اتنا کم ہے کہ
اس نے ہمیں اپنے پیارے محبوب اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امت
میں پیدا کیا ۔ ہمیں اللہ پاک کے شکر کے ساتھ ساتھ اس کے حبیب، حبیبِ لبیب، ہم
جیسے گناہوں کے مریضوں کے طبیب جنابِ احمدِ مجتبیٰ محمدِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کا ادب و احترام بھی ہم پر فرض ہے۔ جس طرح ہر چھوٹے کو حکم ہے کہ
بڑے کی تعظیم کرے ہر بیٹے پر ضروری ہے کہ اپنے باپ کی تعظیم کرے، اسی طرح ہر امتی
پر لازم ہے کہ اپنے نبی کی تعظیم کریں، ان کا ادب بجا لائے۔ پہلے کی کئی امتیں
اپنے نبی کی معاذ اللہ توہین کی وجہ سے ہلاک ہو گئی۔ کہی ایسا نہ ہو کہ ہم سے نبیٔ
پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شان کی ادنی گستاخی ہو جائے اور ہمارے اعمال
اکارت ہو جائے۔ آئے بارگاہِ مصطفی، دونوں عالم کے داتا، ہم بے کسوں کے مددگار
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے چند آداب قراٰنِ پاک کی روشنی میں نے پڑھتے ہیں
اور نبیٔ پاک کی محبت و تعظیم کا اپنے دل و ایمان میں اضافہ کرتے ہیں چنانچہ اللہ
پاک ارشاد فرماتا ہے :۔
(1 ) یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ
لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ
اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب
بتانے والے (نبی) کی آواز سےاور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک
دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں
خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)صراط الجنان : اس آیت ِمبارکہ میں بھی اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے
حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو عظیم آداب سکھائے ہیں ،پہلا ادب یہ ہے
کہ اے ایمان والو! جب نبیٔ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تم سے کلام فرمائیں
اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی
آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پَست آواز سے کرو ۔دوسرا
ادب یہ ہے کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ندا کرنے میں ادب کا
پورا لحاظ رکھو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ
پکارو بلکہ تمہیں جو عرض کرنا ہو وہ ادب و تعظیم اور توصیف وتکریم کے کلمات اور
عظمت والے اَلقاب کے ساتھ عرض کرو جیسے یوں کہو: یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم ، یا نَبِیَّ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، کیونکہ ترکِ ادب
سے نیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہو گی ۔( قرطبی
، الحجرات ، تحت الآیۃ: 2 ، 8 / 220 ، الجزء السادس عشر)
(2 ) یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ
اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ
سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1) صراط الجنان : اس آیت میں اللہ
پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب و احترام
ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی ہے اور آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! اللہ پاک
اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اجازت کے بغیر کسی قول اور فعل
میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے کیونکہ یہ آگے بڑھنا رسولِ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ادب و احترام کے خلاف ہے جبکہ بارگاہِ رسالت میں نیاز
مندی اور آداب کا لحاظ رکھنا لازم ہے اور تم اپنے تمام اَقوال و اَفعال میں اللہ
پاک سے ڈرو کیونکہ اگر تم اللہ پاک سے ڈرو گے تو یہ ڈرنا تمہیں آگے بڑھنے سے روکے
گا اور ویسے بھی اللہ پاک کی شان یہ ہے کہ وہ تمہارے تمام اقوال کو سنتا اور تمام
افعال کو جانتا ہے اور جس کی ایسی شان ہے اس کا حق یہ ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔
اس آیت کے شانِ نزول سے متعلق مختلف روایات ہیں ،ان میں سے
دو رِوایات درجِ ذیل ہیں:(1)…چند لوگوں نے عیدُالاضحی کے دِن سر کارِ دو عالَم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پہلے قربانی کرلی تو ان کو حکم دیا گیا کہ دوبارہ
قربانی کریں ۔ (2)… حضرت عائشہ رضی اللہُ عنہا سے مروی ہے کہ بعض لوگ رمضان سے ایک
دن پہلے ہی روزہ رکھنا شروع کردیتے تھے، ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور حکم
دیا گیا کہ روزہ رکھنے میں اپنے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے آگے نہ
بڑھو۔ (خازن، الحجرات، تحت الآیۃ: 1، 4 )
مفتی احمد یار خان
نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:(اس آیت کا)شانِ
نزول کچھ بھی ہو مگر یہ حکم سب کو عام ہے یعنی کسی بات میں ،کسی کام میں حضور علیہ الصّلوۃُ والسّلام
سے آگے ہونا منع ہے ،اگر حضور علیہ السّلام کے
ہمراہ راستہ میں جا رہے ہوں تو آگے آگے چلنا منع ہے مگر خادم کی حیثیت سے یا کسی
ضرورت سے اجازت لے کر(چلنا منع نہیں )، اگر ساتھ کھانا ہو تو پہلے شروع کر دینا
ناجائز، اسی طرح اپنی عقل اور اپنی رائے کو حضور علیہ السّلام کی رائے سے مقدم
کرنا حرام ہے۔( شان حبیب الرحمٰن، ص224 )
(3) اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ
مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ
لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں
اکثر بے عقل ہیں اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم آپ
اُن کے پاس تشریف لاتےتو یہ اُن کے لیے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(پ26،الحجرات:5،4)صراط الجنان : پہلی آیت کا شانِ
نزول یہ ہے کہ بنو تمیم کے چند لوگ دوپہر کے وقت رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں پہنچے ،اس وقت حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم آرام فرما رہے تھے، ان لوگوں نے حُجروں کے باہر سے حضورِ اقدس صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پکارنا شروع کر دیا اور حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم باہر تشریف لے آئے، ان لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور
رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جلالت ِشان کو بیان فرمایا گیا کہ سیّد
المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہِ اقدس میں اس طرح پکارنا جہالت
اور بے عقلی ہے۔( مدارک ، الحجرات ، تحت الآیۃ: 4 ، ص1151 ، ملخصاً)
دوسری آیت میں ان
لوگوں کو ادب کی تلقین کی گئی کہ انہیں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کوپکارنے کی بجائے صبر اور انتظارکرنا چاہئے تھا یہاں تک کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم خود ہی مُقَدّس حجرے سے باہر نکل کر ان کے پاس تشریف لے آتے
اوراس کے بعدیہ لوگ اپنی عرض پیش کرتے۔ اگر وہ اپنے اوپر لازم اس ادب کو بجالاتے
تو یہ ان کے لیے بہتر تھا اور جن سے یہ بے ادبی سرزَد ہوئی ہے اگر وہ توبہ کریں تو
اللہ پاک اُنہیں بخشنے والا اور ان پر مہربانی فرمانے والا ہے۔( خازن، الحجرات،
تحت الآیۃ: 5، 4 )
(4) یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ
حضور ہم پر نظر رکھیں ۔(پ1،البقرۃ:104) صراط الجنان : جب حضورِ اقدس صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صحابۂ کرام رضی
اللہُ عنہم کو کچھ تعلیم و تلقین
فرماتے تو وہ کبھی کبھی درمیان میں عرض کیا کرتے۔ ’’رَاعِنَا یارسول اللہ‘‘ اس کے یہ معنی تھے کہ یا رسول اللہ ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، ہمارے حال کی رعایت فرمائیے یعنی
کلامِ اقدس کو اچھی طرح سمجھ لینے کا موقع دیجئے۔ یہودیوں کی لغت میں یہ کلمہ بے
ادبی کا معنی رکھتا تھا اور انہوں نے اسی بری نیت سے کہنا شروع کردیا۔ حضرت سعد بن
معاذ رضی اللہُ عنہ یہودیوں کی اصطلاح
سے واقف تھے۔ آپ نے ایک روز یہ کلمہ ان کی زبان سے سن کر فرمایا: اے دشمنانِ خدا
!تم پر اللہ کی لعنت، اگر میں نے اب کسی کی زبان سے یہ کلمہ سنا تو اس کی گردن اڑا
دوں گا۔ یہودیوں نے کہا: ہم پر تو آپ برہم ہوتے ہیں جبکہ مسلمان بھی تو یہی کہتے ہیں
، اس پر آپ رنجیدہ ہو کر سرکار ِ دوعالم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئے ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی
جس میں ’’رَاعِنَا‘‘ کہنے کی ممانعت فرمادی
گئی اور اس معنی کا دوسرا لفظ ’’اُنْظُرْنَا‘‘ کہنے کا حکم ہوا ۔ (قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: 104، 1/ 44-45، الجزء الثانی)
آیت’’ یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا ‘‘ سے معلوم ہونے والے احکام : اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام علیہم السّلام کی
تعظیم و توقیر اور ان کی جناب میں ادب کا لحاظ کرنا فرض ہے اور جس کلمہ میں ترکِ
ادب کا معمولی سا بھی اندیشہ ہو وہ زبان پر لانا ممنوع ہے۔ ایسے الفاظ کے بارے میں
حکمِ شرعی یہ ہے کہ جس لفظ کے دو معنی ہوں اچھے اور برے اور لفظ بولنے میں اس برے
معنیٰ کی طرف بھی ذہن جاتا ہو تو وہ بھی اللہ پاک اور حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے استعمال نہ کئے
جائیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور پر نور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ کا ادب ربُّ العالَمین خود سکھاتا ہے اور
تعظیم کے متعلق احکام کو خود جاری فرماتا ہے۔
(5) یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ
لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُۙ-وَ لٰكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ
فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍؕ-اِنَّ
ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-وَ اللّٰهُ لَا
یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّؕ ترجمۂ کنز ُالایمان: اے ایمان والو نبی کے گھروں میں نہ
حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ مثلا کھانے کے لیے بلائے جاؤ نہ یوں کہ خود اس کے پکنے کی
راہ تکو ہاں جب بلائے جاؤ تو حاضر ہو اور جب کھا چکو تو متفرق ہو جاؤ نہ یہ کہ بیٹھے
باتوں میں دل بہلاؤ بےشک اس میں نبی کو ایذا ہوتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے
تھے اور اللہ حق فرمانے میں نہیں شرماتا۔( پ 22، الاحزاب:53 ) صراط
الجنان: اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! میرے حبیب صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے گھروں میں یونہی حاضر نہ ہو جاؤ بلکہ جب اجازت ملے جیسے کھانے
کیلئے بلایا جائے تو حاضر ہوا کرو اور یوں بھی نہ ہو کہ خود ہی میرے حبیب صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے گھر میں بیٹھ کر کھانا پکنے کا انتظار کرتے رہو، ہاں جب
تمہیں بلایا جائے تو اس وقت ان کی بارگاہ میں حاضری کے احکام اور آداب کی مکمل
رعایت کرتے ہوئے ان کے مقدس گھر میں داخل ہو جاؤ، پھر جب کھانا کھا کر فارغ ہو
جاؤ تو وہاں سے چلے جاؤ اور یہ نہ ہو کہ وہاں بیٹھ کر باتوں سے دل بہلاتے رہو
کیونکہ تمہارا یہ عمل اہلِ خانہ کی تکلیف اور ان کے حرج کا باعث ہے ۔ بیشک تمہارا
یہ عمل گھر کی تنگی وغیرہ کی وجہ سے میرے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو
ایذا دیتا تھا لیکن وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور تم سے چلے جانے کے لئے نہیں فرماتے
تھے لیکن اللہ پاک حق بیان فرمانے کو ترک نہیں فرماتا ۔ ( روح البیان، الاحزاب،
تحت الاٰيۃ: 53 ، 7/ 213-214)
پیارے پیارے اسلامی بھائیوں ! دیکھا آپ نے کہ حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا کتنا ادب ہے آپ اس بات کا اندازہ اس طرح بھی لگا سکتے
ہیں کہ خود ﷲ پاک نے بارگاہِ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آداب بیان
فرمائے۔ ہمیں کس قدر نبیٔ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرامین پر عمل
کرنا چاہیے، ان کے حکم کی فرمانبرداری کرنی چاہیے اور ان کے ادب و احترام کا خصوصی
طور پر خیال رکھنا چاہیے ۔ اللہ ہمیں بے ادبوں کے سایہ سے بھی دور رکھے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
؎ محفوظ سدا رکھنا شہا بے
ادبوں سے
اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی
بے ادبی ہو