دین
اسلام کی ترویج و اشاعت کے لئے جہاں بہت سی چیزیں
اہمیت کی حامل ہیں وہیں مبلغِ اسلام کا وعظ و نصیحت کرنا بھی کافی اہمیت
رکھتا ہے۔
حضور
کریم ﷺ کے بعد صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، اولیائے کاملین اور علمائے کرام جو
گزر چکے ہیں اور جوآج تک حیات ہیں، انہوں نے لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنا نہ چھوڑا،مسلسل
اس کے لئے مجالس کا قیام کرتے رہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا بھر میں اسلام کی
شاخیں پھیلنے لگی، کفار مجالس میں شریک ہوکر مسلمان ہونے لگے، لوگ تائب ہوکر نیکی
کی راہ پر گامزن ہونے لگے، ان ہی مجالس سے ایسے ایسے علماء پیدا ہوئے جو دنیا بھر
میں جاکر دین اسلام کی روشنی سے لوگوں کو منور کرنے لگے۔
وعظ و
نصیحت کی مجلس قائم کرنے میں ایک بہت بڑا نام امام ُالاولیاء، شہنشاہِ بغداد، قطبُ
الاقطاب، پیرانِ پیر، روشن ضمیر، آلِ رسول، سیّدُنا حضرت شیخ عبدُ القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی
ذات پاک بھی ہے۔
اہم بات
لیکن
حضور غوث پاک رضی
اللہ عنہ
کے اندازِ بیان اور وعظ و نصیحت کے بارے
میں گفتگو کرنے سے قبل یہ بات واضح کرتا چلوں کہ ہم جب بھی جملہ اولیائےکرام بشمول
حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ کاتذکرہ کرتے ہیں تو عموماً ہمارے زیرِ نظر اُن کی کرامات ہوتی ہیں اور ہم اِن کرامات سے ہی کسی
ولی کے مقام و مرتبہ کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اس ضمن میں صحیح
اور درست اسلوب یہ ہے کہ ہم صرف اولیائےکاملین کی کرامات تک ہی اپنی نظر کو محدود
نہ رکھیں بلکہ اُن کی حیات کے دیگر پہلوؤں کا بھی مطالعہ کریں کہ انہوں نے علمی،
فکری، معاشرتی، سیاسی اور عوام الناس کی خیرو بھلائی کے لئے کیا کردار ادا کیا ہے۔
حضور
غوث اعظم کی شخصیت مبارکہ ہمہ جہتی اوصاف کی حامل ہے۔ ان جہات میں سے کرامات صرف ایک
جہت ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم حضور غوثِ پاک کی تعلیمات کی طرف بھی متوجہ ہوں۔ ہمیں یہ
معلوم ہونا چاہیئےکہ جن کے ہم نام لیوا ہیں اور پوری دنیا جنہیں غوث الاعظم دستگیر
اور پیرانِ پیر کے نام سے یاد کرتی ہے، ان کی تعلیمات کیا ہیں ،ان کے ہاں تصوف، روحانیت اور ولایت کیا ہے۔
غوث پاک کی وعظ و نصیحت
حضور
غوث پاک رضی
اللہ عنہ
دیگر مصروفیات کے ساتھ تبلیغ ِعلمِ دین کے لئے روزانہ مجلس کا قیام کرتے تھے جس کا
آغاز حضرت ابو سعید مخزومی رحمۃ اللہ علیہ کے مدرسے سے ہوا جو محلّہ باب
الازج میں واقع تھا۔ جب آپ کی محفل کی شہرت بڑھنے لگی اور بغداد کے علاوہ قرب و
جوار سے لوگ جوق درجوق آنے لگے تو بہت سے مکانوں کو شامل کرکے مدرسے کی توسیع کردی
گئی۔لوگوں کا ہجوم بڑھنے کی وجہ سے بالآخر آپ کا منبر عید گاہ میں نصب کردیا گیا۔
حاضرین مجلس کی تعداد بسا اوقات 70 ہزار سے تجاوز کرجاتی تھی۔
اس
مجلس میں آپ رضی
اللہ عنہ
نہایت فصاحت و بلاغت سے وعظ و نصیحت فرماتے تھے۔آپ کا وعظ حکمت و دانش کے سمندر کی
مانند ہوتا اور اس میں آپ رضی اللہ عنہ کی روحانیت کا دخل بھی ہوتا تھا جس کی
تاثیر سے لوگوں پر وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی، بعض لوگ جوشِ الہٰی میں آکر اپنے
کپڑے پھاڑلیتے، بعض بے ہوش ہوجاتےاور بعض کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرجاتی تھی۔(حیات
المعظم فی مناقب سیدنا غوث الاعظم ، ص65،66)
آپ کی
مجلس کی یہ خاصیت تھی کہ آپ کے وعظ و نصیحت میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہود و
نصاریٰ، رافضین اور دیگر بدمذہب بھی شریک ہوکر اپنے سابقہ عقائد و مذہب سے تائب
ہوکر اسلام قبول کرتے تھے۔
اس
حوالے سے شیخ عمر کمیاتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: غوث پاک رضی اللہ عنہ کی
مجالس اس امر سے خالی نہیں ہوتی تھیں کہ یہود و نصاریٰ ایمان قبول کرتے تھے۔
چور، ڈاکو، راہزن اور شریر لوگ تائب ہوتے
تھے اور رافضی وغیرہ اپنے عقائد سے رجوع کیا کرتے تھے۔ (بہجۃ الاسرار،
ص312)
غوث پاک کے وعظ و نصیحت میں سینکڑوں علما کی شرکت
آپ رضی اللہ عنہ کے
وعظ و نصیحت کا یہ عالم ہوتا کہ ہر مجلس میں 400 علماء قلم و دوات لے کر بیٹھتے
اور جو کچھ سنتے اس کو لکھتے رہتے ، آپ کی مجلس کی یہ کرامات تھی کہ دور و نزدیک
کے شرکاء آپ کی آواز کو یکساں سنتے تھے۔(حیات المعظم فی مناقب سیدنا
غوث الاعظم ، ص65)
غوث پاک کی مجلس میں جنات کا ہجوم
اس کے
علاوہ آپ کے وعظ و نصیحت میں انسانوں سے زیادہ جنات شریک ہوا کرتے تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کے
ایک ہم عصر شیخ علیہ
الرحمہ
فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے جنات کی حاضری کے لئے وظیفہ پڑھا لیکن خلاف معمول
کوئی جن حاضر نہ ہوا۔ بہت دیر بعد چند جن حاضر ہوئے میں نے تاخیر کا سبب پوچھا تو
کہنے لگے کہ ہم حضرت شیخ عبدُالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی
مجلس میں حاضر تھے ،برائے مہربانی جب حضرت شیخ وعظ فرما رہے ہوں تو ہمیں نہ بلایا
کریں۔ میں نے دریافت کیا کہ کیا تم بھی ان کی مجلس میں حاضر ہوتے ہو؟ کہنے لگے کہ
آدمیوں کے اجتماع سے کہیں زیادہ ہم جنات کا اجتماع ہوتا ہے اور ہم میں سے اکثر
قبائل حضرت شیخ کے دست مبارک پر اسلام لے آئے اور اللہ کی طرف راغب ہوگئے۔(حیات
المعظم فی مناقب سیدنا غوث الاعظم ، ص67)
انبیائے کرام بھی حضور غوث پاک کی مجلس کو براہ راست فیض پہچاتے
تھے
حضرت
ابو سعید قیلوی علیہ
الرحمہ
فرماتے ہیں: میں نے کئی مرتبہ سرورِ کائنات، فخر موجودات حضرت محمد مصطفٰے ﷺ اور
دیگر انبیاء علیہم
السلام
کو آپ کی مجلس میں رونق افروز دیکھااور فرشتے آپ کی مجلس میں گروہ در گروہ حاضر
ہوتے تھے۔ اسی طرح رجال الغیب اور جنات کے گروہ کے گروہ آپ کی مجلس میں حاضر ہوتے
اور حاضری میں ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرتے تھے۔ (حیات المعظم
فی مناقب سیدنا غوث الاعظم ، ص67)
سرکار
غوث اعظم رضی
اللہ عنہ
اپنے وعظ و نصیحت میں مختلف علوم و فنون پر کلام کرتے تھے جن میں تصوف، معرفت،
فقہ، تفاسیرسمیت دیگر فنون شامل تھے۔
ایک آیت کی چالیس تفاسیر
بیان فرمادیں
ایک
مرتبہ غوثِ اعظم عَلَیْہِ
رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْاَکرَم کسی آیت کی تفسیر بیان فرمارہے
تھے،امام ابوالفرج عبدالرحمٰن ابن جوزی علیہ رحمۃ اللہ القَوی بھی اِس درس میں
شریک تھے۔حضورِ غوثِ پاک نے چالیس تفاسیربیان فرمائیں جس میں سےگیارہ تفاسیر امام
ابنِ جوزی علیہ
رحمۃ اللہ القوی
کے علم میں تھیں جب کہ29 تفاسیر پر آپ رحمۃ اللہ علیہ نےتعجّب اور
لاعلمی کا اظہار کیا پھرجب غوثِ پاک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاكہ اب ہم قال سے حال
کی طرف چلتے ہیں،تو لوگ بہت زیادہ
مُضْطَرِب ہو گئے۔ (قلائد
الجواھر، ص 38)
مجلس کے دوران مختلف موضوعات پر کلام
شیخ
عالم زاہد ابو الحسن سعد الخیر بن محمد بن سہل بن سعد انصاری اندلسی فرماتے ہیں:
میں شیخ عبدُالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی
مجلس میں 529ہجری میں حاضر ہوا۔ میں سب لوگوں سے آخر میں تھا ۔ آپ زہد کے بارے میں
وعظ فرمارہے تھے۔ میں نے دل میں کہا میرا
مرض یہ ہے کہ آپ معرفت پر کلام کریں تب آپ نے زہد سے کلام قطع کیا اور معرفت میں کلام
کرنا شروع کردیا ،میں نے آج تک ایسا بیان
نہیں سنا تھا پھر میں نے دل میں کہا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ آپ شوق پر کلام کریں تب
معرفت سے کلام موقوف کیا اور شوق پر کلام شروع کردیا، میں نے اس سے پہلے کبھی ایسا
کلام نہیں سنا تھا پھر میں نے دل میں کہا کہ آپ غیب و حضور پر کلام کریں تب آپ نے فنا و بقاء سے قطع کلام کرکے
غیب و حضور میں کلام شروع کیا ،ایسا کلام میں نے آج تک نہیں سنا تھا کہ بے مثل
کلام تھا پھر فرمایا ابو الحسن! تیرے لئے یہی کافی ہے۔ تب میں بے اختیار ہوا اور
میں نے اپنے کپڑے پھاڑ دیئے۔(بہجۃ الاسرار، ص306)
یہاں
یہ بات بھی ضمناً عرض کرتا چلوں کہ جہاں سرکار غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ مجلس
میں وعظ و نصیحت فرماتے ہیں وہیں دن کا ایک بڑا حصہ درس و تدریس کی مصروفیت میں
گزرتا تھا جس میں ہزاروں طلبہ علم ِدین سے فیض یاب ہوتے تھے۔
غوث پاک کی علم وفنون پر مہارت
وعظ و
نصیحت کے علاوہ آپ رضی اللہ عنہ اپنے مدرسے میں فقہ، حدیث، تفسیر، نحو جیسے 13
مضامین (Subjects)
کا تدریس بھی فرماتے تھے جبکہ بعدِ نمازِ
ظہر قراءت ِقراٰن جیسا اہم مضمون پڑھاتےتھے۔
(قلائد
الجواھر، ص 38)
آپ رحمۃ اللہ علیہ سے اکتساب فیض
کرنے والے طلبہ کی تعداد تقریباً ایک لاکھ
ہےجن میں فقہاکی بہت بڑی تعدادشامل ہے۔(مراۃ الجنان،ج3،ص267)
صحبتِ غوثِ اعظم کی برکت
حضرت
سیّدنا عبدُاللہ خشّاب علیہ رحمۃ اللہ الوَہَّاب علمِ نحوپڑھ رہے تھے، درسِ غوثِ اعظم کا شہرہ بھی سُن رکھا تھا،ایک روز آپ غوثِ
اعظم عَلَیْہِ
رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْاَکرَم کےدرس میں شریک ہوئےجب آپ کو نحوی نکات نہ ملےتو دل میں وقت ضائع
ہونے کا خیال گزرا اسی وقت غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْاَکرَمآپ کی جانب
متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا:”ہماری صحبت اختیار کرلو ہم تمہیں(علمِ نحو کے مشہور
امام)
سِیْبَوَیہ (کامثل) بنادیں
گے۔“یہ سُن کرحضرت عبدُ اللہ خشّاب نحوی علیہ رحمۃ اللہ القَوی نے درِغوثِ اعظم پر مستقل ڈیرے ڈال دیئےجس کا
نتیجہ یہ ظاہر ہواکہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کو نحوکے
ساتھ ساتھ علومِ نقلیہ و عقلیہ پرمہارت
حاصل ہوئی۔ (قلائدالجواھر،
ص32،تاریخ الاسلام للذھبی،ج 39،ص267)
سلطان صلاح الدین ایوبی کی فتوحات کا راز
بہت
عجیب تر بات جس کا نہایت قلیل لوگوں کو علم ہوگا اور کثیر لوگوں کے علم میں شاید
پہلی بار آئے کہ سُلطان صلاحُ الدِّین ایُّوبی نے جب القدس فتح کیا تو جس لشکر (Army) کے ذریعے بیت المقدس فتح کیا،
اس میں شامل لوگوں کی بھاری اکثریت حضور غوث الاعظم کے تلامذہ کی تھی ،گویا آپ کے
مدرسہ سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ صرف مجتہد ہی نہیں تھے بلکہ عظیم مجاہد بھی
تھے۔
سُلطان
صلاحُ الدِّین ایُّوبی کی آدھی سے زائد فوج حضور غوث الاعظم کے عظیم مدرسے کے طلبہ
اور کچھ فیصد لوگ فوج میں وہ تھے جو امام غزالی کے مدرسہ نظامیہ کے فارغ التحصیل
طلبہ تھے۔ سُلطان صلاحُ الدِّین ایُّوبی کے چیف ایڈوائزر امام ابن قدامہ المقدسی
الحنبلی حضور سیّدُنا غوث الاعظم کے شاگرد اور خلیفہ تھے۔ آپ براہِ راست حضورغوثِ
پاک کے شاگرد، مرید اور خلیفہ ہیں۔ گویا تاریخ کا یہ سنہرا باب جو سُلطان صلاحُ
الدِّین ایُّوبی نے رقم کیا وہ سیّدُنا غوث الاعظم کا فیض تھا۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ کے
تلامذہ (شاگرد) بڑے
بڑے عہدوں پر فائز ہوئے مثلاً سلطان
نورُالدّین زنگی رحمۃ
اللہ علیہنےتلمیذِ
غوثِ اعظم حضرت حامد بن محمودحرانی رحمۃ اللہ علیہ کوحَرّان
میں قضا(Justice)اورتدریس (Teaching)کا منصب سونپا۔تلمیذِ غوثِ اعظم
حضرت زینُ الدّین علی بن ابراہیم دمشقیرحمۃ اللہ علیہسُلْطان صلاحُ
الدّین ایُّوبیرحمۃ
اللہ علیہ کےمُشیررہے۔(الشیخ
عبد القادر الجیلانی (الام الزہد القدوۃ)- دار القلم، دمشق، شام، ص287) حضور
غوثِ اعظم عَلَیْہِ
رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْاَکرَم کے طریقۂ تدریس اور اندازِ تربیت سے طلبہ میں دعوتِ دین کاجذبہ پیدا
ہوا۔ اسی جذبے کانتیجہ تھاکہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد مخلوقِ خدا کو راہِ
راست پر لانے،تزکیۂ نفس فرمانےاور جہالت کی تاریکی مٹانے کے لئے عالَم میں پھیل گئے۔فیضانِ غوثِ اعظم کودنیا بھر میں عام کرنے میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ وخلفا نے بھرپور
کردار ادا کیا۔